ہم جب ہوش سنبھال رہے تب سیاست اور صحافت میں روپے پیسے اور خود غرضی نشو و نما پانے لگی تھی میاں نواز شریف نے لاہور کے بڑے کالم نگار کہلانے والے صحافیوں اپنا بنا لیا تھا۔ایک صحافی کی انگریزی سے متاثر ہو کر ساتھ رکھ لیا‘دوسرے کو تقریر نویس بنا لیا۔خبریں لگانے میں مدد دینے والوں کے لئے پلاٹ‘بچوں کو اعلیٰ نوکریاں اور سرکاری حسابات سے نوازنے کا سلسلہ ادبی ثقافتی اداروں تک پھیل گیا‘اپنے مرضی کے ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر لگانے کی شرط پر نئے اور نسبتاً چھوٹے اداروں کو اشتہارات دیے گئے۔یہ وہی دور ہے جب کالم کے موضوعات تعلقات عامہ اور سیاسی جانبداری نے یرغمال بنا لئے۔لوگ ابراہیم جلیس‘احمد بشیر‘ ابن انشا جیسے کالم نگاروں کو بے روزگار ہوتا دیکھتے رہے۔قصیدہ گو ‘قصہ گو اور مفاد پرست قومی معاملات پر رائے سازی کرنے لگے۔ ایک بار کسی نوجوان سیاست دان نے پارلیمنٹ لاجز مدعو کیا۔خود موجود نہ تھے لیکن ان کے ایک دوست نے چار پانچ مدعوئین کے سامنے خاص مشروب رکھ دیا۔میں نے اس مشروب کی شکل پہلی بار دیکھی تھی۔باہر آئے تو ایک دوست نے خبردار کیا کہ یہ آئندہ تمہیں کبھی مدعو نہیں کریں گے۔یہ صاحب بعد میں وفاقی وزیر بنے‘اب بھی کسی جماعت میں اہم ہیں۔پرویز مشرف کا دور تھا کسی بااثر شخص کو ایک پلاٹ پسند آ گیا۔پلاٹ کے مالک سے رابطہ کیا۔مالک ایک بڑے اخبار میں سینئر عہدے پر تھا۔اس نے انکار کر دیا۔خریدنے کے آرزو مند نے مارکیٹ سے زیادہ دام پیش کئے۔انکار اقرار میں نہ بدل سکا۔خریدنے کا خواہش مند بھی ضدی تھا اس نے ایک طاقتور ادارے کے افسر سے مدد طلب کی۔افسر نے سینئر صحافی کو بلا لیا۔پلاٹ بیچنے کو کہا‘صحافی نے انکار کیا۔افسر نے لاہور کے مختلف علاقوں میں اس صحافی کے ایک درجن سے زائد پلاٹوں کی تفصیل سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ بیچو ورنہ تحقیقات کے لئے تیار ہو جائو۔یہ صحافی کئی بار حکومتوں سے پلاٹ لے چکے تھے۔ لاہور پریس کلب ہائوسنگ سکیم بنی۔پریس کلب کے تمام ارکان کو حکومت نے دس دس مرلے کا پلانٹ آسان اقساط میں الاٹ کیا۔استاد محترم حسین نقی نے یہ کہہ کر پلاٹ لینے سے معذرت کر لی کہ ان کے پاس ماڈل ٹائون میں اپنا گھر ہے اور انہیں کوئی مالی پریشان نہیں۔دوسری طرف کئی کئی پلاٹ لینے والے استادوں نے بے گھر صحافیوں کا حق غصب کرنے میں شرم محسوس نہ کی۔ جن دنوں عمران خان نے دھرنا دے رکھا تھا‘ن لیگ کی حکومت نے کئی اینکروں کی خدمات حاصل کیں۔کالم نگاروں کی نسبت اینکروں کے ساتھ بڑی ڈیل کی گئیں۔ایک اینکر کو اسلام آباد کے سید پور گائوں میں ریسٹورنٹ کے لئے پلاٹ دیا گیا۔کئی حامیوں کو ایڈجسٹ کرایا گیا‘کچھ خواتین دنوں میں امیر ہو گئیں۔کئی صحافی ڈی جی پی آر اور پی آئی ڈی کے فنڈز سے نوازے گئے۔کئی اپنی سیاسی جائیدادوں کی کھل کر قیمت لیتے نظر آئے‘بہت سے خفیہ رہ کر اب تک ماہانہ وصول کر رہے ہیں۔ ایک روز حسین نقی صاحب ملے۔کالم کی تعریف کی۔بولے ٹی وی پر آئو۔میں کیا کہتا ٹی وی پر متوازن آدمی کی گنجائش کہاں چھوڑی گئی ہے۔پارٹیوں کے پاس فنڈز ہوتے ہیں۔وہی طے کرتی ہیں کہ کس اینکر کے شو میں ان کی نمائندگی کون سا تجزیہ کار کرے گا۔میڈیا ہائوس بھاری اخراجات سے چلتے ہیں۔سب سے زیادہ اشتہار سرکار دیتی ہے۔اپوزیشن بھی سرکار ہوتی ہے۔جس بندے سے حکومت اور اپوزیشن دونوں خائف رہیں اس کو کوئی موقع نہیں دیتا۔ ایک ذاتی تجربہ ہے۔دس بارہ سال پہلے ایک نئے اخبار میں ملازمت ملی۔ہمارے ایک بزرگ دوست اس کے ایڈیٹر تھے۔عام معاملات میں بہت اچھے لیکن مسلم لیگ کے متعلق کوئی تنقیدی لفظ شائع نہ ہونے دیتے۔میرا کالم مقبول ہو رہا تھا۔چیف ایڈیٹر نے صفحہ 3پر شائع کرنے کی منظوری دی۔میں نے پنجاب کارڈیالوجی میں ناقص دوا سے 150ہلاکتوں اور اس کے بعد حکومت کے حامی دواساز ادارے کے سیرپ سے دو سو ہلاکتوں کے مشہور واقعات پر ایک کالم ’’شربت کرتوت سیاہ‘‘ لکھا۔دو دن بعد بتایا گیا کہ آپ پر چونکہ ذمہ داریاں زیادہ ہیں اس لئے کالم نہ لکھیں بلکہ وہ ذمہ داریاں دیکھیں۔ اس واقعہ نے 6سا ل تک مجھے کالم نگاری سے دور کر دیا۔بعد میں معلوم ہوا کہ کسی کے حکم پر ایسا کیا گیا تھا۔ بیس بائیس برس پر محیط پیشہ وارانہ سفر میں کئی بار اپنا موازنہ ان لوگوں سے کرنے پر مجبور ہوا جو کم اہل ہونے کے باوجود مالی طور پر ہم جیسے صحافیوں سے آسودہ ہیں۔ کئی بار وقتی مشکلات نے حد درجہ پریشان کیا لیکن بعد میں اطمینان کی دولت نے آسودہ کر دیا۔شیخ سعدی کی وہ حکایت یاد آ گئی جس میں ایک محنت کش اور آزاد شخص اپنے بھائی کو نصیحت کرتا ہے کہ تم بادشاہ کے دربار میں سنہری پٹہ لگائے کھڑے رہتے ہو اور اس کو باعث عزت سمجھتے ہو۔بادشاہ کی ناراضی کا تمہیں خوف رہتا ہے۔میں آزاد ہوں۔خدا کے سوا میرا سر کسی کے سامنے نہیں جھکتا۔ حکومت نے صحافیوں کو رقوم بانٹنے کی تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ایسا ہونا چاہیے تاکہ معلوم ہو کہ جمہوریت کا درد جس جس پیٹ میں ہے وہ اصلی ہے یا کسی گاجر کھانے سے ہوا۔