جنگ ہی مسئلوں کا حل نہیں مگر جنگ بھی مسئلے کا حل ہے۔ کوئی جنگ دوسروں پر ظلم ڈھانے اور ان کے ملک ومال ہتھیانے کے لیے لڑی جاتی، کسی کے لیے یہ اپنے دفاع اور حفاظت کا ناگزیر مسئلہ ہے، کبھی یہ اپنی عزت ووقار اور ناموس کی حفاظت کے لیے فرض ہوجاتی ہے، کبھی پرانی شکست کا بدلہ چکانے کے بعد قوم کے لیے فخر اور تسکین کا باعث بنتی ہے، وطن کے ایک حصے کو دشمن کے قبضے سے چھڑانے ، مقبوضہ خطے کے بہن ، بھائیوں کی عزت وناموس آزادی اور پاکستان کے دفاع کے تقاضے سے ہمارے لیے جنگ ناگزیر ہوچکی ہے۔ ہمای بہادر افواج پر 1971ء کی جنگ کا نہ صرف بدلہ واجب ہے بلکہ کشمیر میں اپنے ہم مذہب ، ہم وطن بہن ، بھائیوں کی جان ومال ، عزت اور وقار کی حفاظت کا فرض بھی باقی ہے۔ کیا کشمیر ہمارا وطن اور کشمیری ہمارے جسم وجان کا حصہ نہیں ہیں ، اگر ہیں تو پچھلے پندرہ مہینے سے انہیں چھوٹی چھوٹی کوٹھڑیوں میں قید کی اذیت سے گزارا جارہا ہے ، ان کے کاروبار بند ہیں، بھوک اور بیماری نے انہیں بے حال کررکھا ہے، ایسے میں فوج ان کے گھروں میں گھس کر نوجوانوں کو قتل ، بچوں کو اغوا اورعورتوں کی عصمت دری کرتی ہے، ایک لاکھ کشمیری قتل اور دس ہزار خواتین بے آبرو کردی گئی ہیں۔ کیا اب بھی انہیں ظلم وجبر سے بچانے ، ان کی زندگی اور عزت وحرمت کی حفاظت کرنے کے لیے جنگ کے میدان میں نکلنے کا وقت نہیں آیا؟ یہ بربریت 73برس سے تین نسلوں پر روا رکھی گئی ہے، پون صدی تک عالمی رائے عامہ اور اقوام متحدہ کی آس میں منتظر رہنا خود فریبی کی بدترین مثال ہے، 75برس سے کشمیر کا مسئلہ حل ہوا نہ مسئلہ فلسطین پر پیش رفت ہوئی، نہ افغانستان کے خلاف جارحیت ، عراق اور لیبیا کے قتل عام پر ان کے لبوں کو جنبش ہوئی ، صرف اس لیے یہ سب مسلمان ہیں، تیس سال تک متفقہ قرار دادوں کے باوجود آرمینیا کو آذربائی جان کے ہتھیائے علاقے واپس دلانے کی کوشش کی۔ صبر کیے جانے اور گھبرائے رہنے میں بڑا فرق ہے، اب کشمیریوں کی مدد نہ کرکے ہم صبر سے کام نہیں لے رہے بلکہ عرب حکمرانوں کی طرح بزدلی اور بے حمیتی کی حدوں کو چھونے لگے ہیں۔ ہم نے دانستہ آنکھیں موند اور کان بند کرلیے ہیں، ہم اپنی آرام دہ ، آسودہ زندگی میں تھوڑے خلل کو برداشت کرنے کے مقابلے میں بھائیوں کی جان اور بہنوں کی عصمت سے بے پرواہ ہوگئے ہیں۔پچھلے کئی دنوں سے تجربہ کار جرنیلوں ، عسکری تجزیہ کاروں اور ہوشیار ٹی وی، میزبانوں کے مباحثے سن رہا ہوں، کسی سابق اور فوجی جرنیل کے منہ سے یہ نہیں سنا کہ ہم بھارت کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ بری اور ہوائی جنگ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ماضی کے برعکس آج جاری تیاری ، مہارت ، جنگی سازوسامان اور جوانوں کے حوصلے تقاضہ کرتے ہیں کہ ؎ مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے میں سربکف ہوں لڑ ادے کسی بَلا سے مجھے اس کے برعکس بھارت کے عسکری ماہرین اپنی فوج کی حالت ، جنگ کی تیاری اور ملک کے اندرونی حالات پر تشویش میں مبتلا ہیں، ہم نے بھارت کے خلاف تین جنگیں لڑی ہیں، ان میں دو جنگیں بالکل بے سروسامانی اور نامساعد حالات میں لڑی گئیں۔ اس کے باوجود ہم ان کے مقابلے میں پورے قد سے کھڑے رہے، اکثر اوقات انہیں جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کے دروازے کھٹکانا پڑے۔ روس کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے ضیاء الحق کی پوری توجہ مغربی سرحدوں پر تھی، پاکستان کو دوسری طرف متوجہ بلکہ مصروف پاکر جنگی مشقوں کے بہانے (براس ٹیکس) انڈیا بہت بڑی تعداد میں اپنی افواج پاکستان کی سرحدوں پر لے آیا تھا، وہ رحیم یار خان کے ریلوے اسٹیشن ’’ریتی‘‘ کے قریب پاکستان کی جرنیلی سڑک اور ریل پٹری پر قبضہ کرکے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کردینا چاہتا تھا، جنرل پریم ناتھ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ 15جنوری 1987ء کو آرمی ڈے کے موقعے پر ہونے والے عشائیے میں وزیراعظم راجیوگاندھی سے کہتے ہیں’’مغربی محاذ پر صورت حال بہت اچھی ہے اور بہت جلد اس محاذ پر آگے جاکر میں آپ کو ایک پلیٹ میںسندھ اور دوسری میں لاہور پیش کروں گا‘ ‘ جواباً پاکستان نے بھی اپنی فوج سرحدوں پر بھیج دی۔ تب ضیاء الحق نے کرکٹ میچ کے بہانے انڈیا کا دورہ کرکے بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی کے کان میں نہ جانے کیا صور پھونکا کہ اس کا جسم پسینے میں نہا گیا، اور ٹانگیں لرزنے لگیں، ضیاء الحق کی واپسی تک بھارتی فوجوں کی واپسی شروع ہوچکی تھی۔ ضیاء الحق وہ ’’صور‘‘ جی ایچ کیو میں چھوڑ گئے ہیں۔ جب چاہیں پھر سے استعمال کریں۔ آج ہم پہلی دفعہ انڈیا کے مقابلے بہترین حالت میں ہیں، یہ بھی اسلم بیگ اور ضیاء الحق کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے، ہمارے پاس بغیر رکے مسلسل دس روز تک جنگ جاری رکھنے کی صلاحیت ہوا کرتی تھی۔ اب اس کو چالیس دن تک بڑھادیا گیا ہے ۔ آج ہم انڈیا کے مقابلے دو گنا سکت (سٹیمنا) رکھتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال کارگل جنگ سے دی جاسکتی ہے۔ جب بھارت کی دور مار توپوں کا گولہ بارود ختم ہوگیا تھا کیونکہ وہ اسے دوسرے ملکوں سے درآمد کرتا ہے ، جبکہ پاکستان ایمونیشن ، گولہ بارود کے معاملے میں خود کفیل ہے، شروع دن سے بھارت کی حکمت عملی پہلے حملہ کرنے کی تھی جبکہ پاکستان صرف دفاع کرنے کی حکمت عملی پر کاربند تھا، جنرل اسلم بیگ نے فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد 1989ء میں فوج کی دفاعی حکمت کو تبدیل کرکے پہلے حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کو اختیار کیا اور ضرب مومن مشقوں کے بعد اس کو عملی شکل دے دی گئی۔ چنانچہ ہم حملہ کرنے کی طاقت اور اس کے اندر تک گھس جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کولڈ سٹارٹ: ۔ پاکستان کی صلاحیت کو دیکھ کرہندوستان نے ’’کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرئن‘‘ کو اختیار کیا ، بھارت کا مقصد اپنی سات میں سے 6کمانڈز کو پاکستانی سرحد پر لانا اور اندر دور تک گھس کر پاکستان کو 2حصوں میں تقسیم کرکے اسے مفلوج کرنے کا تھا۔ اس کے جواب میں پاکستان کے مایہ ناز سائنس دانوں نے چند ہفتوں میں ایسا معجزہ سرانجام دیا کہ انڈیا کی ’’کولڈ سٹارٹ‘‘ ہمیشہ کے لیے اپنی چھاؤنیوں میںدفن ہوکر رہ گئی۔ ہمارے قابل فخر فرزندوں نے ’’ٹیکٹیکل نیوکلیئر‘‘ ہتھیار بنادئیے اور ان ہتھیاروں کو دشمن پر استعمال کرنے کے لیے ’’نصر‘‘ میزائل بھی، یہ میدان جنگ کے ہتھیار ہیں۔ اگر دشمن ہماری سرحد کے اندر گھس آئے تو ان ہتھیاروں کو استعمال کرکے انہیں آن واحد میں ملیامیٹ کیا جاسکتا ہے، یوں پاکستان کو ہر طرح اور ہرکسی کی پیش قدمی سے محفوظ بنادیا گیا۔ اب انڈیا اور اس کا شیطان اسرائیل مل کر کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہماری بری اور فضائی افواج مقدار کے حساب سے پورا توازن رکھتی ہیں، معیار ، مہارت ، جنگی مشین کی ٹیکنالوجی ، جنگ کی صورت میں ضروریات کی فراہمی انڈیا کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔ آج 58سال کے بعد انڈیا کو چین کے مقابلے میں اسی شکست کا سامنا ہے جو 1962ء میں ہوئی تھی۔ تب ایک سنہری موقع کو ایوب خان نے امریکہ کے بہکاوے میں آکر گنوادیا۔ کیاہم دوسری مرتبہ وہی حماقت دہرانے جارہے ہیں وہ بھی امریکہ کے بہکائے بغیر۔