ڈاکٹر کاشف رفیق کی بات غلط نہیں تھی کہ ہم کیسے پاکستانی ہیں کہ جنگ کے اس شدید تنائو میں بھی مشاعرے منعقد کر رہے ہیں۔ اس پوسٹ کو پڑھ کر میری اس لئے ہنسی نکلی کہ میں بذات خود اس وقت ایف سی کالج کے مشاعرے میں مہمان خصوصی تھا اور جناب نذیر قیصر صدارت فرما رہے تھے۔ ایک لمحے کے لئے تو میں نے بھی سوچا کہ سچ مچ آخر یہ کیا ہو رہا ہے۔ ہال میں مشاعرہ برپا ہے‘باہر گرائونڈ میں کھیلیں ہو رہی ہیں اور یہ بھی نہیں کہ ہم لوگ جنگ سے بے خبر تھے ہمیں وہیں جہازوں کے گرانے کی خبریں بھی مل رہی تھیں‘ ایسے ہی جیسے یہ ایک عام سی بات تھی۔ یہ بلا کا اعتماد ہے کہ بھارت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ‘کوئی معمولی بات نہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو اللہ سلامت رکھے۔ اس کے پیچھے ہماری بہادر فوج ہی ہے جس نے بھارت کا حساب چکانے میں ذرا دیر نہیں کی۔ وزیر اعظم نے ایک راست قدم اٹھاتے ہوئے ان کا پائلٹ بھی واپس کر دیا۔ میں نے اس کو واپس کئے جانے کا منظر دیکھا جس میں وہ سینہ پھلا کر اپنے فوجیوں کے ہمراہ چل رہا تھا کہ جیسے وہ پاکستان میں توپ چلا کر آ رہا ہو۔ یہ مشاعرہ حلقہ فنون ادب شعبہ اردو ایف سی کالج کی طرف سے منعقد کیا گیا تھا۔ پروفیسر انیل سموئیل صدر شعبہ اردو اور ڈاکٹر شہزاد انصر کے زیر نظامت ہم نے اس شعری نشست کا لطف اٹھایا۔ شعرا میں تہذیب حاظی‘ علی زریون‘ سعدیہ بشیر‘ احمد حماد‘ تیمور حسن تیمور‘ وکٹوریہ پیٹرک‘ فرحت عباس شاہ‘ ناصر بشیر ‘ فرخ محمود اور دانش عزیز تھے۔ صاحب صدارت نے تازہ غزل سنائی: علم ہنر نہیں یہ محبت کی بات ہے یہ بات وہ نہیں جو سکھانے سے آئے گی قیصر جو کونج بچھڑی ہوئی ہے بہشت سے کھڑکی میں آسمان بنانے سے آئے گی علم و ادب کی ترویج کے لئے مشاعروں کا یہ سلسلہ بہت مفید ہے اور اس طرح نوجوان تعمیری کاموں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ فنون لطیفہ یا غیر نصابی سرگرمیاں بھی طلباء و طالبات کی تربیت اور تہذیب کے لئے بہت ضروری ہیں۔ یہ فارغ اوقات کو ثمر بار بناتی ہیں۔ یہ ان کے دماغ اور صلاحیت کو جلا بخشتی ہیں میں نے ایک چیز بطور خاص نوٹ کی ہے کہ جب سے ایف سی کالج خود مختار ہوا ہے تب سے یہاں ادبی سرگرمیاں باقاعدگی سے ہو رہی ہیں یہاں ڈاکٹر اختر شمار‘ ڈاکٹر اشفاق ورک اور طاہر شاہیر جیسے با صلاحیت ادیب اور شاعر موجود ہیں۔ عام سرکاری کالجز میں ایسی سرگرمیاں کم کم ہوتی ہیں۔ خود میرے کالج گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز میں ایسے مصاحب آئے کہ جن کا ذوق شوق کچھ اور ہی طرح کا ہے۔ جہاں شمع تاثیر جیسا تاریخی مشاعرہ ہوتا تھا‘ عام سی محفل بھی نہیں ہوتی۔ اس اعتبار سے ایف سی کالج نے اپنی الگ پہچان بنائی ہے ہاں پنجاب یونیورسٹی آئی آر ڈیپارٹمنٹ بھی قابل ذکر ہے۔ چلیے مشاعرے سے چنداشعار: محبت حد سے بڑھتی جا رہی ہے بس آنا جانا تھوڑا کم ہوا ہے (فرخ محمود) خواہش ہے میں خرید لوں غالب کا خستہ گھر اور معجزہ ہو بیچ سے اردو نکل پڑے (ڈاکٹر دانش عزیز) تونے دیکھا ہے کبھی ایک نظر شام کے بعد کتنے چپ چاپ سے لگتے ہیں شجر شام کے بعد (فرحت عباس شاہ) مشاعرے کے بعد سندھ سے آئے ہوئے گلوکار قاسم علی نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور ہارمونیم کے ساتھ نذیر قیصر کی غزلیں سنائیں اور خوب داد پائی۔ ایک مطلع یہ تھا: چاند آنکھوں میں ڈبویا نہیں جاتا مجھ سے اتنا جاگا ہوں کہ سویا نہیں جاتا مجھ سے دوسری شاندار نشست ہمارے دوست عزیر احمد نے اپنے گھر پر برپا کی تھی جس میں اس عہد کے لیجنڈ جناب عطاء الحق قاسمی بھی تھے جنہیں عزیر احمد اپنا مرشد کہتاہے۔ جہاں عطاء الحق قاسمی ہوں وہ محفل سرسوں کے سنہرے کھیت کی طرح بن جاتی ہے۔ آپ مستعمل معنوں میں کشت زعفران کہہ لیں۔ اصل میں یہ نشست جرمنی سے آئے ہوئے معروف شاعر محمد ادریس لاہوری کے اعزاز میں تھی۔ وہ اپنی اہلیہ اور اپنے بیٹے اور بیٹی کے ہمراہ تھے۔ راشد ممتاز‘ انیس احمد‘ انمول گوہر اور علی اصغر عباس بھی وہاں تھے۔ گپ شپ شروع ہوئی تو عطا صاحب نے یادوں کی پٹاری کھول دی۔ پھرہم تھے اور قہقہے۔ ان کا انداز بیاں بھی تو کمال ہے۔سب بیان کروں تو پورا کالم بھی کم پڑ جائے انہوں نے بتایا کہ جب وہ برطانیہ میں مشاعرہ پڑھنے گئے تو احمد ندیم قاسمی اور مظفر وارثی بھی ساتھ تھے ایک شخص جو مظفر وارثی کا بہت معتقد تھا اور ان کو سن کر بہت متاثر ہوا۔ مشاعرے کے بعد وہ ان کے پاس آیا اور مظفر وارثی کی بے حد تعریف کرتے ہوئے کہنے لگا آپ کا کلام بھی اپنی جگہ مگر ترنم کا تو جواب نہیں۔ جب قدرت نے آپ کو اتنی اچھی اور سریلی آواز دی ہے تو آپ ہیر کیوں نہیں گاتے۔ یہ سنتے ہی مظفر وارثی کا رنگ یکسر متغیر ہو گیا اور انہوں نے صلواتیں سنانا شروع کر دیں۔ وہ مداح اپنی جگہ ہکا بکا رہ گیا اور استفسار کرنے لگا کہ آخر اس نے کون سی ایسی غلط بات کہہ دی ہے۔ اس نے تو محض اتنا ہی کہا ہے کہ اتنی اچھی اور سریلی آواز کو ہیر گانا ہی زیبا ہے۔ عطاء الحق قاسمی صاحب نے کہا یار! اب دوبارہ یہ نہ کہنا وگرنہ اب مظفر وارثی تمہیں ماریں گے بھی۔ اس محفل میں سب سے دلآویز میاں محمد بخش کا کلام تھا جو ساز و آواز کے ساتھ ہمارے پیارے شاعر انیس احمد نے سنایا: سیں سیں میل سنگت دے ویکھیے تھاں تھاں وتھاں پٹیاں جنہاں بناں اک پل نہیں سی لگندا اوہ شکلاں یاد نہ رہیاں عطاء الحق قاسمی بتانے لگے کہ احمد ندیم قاسمی کو میاں محمد بخش پسند تھے۔ میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ میاں محمد میرا بھی تو ہے‘ انور مسعود نے تو ان کے کلام کا منظوم اردو ترجمہ کیا ہے۔ محمد ادریس لاہوری نے اپنا تازہ شعری مجموعہ’’ذراسی دھوپ رہنے دو‘‘ بھی عطا کیا۔ آخر میں پرتکلف کھانا تھا ایسا کھانا کہ جو بار بار کھایا جا سکتا ہے۔ محمد ادریس لاہوری کے دو شعروں کے ساتھ اجازت: تمازت کچھ تو سہنے دو ذرا سی دھوپ رہنے دو چلو تم غیر ہی رہنا ذرا اپنا تو کہنے دو