آج کا کالم ایک شاندار کتاب کی نذر ہے۔’’حرفِ شوق‘‘ اردو کے لافانی نثرنگار مختار مسعود کی آخری کتاب ہے۔’’ آواز دوست ‘‘جیسی سحرانگیز کتاب سے تین عشرے قبل ان کا سفر شروع ہوا۔ اللہ نے پہلی تخلیق ہی کو غیر معمولی پزیرائی بخشی۔ اس کے درجنوں ایڈیشن فروخت ہوچکے ہیں، شائد ہی کوئی باذوق ہوگا، جس نے ’’آوازِ دوست ‘‘کو نہ پڑھا ہو۔ ’’سفرنصیب ‘‘ دوسری کتاب تھی ،اس میں ان کے سفری مشاہدات ہیں۔ ’’لوح ایام‘‘مختار مسعود کی ایک اور غیر معمولی کتاب ہے۔ انقلاب ایران کے دنوں کا چشم کشا مشاہدہ ۔ لوح ایام ایسی کتاب ہے، جسے بار بار پڑھنے کا جی چاہے۔اس کا ذائقہ نہ چکھنے والے بدنصیب ہی ہوں گے۔’’ حرفِ شوق ‘‘ مختار مسعود کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد مکتبہ تعمیر انسانیت ، لاہور سے شائع ہوئی۔ بدقسمتی سے اس شاندارکتاب کو ہمارے ہاں بری طرح نظرانداز کیا گیا۔ شاہد اس لئے کہ زمانہ جہالت چل رہا ہے، میڈیا پر ہر وہ چیز زیربحث لائی جاتی ہے، جس میں عقل، فکر اور دانش زرہ برابر بھی شامل نہ ہو۔حرفِ شوق پچھلے دس برسوں میں شائع ہونے والی بیسٹ نان فکشن بک ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کتاب پر کالم لکھے جاتے ، ٹی وی پروگرام ہوتے اور اس کے مختلف اقتباسات اخبارات، جرائد میں شائع ہوتے رہتے تاکہ پڑھنے لکھنے والے لوگ، خاص کر نوجوان اس طرف متوجہ ہوں۔ حال یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو یہ بھی علم نہیں کہ اس طرح کی کوئی کتاب شائع ہوئی ہے۔ ارادہ ہے کہ اس پر تفصیل سے لکھا جائے،اس میں بہت کچھ ایسا ہے جس کا حوالہ دیا جائے، جس پر بات ہو۔ آج اس کتاب کے دو پرمغز اقتباسات پڑھیئے اور سر دھنیئے۔ایک اہم مسئلے کی جانب انہوں نے توجہ دلائی۔ یہ عمومی مشاہدہ ہے کہ زمانہ طالب علمی میں کسی طالب علم کے ٹیلنٹ اور صلاحیتوں کی دھوم مچ جائے، یوں لگے آگے جاکر نجانے اس نے کیسی کیسی منزلیں سر کر لینی ہیں۔چند برسوں بعد اسے دیکھیںتو حیرت ہوتی ہے۔ جس سے غیر معمولی زندگی گزارنے ، لافانی شہرت کمانے کی توقع تھی،وہ ایک عام، اوسط سے بھی نیچے درجے کی زندگی گزار رہا اور اسی میں مست ہے۔دراصل کامیابی پانے کے لئے جس کٹھنائی، دشواری سے اس نے گزرنا تھا، نہ گزرا، جو قیمت ادا کرنا تھی، وہ نہ کی گئی، آسانی کو مشکل پر ترجیح دی اور ایک غیر معمولی انسان معمولی انسان کے طور پرجیا ، پھر دنیا سے چلا گیا۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی باصلاحیت شخص کو حالات کے تھپیڑے منزل سے بہت دور لے گئے۔ اس کے حالات خراب ہوگئے، مشکلا ت آن پڑیں، روزگار کے مسائل میں یوں الجھا کہ بڑے کام کی طرف متوجہ ہی نہیں ہو پایا۔ اسے تقدیر کہیں یا پھرکچھ اور؟آزمائشیں آدمی کو اٹھا دیتی ہیں، وہ اپنی سکت، استعداد سے کہیں زیادہ کر گزرتا ہے ،مگر اسی طرح آزمائشیں آدمی کو توڑ بھی دیتی ہیں، وہ جو آسانی سے کر سکتا تھا، وہ بھی نہ کر پایا اور سرے سے ہتھیار پھینک کر کم تر پر راضی ہوگیا۔ یہ سب تو خیر میں نے خاصے کھردرے انداز میں کہہ دیا۔ اسے مختار مسعود کی فسوں خیز نثر میں ملاحظہ کیجئے۔ لکھتے ہیں:’’ لندن میں ایک دن سرِ راہ میری ملاقات خورشید الاسلام سے ہوگئی۔ چند سال قبل خورشید بھائی مسلم یونیورسٹی کے سرکردہ اور شعبہ اردو کے ممتاز طالب علم شمار ہوتے تھے۔لائق فائق، متین اور خوش اخلاق، تحریر اور تقریر دونوں میں طاق۔ یونیورسٹی میں سب ان کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ ان کے مستقبل کے بارے میں اچھی اچھی باتیں کرتے۔ تان اس پر توڑی جاتی کہ طرزِتحریر اور اسلوب نگارش میں وہ کمال حاصل کریں گے کہ اردو ان پر ناز کرے گی۔ ایک دن باہر کے ایک معتبر شخص نے اس صاحب ِ جوہر کے لئے اپنے خط میں دو جملے ایسے لکھے کہ سب رشک اور حیرت کا شکار ہوگئے۔ یونیورسٹی میگزین میں اس خط کی اشاعت کے بعد معاصرین نے انہیں ہمیشہ بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھا اور ان سے بڑی توقعات وابستہ کر لیں۔ خورشید الاسلام نے ایم اے اردو کی سند کے لئے شبلی نعمانی پر جو طویل تنقیدی مقالہ لکھا تھا، وہ یونیورسٹی میگزین میں شائع ہوا۔ ہندوستان کے وزیرتعلیم نے وہ مقالہ پڑھا اور بے حد متاثر ہوئے۔ رشید احمد صدیقی کے نام خط لکھا اور دریافت کیا کہ یہ خورشیدالاسلام نام شخص کون ہے جس نے اتنا اچھا مضمون لکھا ہے؟ خورشید الاسلام کی انشاپردازی کی بے اختیار تعریف کرنے والے وزیرتعلیم کا نام مولانا ابوالکلام آزاد تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے علی گڑھ کو ایک نیا عبدالرحمن بجنوری مل گیا ہے۔ اس کے نام کا ڈنکا بجے گا، علی گڑھ سرخرو ہوگا۔ ہم اس بات پر ناز کریں گے کہ ان کے جونیئر اور جاننے والے ہیں۔ ’’سرما کی ایک شام میں ٹھٹھرتا ہوا برٹن کی غریب نواز دکان میں سستے اوورکوٹ کی قیمت کو دسترس سے باہر پاتے ہوئے آکسفورڈ سٹریٹ کے فٹ پاتھ پر کھڑا گرما گرم کاجو خرید رہا تھا کہ سامنے سے خورشید الاسلام آتے ہوئے نظر آئے ۔کئی سال کے بعد ان کے یوں اچانک ملنے پر جی بہت خوش ہوا۔ انہوں نے اوور کوٹ پہن رکھا تھا اور اپنے آپ کو دوسرے طریقوں سے گرم رکھنے کا بھی پورا پورا انتظام کیا ہوا تھا۔ رسمی سوال جواب کے بعد میں نے سب سے پہلے اس خدشے کا اظہار رضاکارانہ اور بن مانگے مشورہ کے طور پر کیا کہ تحقیق وتنقید کے لئے لندن کی موزونیت کہیں ان کی تخلیقی تحریر اور انشاء کے جوہر پر غالب نہ آجائے۔پھر فرط ِشوق سے دریافت کیا کہ ابوالکلام کے توصیفی خط کے بعد وہ کتنے مقالے، مضامین اور کتابیں لکھ چکے ہیں۔ کیا کچھ لکھنے کی تیاری کر رہے ہیں ، ان کے شاہ کار کے لئے کتنا انتظار درکار ہے۔کچھ دیر وہ خاموش رہے جیسے گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے ہوں۔ صبر آزما خاموشی کے بعد فرمانے لگے ، میں آج کل ایک اہم کام میں مصروف ہوں۔ انگریزوں کے لئے اردو کا قاعدہ لکھ رہا ہوں۔ میں نوجوان تھا۔ حساس تھا ۔ یہ بات سن کر میرا دل بجھ گیا۔خورشید صاحب سے اس کے بعد کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ اس اتفاقی ملاقات کے تیس پینتیس برس بعد میں نے ایک انگریز مستشرق سے یہ سوال کیا کہ خورشید الاسلام طرز اور صاحب اسلوب ادیب کی حیثیت سے اس مقام تک کیوں نہ پہنچ سکے جو مولاناآزاد کے خط کی روشنی میں ان کا حق بنتا تھا۔جواب ملا، انشا اور آسائش کا مقابلہ تھا۔ آسائش انشاء پر غالب آئی۔ خورشید کا تعلق تن آسانوں کے قبیلہ سے ہے۔ یہ لوگ جسم وجاں کو کسی مشکل میں ڈالنے کے قائل نہیں۔ پِتا ماری اور عمربھر مسلسل محنت ان کے بس کی بات نہیں۔ بالآخر وہ گواہی جو خود ان کی تحریر کو دینا تھا، اس کے لئے صرف گنے واقف حال احباب ہی رہ جاتے ہیں اور وہ بھی کتنا عرصہ ۔مجھے خبر نہیں کہ یہ تجزیہ کہاں تک درست ہے۔ میں تو صرف دو باتیں جانتا ہوں۔ پہلی یہ کہ اردو کو ایک بڑے انشا ء پرداز کا گھاٹا پڑ گیا۔ علی گڑھ کو دوسرا عبدالرحمن بجنوری میسر نہ آ سکا۔ دوسری یہ کہ جب بھی کسی آدمی کے دل میں آسودگی اور خوش باشی کی جنگ دیگر آرزئوں اور خواہشوں کے ساتھ لڑی گئی، اس میں فتح ہمیشہ آرام طلبی کی ہوتی ہے۔ استثنا کی صورت یہ ہے کہ وہ جنگ ایک اصول اور عقیدے کی خاطر کسی سر پھرے کے دل ودماغ میں لڑی جائے۔ ’’اسکول میں ایک ہم جماعت اردو کے پرچے میں اول آتا۔ مضمون نویسی میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرتا۔ خوش خط ایسا کہ اس کی تحریر پر کتابت کا گماں ہوتا ۔ جامعہ ملیہ سے آیا تھا۔ ایک مجموعہ الفاظ اور اصطلاحات ہمراہ لایا تھا۔ حتی الامکان انگریزی الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرتا۔ ہمارا ہائی سکول اس کا ثانوی مدرسہ تھا۔ ہم جسے سکول کا میگزین کہتے ، وہ اس کے لئے مجلہ یا جریدہ تھا۔ ادارت کے نگران کو ہم ایڈیٹر کہتے اور وہ اسے مدیر یا مجلہ نگار قرار دیتا۔ ایک دن وہ اسکول میگزین کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ میں اس کا اسسٹنٹ ایڈیٹر بن گیا۔ ’’وقت بڑا ظالم ہے۔ کیسی کیسی خوبیوں اور صلاحیتوں کو غیر ضروری قرار دے کر کاٹھ کباڑ کے ڈھیر پرپھینک دیتا ہے۔ مجھے اس کی بہت سی مثالیں یاد ہیں اور ساری یادیں تلخ ہیں۔ ان کی تلخی کی کیفیت وہ ہوتی ہے جسے ہندی میں مسوسا کہتے ہیں یعنی ندامت اور نقصان جو چپکے سے جبراً برداشت کیا جائے۔ آزادی کا آٹھواں دسواں سال ہوگا۔ کراچی ابھی ملک کا صدر مقام تھا۔ میں لاہور سے بکارِسرکار کراچی آیا ہوا تھا۔ سرکاری اجلاس میں شرکت کے بعد کرایے کی سواری میں بیٹھ کر ریسٹ ہائوس پہنچا۔ سواری سے اتر کر میں نے کرایہ دریافت کیا ۔ جواب ملا، میں اپنے نائب مدیر سے کرایہ نہیں لیتا۔ میں نقوی سے لپٹ گیا۔ایک ہی سانس میں بہت سے سوال کر ڈالے۔ بہت سی باتیںدریافت کیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا، دوسرے سانس میں اور کئی جوابات کا بوجھ اس پر لاد دیا۔ میں نے اسے یاد دلایا کہ دلی کالج میں ایک طالب علم محمد حسین ہوا کرتا تھا۔ اردو مضمون نویسی میں اول انعام لیا کرتا۔ بڑا ہو کر مولانا محمد حسین آزاد بن گیا۔ تم مسلم یونیورسٹی سکول میں انعام لیا کرتے تھے۔ تمہارے پرانے خیر خواہ تمہای انشائی صلاحیتوں کے ثمربار ہونے کا انتظار کر رہے ہیںمگر تم کسی اور راہ پر چل نکلے ہو۔جواب میں صرف اتنا کہا ، گھر ادھر فسادات میں جل گیا تھا، صلاحیتیں ادھر دوزخ شکم کی آگ بجھاتے ہوئے راکھ ہوئیں۔‘‘