26 فروری کی صبح جب انڈین طیاروں کی بالاکوٹ کے قریب بم گرانے کی خبر دیکھی تو ذہن فورا بیس پچیس سال پیچھے چلا گیا۔ میری افغان اور کشمیر جہاد سے 1987ء سے لے کر 12 اکتوبر 1997ء تک وابستگی رہی ہے۔ ایسے پرانے جہادی دوستوں سے رابطہ کیا جن سے میری 1987ء سے 1997ء تک تنظیمی زندگی میں ذاتی یاری بھی رہی۔ ان دوستوں سے علم ہوا کہ اس علاقے میں کوئی ٹریننگ سینٹر نہیں، جو تھا وہ نائن الیون کے بعد کی صورتحال میں کئی سال قبل ختم ہوچکا۔ میں چاہتا تو حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر پوسٹ لکھ کر حقائق بتا سکتا تھا لیکن جانتا ہوں کہ جنگی نوعیت کی خبروں اور گٹر نالوں والی خبروں میں ایک فرق یہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں "راز داری" حربی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ ایسی خبروں کا اظہار یا اخفا ریاست پر چھوڑ دیا جائے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ 17 سالہ جنگ کے دوران امریکہ کے افغانستان میں جو طیارے یا ہیلی کاپٹر طالبان کی جانب سے گرائے گئے وہ امریکی دعوے کے مطابق "تیکنیکی خرابی" کی وجہ سے گرے۔ جنگوں میں ریاستیں اس طرح کی غلط بیانیاں اس لئے کیا کرتی ہیں کہ حالت جنگ میں اپنے خلاف جانے والے سچ سے میدان جنگ میں کھڑی فوج اور اس کی پشت پر موجود قوم کے مورال پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ اس کی زبردست مثال 26 اور 27 فروری والے 48 گھنٹوں کے واقعات کی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان ایئر فورس نے جوں ہی دو انڈین طیارے گرائے ہمارا مورال آسمان پر جا پہنچا جبکہ صرف چند گھنٹے قبل جس بھارت میں جشن کا سماں تھا وہاں سوگ ہی طاری نہ ہوا بلکہ عوام کی طرف سے سوشل میڈیا پر "نو وار" کا سفید جھنڈا لہرا دیا گیا۔ مگر ان 48 گھنٹوں کے واقعات میں ایک سبق اور بھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ یہ سبق یہ سکھاتا ہے کہ آج کے زمانے کی جنگ اس لحاظ سے ایک مشکل جنگ بن گئی ہے کہ اب غلط بیانی چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں چل سکتی۔ افغانستان جیسے ویرانے میں تو یہ چل سکتی ہے لیکن نسبتاً متمدن ملکوں میں اب عسکری سچ بھی چند منٹ میں سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے آجانے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ بالاکوٹ والے واقعے پر ہمارے بعض سوشل میڈیا یوزرز نے از خود ایک غلط بیانی شروع کی کہ "یہ وہ والا بالاکوٹ نہیں" لیکن صد شکر کہ آئی ایس پی آر" نے زبردست شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس غلط بیانی پر مہر تصدیق ثبت نہ کی۔ حالیہ صورتحال میں نظر یہ آرہا ہے کہ سوشل میڈیا کے ہوتے اب جنگوں کے نتائج گھنٹوں میں تبدیل ہی نہیں ہوسکتے بلکہ فتح و شکست کے فیصلے بھی بہت جلد ظاہر ہونے کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ دنیا کی ہر فوج جنگیں قومی مورال کے زور پر لڑتی اور جیتتی ہے۔ اگر سوشل میڈیا کے ذریعے قومی مورال ہی زمین سے لگ جائے تو دنیا کی کسی بھی فوج کے لئے جنگ جیتنا تو درکنار لڑنا بھی شاید ممکن نہ رہے. اس کا فوری حل یہی سوچا جاسکتا ہے کہ جنگ کی جانب بڑھتے ممالک دورانِ جنگ اپنے ممالک میں سوشل میڈیا بند کردیں۔ مگر یہ حل یوں ایک مزید خطرہ بن سکتا ہے کہ جوں ہی ایک ملک جنگ میں اپنی بالادستی دیکھے گا وہ فورا اپنا سوشل میڈیا کھول دے گا۔ تب حریف ملک کے سمندر پار موجود لاکھوں شہری اس سے متاثر ہی نہ ہوں گے بلکہ وہ بذریعہ فون اپنے ممالک کو مصدقہ اور غیر مصدقہ ہر طرح کی خبریں بھیجنا شروع کر دیں گے۔ یوں سوشل میڈیا کی بندش سے بے یقینی کے شکار ملک میں افواہوں اور افراتفری کا ایسا ماحول پیدا ہوگا جس کے نتائج انتہائی مہلک ثابت ہوں گے۔ ہم حالیہ عرصے میں جس "ففتھ جنریشن وار" کا تذکرہ بار بار سنتے آئے ہیں اس کی اہمیت اور حساسیت اب بالکل عیاں ہوگئی ہے۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ ففتھ جنریشن وار کی شکل میں اب جنگ صرف فوجیں نہیں لڑیں گی بلکہ سوشل میڈیا کے ذریعے خود عوام کی بھی ایک بڑی تعداد اس میں حصہ دار ہوگی۔ اس حوالے سے قابل غور بات یہ ہے کہ عام سوشل میڈیا یوزر سوشل میڈیا پر موجود ہیوی ویٹس کی لائن لیتا ہے اور مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ہیوی ویٹس کی اکثریت ایسی ہے جو حربی شعور سے عاری ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی وابستگی بھی رکھتی ہے جبکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے ایسے فیس بک پیجز بھی ہیں جو لاکھوں فالوورز تو رکھتے ہیں مگر ان پیجز کو چلانے والے کوئی کہنہ مشق سمجھدار لوگ نہیں بلکہ لاابالی نوجوان ہیں۔ یہ ہیوی ویٹس ہوں خواہ سیاسی جماعتوں کے لاابالی پیجز ان کے لئے جنگ بھی داخلی سیاست جیسی سرگرمی ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ جنگیں پی ٹی آئی اور بی جے پی کے مابین نہیں بلکہ ملکوں کے بیچ ہوتی ہیں، لھذا اس میں اپنی سیاسی وابستگیاں بالائے طاق رکھنی ہوتی ہیں۔ اس کا خطرناک نتیجہ ہم یوں دیکھ چکے جب وزیر اعظم عمران خان نے 28 فروری کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو رہا کرنے کا اعلان کیا تو سوشل میڈیا کے احمقوں نے اس پر ردعمل اپنی سیاسی وابستگی کے مطابق دینا شروع کردیا۔ پی ٹی آئی سے وابستگی رکھنے والوں نے اس کی تحسین کی جبکہ نون لیگیوں نے عمران خان کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا۔ یہ "العوام کالانعام" کا بدترین اظہار تھا۔ ان احمقوں کو اتنی بھی عقل نہ تھی جو انہیں یہ دکھا دیتی کہ یہ فیصلہ عمران خان کا فیصلہ نہیں بلکہ ایک ایسا "قومی فیصلہ" ہے جس کے پیچھے پاکستان کی تمام پارلیمانی جماعتیں اور ادارے بھی کھڑے ہیں۔ اس پوری صورتحال میں ریاست کو بہت جلد سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی اویرنس پروگرام شروع کرنا پڑے گا۔ یہ بے انتہا ضروری ہے کیونکہ اب جنگوں پر سوشل میڈیا کے اثرات بھی پڑنے ہیں اور یہ اثرات تباہ کن ہونے کا بھرپور امکان رکھتے ہیں !