سرائیکی زبان میں شعر کہنے والا شاکر شجاع آبادی شدتِ احساس اور بے ساختگی اظہار کا شاعر ہے ۔ شاکر کی نوا غریبوں کی آواز بن گئی۔ شاکر اس بارے میں اپنے خدا سے بھی ہمکلام ہو کر شکوہ کرتا رہتا ہے اور کہا ہے کہ مالک تیری جنت کی دلفریت نعمتیں یقینا برحق ہیں مگر اپنی غریب مخلوق کو اس دنیا میں کیوں بھوکا ما رہا ہے۔ شاکر نے اپنے خالق دوجہاں کی بارگاہ میں بارہا نہ صرف شکوہ کیا بلکہ غریبوں کی بھر پور وکالت بھی کی حتیٰ کہ یہاں تک زاری کرتا ہے کہ مالک ایک بار ازسرنو رزق کی تقسیم کر دے۔ شاکر شجاع آبادی نے تو بندہ مزدور کے تلخ اوقات دیکھ کر بارگاہ خداوندی میں فریاد پیش کی ہے کہ’’ میڈے رازق رعایت کر‘ نمازاں رات دیاں کر دے، جے روٹی رات دی پوری کریندیاں شام تھی ویندی‘‘ میرے رازق نمازوں میں رعایت کر دے اور نمازیں رات کی کر دے کیونکہ رات کی روٹی کے لئے محنت مزدوری کرتے ہوئے شام ہو جاتی ہے اور آج خاں صاحب کے تبدیلی والے دور میں مزدور خدا سے شکوہ اور خان صاحب سے گلہ کرتا ہے کہ ’’شام تھی ویندی پر رات دی روٹی نئیں ملدی‘‘ کہ شام ہو جاتی ہے مگر محنت مزدوری نہیں ملتی کہ جس سے رات کی روٹی خریدی جا سکے۔ ادھر جناب عمران خان شدت احساس رکھنے والے سادہ دل وزیر اعظم ہیں۔انہوں نے گزشتہ روزوفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی، اجلاس میں وفاقی وزارت خوراک اور صوبائی حکومتوں کو حکمنامہ بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ روٹی اور آٹے کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جائے۔ اس کے لئے صوبائی حکومتیں آٹے کے گوداموں پر چھاپے ماریں اور دیکھیں کہ کہیں ذخیرہ اندوزی تو نہیں ہو رہی۔ خان صاحب کی اس سادہ خواہش کی تکمیل اس وقت ممکن ہے کہ جب اقتصادی اور انتظامی مشینری ٹھیک ٹھاک کام کر رہی ہوں مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے اور خیبر پختونخوا میں تو سو فیصد پی ٹی آئی کی اپنی حکومتیں ہیں مگر دونوں جگہ خلق خدا بہت تنگ ہے۔ پنجاب میں لاء اینڈ آرڈر کی حالت دگرگوں ہے۔ محکمہ صحت کا بھی حال بہت برا ہے۔ ڈینگی نے اودھم مچا رکھا ہے۔ پنجاب میں تو گورننس نام کی کوئی چیز نہیں۔ جب عوام دہائی دینے لگتے ہیں تو خان صاحب وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو اسلام آباد طلب کر کے اپنی ’’برہمی کا اظہار‘‘ کرتے ہیں۔ پنجاب ہی نہیں مرکز میں بھی وزارتوں کی کارکردگی ناگفتہ بہ ہے۔ پارٹی کے اندر سے نہ صرف کابینہ کے اجلاسوں اور پارٹی کنونشنوں میں حکومت کی کارکردگی پر سخت تنقید کی جاتی ہے بلکہ قومی اسمبلی تک میں حکومتی ارکان اپنی حکومت کی اقتصادی اور انتظامی کارکردگی پر شدید تنقید کرتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب عمران خان کا پاتو رکاب میں ہے مگر ان کا ہاتھ باگ پر نہیں۔ لہٰذا تبدیلی لانے کے لئے انہوں نے اپنی ایک سالہ حکومت میں’’تبدیلی کلچر‘‘ اپنا رکھا ہے۔ اس تبدیلی کلچر کے تحت آئے روز کابینہ میں تبدیلی‘ پولیس میں تبدیلی، بیورو کریسی میں تبدیلی‘ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی، اپنے وعدوں میں تبدیلی۔اب پریشاں حال اوربے بس لوگ پی ٹی آئی کے نمائندوں اور میڈیا کے ذریعے اپنے محبوب قائد سے سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ کیا یہ ہے وہ تبدیلی جس کا آپ نے ہم سے وعدہ کیا تھا۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ جناب عمران خان وفاقی وزیروں کے قلمدانوں میں کڑے پیمانے پر تبدیلی لا رہے ہیں۔ پنجابی کی مثل ہے کہ ’’جیڑے لاہور بھیڑے اوہ پشور بھی بھیڑے ‘‘ کہ جو لاہور میں ناکام ہیں وہ پشاور میں بھی ناکام ہوں گے۔ مگر خدا جانے خان صاحب کے پاس وہ کون سا الہ دین کا چراغ ہے جس کے ذریعے وہ وزراء کے شعبے تبدیل کر کے ان کی کارکردگی باکمال بنا دیں گے۔ خان صاحب نے اپنی انتخابی مہم کے دوران سیاسی کلچر میں بڑی بنیادی اور مثبت تبدیل لانے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وزیروں مشیروں کے انتخاب میں وہ کسی دوستی‘ کسی رشتہ داری اور کسی قرابت داری کو قریب نہیں پھٹکنے نہیں دیں گے مگر ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ زلفی بخاری وزیر اعظم کے قریبی دوست اور رازداں ہیں۔ وہ منتخب نہیں ہیں مگر جناب وزیر اعظم کی نگہ انتخاب کا چاند تارا ہیں۔ جناب زلفی بخاری وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہیں مگر کہا جاتا ہے کہ ان کے خصوصی اختیارات اتنے ہیں کہ وہ جس وزارت میں چاہتے ہیں وہاں مداخلت کرتے ہیں حتیٰ کہ وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ تک میں انہیں دخل اندازی کا اذن عام ہے۔ اس تبدیلی کلچر کی زد میں بیچاری ملیحہ لودھی آ گئیں جو یو این میں پاکستان کی مستقل مندوب تھیں۔ ملیحہ لودھی اس پہلے امریکہ میں پاکستان کی سفیر بھی رہی ہیں اور برطانیہ میں ہائی کمشنر۔ عام تاثر یہ ہے کہ وہ بہت پڑھی لکھی خاتون اور سفارت کاری کے آداب سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انہوں نے جہاں بھی فرائض انجام دیے وہاں پاکستان کی نمائندگی کا حق ادا کر دیا۔ ایسی خاتون کے بارے میں ’’ہٹا دیا جانے‘‘ کا فرمان قدر ناشناسی کے زمرے میں ہی آئے گا۔ جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو وہ تباہ حال ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ لوگوں کو دو وقت کی نہیں ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں اور حکومت نے بھی بجلی کی قیمت میں 53پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا ہے۔ ہماری موٹر انڈسٹری برباد ہو چکی ہے۔ کئی کار کمپنیاں بند ہو چکی ہیں اور انہوں نے ہزاروں ورکروں کو نوکری سے نکال دیا ہے۔ خان صاحب نے تو وعدہ کیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آئیں گے تو ایک کروڑ نئی ملازمتیں نوجوانوں کو دیں گے۔ نئی ملازمت تو ایک نہیں ملی مگر اس وقت تک 22لاکھ لوگ خاں صاحب کے دور میں فارغ ہوچکے ہیں۔ کاروبار کاپہیہ جام ہے ہر کاروبار پر مردنی چھائی ہے ‘ ملیں بھی بند پڑی ہیں۔ حکومت جتنا قرض ایک سال میں لے چکی ہے اتنا پچھلی حکومت نے 5سالوںمیں لیا تھا۔ حکومت سے بزنس مینوں کا اعتماد اٹھ چکا ہے۔ یہ بنیادی حقیقت بھی خان صاحب کی آنکھوں سے اوجھل ہے کہ اقتصادی ترقی و خوشحالی کے لئے سیاسی استحکام نہایت ضروری ہے۔ جناب خان صاحب کو بات کون سمجھائے کہ وزارتوں کے قلمدانوں کو ری شفل کرنے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ بڑا سادہ سا اصول ہے کہ رائٹ مین فار دی رائٹ جاب اور پھر اس پر سو فیصد اعتماد کیونکہ انگریزی محاورے کے مطابق ادھورا اعتماد بے اعتمادی کے مترادف ہے۔ نیز جس کو جو ذمہ داری دی جائے اس کے لئے اسے مکمل اختیار بھی دیا جائے۔ خان صاحب اقرار کریں یا نہ کریں، پنجاب میں میاں شہباز شریف کی بحیثیت وزیر اعلیٰ کارکردگی کولوگ بہت براکہتے تھے اور اب بہت یاد کرتے ہیں۔ جناب خان صاحب نے پنجاب کا نظم نسق ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چلانے کی جو کوشش کی ہے وہ کامیاب نہیں ناکام ہے۔ جناب عثمان بزدار کی ناقص کارکردگی پر ہر پنجابی خان صاحب کو مورد الزام ٹھہراتا ہے کیونکہ وسیم اکرم پلس کا انتخاب کسی پہلو سے بھی قابل اطمینان نہ تھا۔ شاکر شجاع آبادی اپنی شاعری کے ذریعے اپنے رب سے راز و نیاز کرتے ہیں اور یہاں تک کہتے ہیں کہ مولا! روٹی ملے گی تو تیری عبادت بھی ہو گی انہیں غریبوں کا بھوکا سونا بہت پریشان کرتا ہے۔ خاں صاحب نے روٹی کا مسئلہ حل کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر یہ تو اور الجھ گیا ہے۔ تبھی تو شاکر شجاع آبادی اللہ سے فریاد کرتا ہے ؎ میڈا رازق رعایت کر‘ نمازاں رات دیاں کر دے جو روٹی رات دی پوری کریندیاں شام تھی ویندی