ترے اثر سے نکلنے کے سو وسیلے کیے مگر وہ نین کہ تونے تھے جو نشیلے کئے ابھی بہار کا نشہ لہو میں رقصاں تھا کف خزاں نے ہر اک شے کے ہاتھ پیلے کئے یہ آنکھ کا نشہ بھی عجیب ہیں اس نشے کی بات نہیں کر رہا کہ جس کے بارے میں ہمارے دوست غلام محمد صاحب نے کہا تھا تم ناحق ناراض ہوئے ورنہ میخانے کا پتہ ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے ویسے نظر میں جادو تو ہوتا ہے اور نظر لگ بھی جاتی ہے بات تو اثر آفرینی کی ہے۔ چہ جائیکہ مولانا فضل الرحمن مریم نواز اور بلاول کے زثرو اثر آئے یہاں تو معاملہ الٹ ہو گیا وہی کہ رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی آکھو مینوں ڈھیدو رانجھا ہیر نہ آکھے کوئی۔ میرا خیال ہے بات آپ سمجھ گئے ہونگے مگر کچھ میرے جیسے ناسمجھ بھی تو ہوتے ہیں چور چور کے شور سے ایک تو یہ برآمد ہوا کہ چور مچائے شور۔ پی ڈی ایم نے الیکشن کمیشن کے سامنے جو احتجاج کیا اس کی ون لائن یہی تھی دوسری بات یہ کہ مولانا نواز شریف اور زرداری کی اگلی نسل کو آخر کار اپنے بیانیے پر لے آئے آپ خود نوٹ فرمائیں کہ جب مولانا فضل الرحمن عمران خان پر یہود ی کے ایجنٹ ہونے کا الزام دھر رہے تھے تو مریم اور بلاول ذرا سہمے ہوتے تھے مگر اب ان دونوں نے مولانا کے ساتھ سنگت کرتے ہوئے باقاعدہ گایا کہ بھارت اور اسرائیل نے پی ٹی آئی کی فنڈنگ کی جو اصل بیانیہ تھا اسے سب نے کسی نہ کسی انداز میں گول کر دیا آگے آپ خود سمجھدار ہیں انور مسعود کا ایک مزاحیہ شعر یاد آ گیا: میں نے کہا اے جان من اس نے کہا کہ کیا کہا میں نے کہا کہ کچھ نہیں اس نے کہا کہ ٹھیک ہے لگتا ہے کہ معاملہ زیادہ بگڑ رہاتھا تو یہ ٹھیک ہونے کی طرف جا رہا ہے۔ تاہم ایک بات محمود اچکزئی کی ہمیں اچھی نہیں لگی اور وہ سیدھی سیدھی حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والی تھی کہ انہوں نے اگرچہ لائٹ ٹون میں مولانا سے فتویٰ طلب کیا کہ اگر لوگ بھوکے ہوں تو انہیں اجازت مل جائے کہ سرکار کے گودام خالی کر دیں یقینا یہ کوئی شعوری بات نہیں ہے مگر خدا لگتی کہوں گا کہ مجھے شیخ رشید بھی یاد آئے جنہوں نے کبھی اسی طرح کا لب و لہجہ اختیار کیا تھا کہ پکڑ لو‘ آگ لگا دو وغیرہ وغیرہ اور اس کے ساتھ ہی عمران خاں بھی تو نہیں بھولے کہ انہوں نے بجلی کے بل جلائے اور تقریباً سول نافرمانی کی طرف لوگوں کو لے جانے کی کوشش کی۔ سب مکافات عمل ہے عسکری قوت نے تب بھی صبر اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔ کبھی ذھن میں قائد اعظم کو لائیں کہ وہ کتنے نرم خو تھے اوردلیل سے سب کو لاجواب کرتے تھے۔ جگر یاد آئے: وہ نوائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتح زمانہ پیارے قارئین حقیقت یہی ہے کہ سب افراتفری اور شور شرابہ خلق خدا کے لئے نہیں بلکہ سب کا اپنا اپنا رونا ہے اور یہ نفس پرستی ہے سب پیسہ بنا رہے ہیں اپوزیشن ہو یا حزب اقتدار جھوٹے سارے ہی ہیں بلکہ یہ جھوٹ کی پنڈیں ہیں ساکھ سب کی راکھ ہو چکی ہے لوگ وہی ہیں جنہوں نے اپنے مقصد کے ساتھ عشق کیا وہ آج بھی زندہ ہیں ان کے دیانت کی گواہی دشمن بھی دیتے ہیں تاریخ بھی ان کا نام روشن رکھتی ہے ہائے ہائے پھر جگر کی اسی غزل کا شعر یاد آ گیا: ترے عشق کی کرامت یہ اگر نہیں تو کیا ہے کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ سیاست میں اس وقت کافی گرمی آ چکی ہے مگر کچھ نیا نہیں سوشل میڈیا پر کچھ کلپس ایسے ضرور چل رہے ہیں جو فکر انگیز ہیں۔ تعلیم کے ضمن میں تشویش بھی ہے اس سب کچھ کو الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا کچھ وعدہ و پیما بھی سرکردہ لیڈر کے اور تہتر کے آئین میں اقلیت والی شک پر اعتراض اور پھر اس کا تعلق فارن فنڈنگ کیس سے جا جڑتا ہے یہی غلطی نواز شریف نے بھی کی تھی۔ ایسے جیسے اب نواز شریف کا تذکرہ اسامہ کی فنڈنگ سے جا ملا ہے۔ حکومت کو زیادہ مشکلات کا سامنا ہے کہ اسے تو مہنگائی کے جن نے بھی بے حال کر رکھا ہے اور وزیر اعظم بالکل بے بس نظر آتے ہیں اور غریب کی بھی بس ہو گئی ہے ارشد منظور کہتا ہے: تیرے گھر وچ کھانا نہیں میرے گھر وچ آٹا نہیں اور ایک خوبصورت شہر کراچی سے حمیرا راحت نے بھیجا ہے: خوشی کا نرخ کافی کم تھا راحت مرے بچپن میں مہنگائی نہیں تھی مگر اب تو دوسرے معاملات زیادہ تکلیف دہ ہیں اب دیکھیے کراچی ہی سے ریحانہ کنول کیسی طرحدار بات کرتی ہیں آپ اچھے خاصے سیدھے سیدھے لوٹ رہے تھے یہ کمپنی بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ غالباً یہ اشارہ نیب کی طرف ہے یا پھر حکومت کی طرف ایک تو عدلیہ بھی صاف کہہ چکی ہے کہ نیب میرٹ پر کام نہیں کر رہا احتساب کی بجائے انتقام نظر آتا ہے اب براڈ شیٹ کے حوالے سے پنڈورا بکس کھل گیا ہے پیارے وطن کے اربوں روپے کھوہ کھاتے چلے گئے دودھ کی ساری بلائی یہ بالائی طبقہ ہی کھا رہا ہے بہت کچھ سامنے آتا جائے گا اب قاضی فائز عیسیٰ نے شہزاد اکبر کے حوالے سے کئی سوال پوچھ لئے ہیں کہ وہ کون ہے اور ان کا حدود اربعہ کیا ہے۔احتساب کرتے کرتے لوگ خود بھی پھنس رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ تیزی سے ہم لوگ لوگ نتائج کی طرف جا رہے ہیں ہمارے دوست عطاء اللہ نے بھی زچ ہو کر اپنی غزل کا یہ شعر کہا ہو گا: اتنی سوتیلی ہے کھا جاتی ہے اپنے بچے ایک ڈائن جو حکومت کی طرح ہوتی ہے ویسے اس سے مراد حکومت کے لوگ ہیں اگر وہ اچھے ہو جائیں تو حکومت ماں کی طرح بھی تو ہو سکتی ہے جو عوام کے درد میں آنسو بہائے۔ غریبوں اور لاچوروں کے لئے وہ درد مند ہو چلئے عطا کی غزل کا مطلع بھی دیکھ لیں: کیسے سمجھائوں میں جنت کی طرح ہوتی ہے یہ جو عورت ہے محبت کی طرح ہوتی ہے آپ کے دیکھنے کا انداز کس طرح لفظوں کو معنی عطا کرتا ہے۔ ساری بات اصل میں نیتوں پر منحصر ہے۔ نیت ہی کو پھل لگتا ہے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت: جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے