انہوں نے تو سعادت حسن منٹو کے گھر کی تختی بھی اکھاڑ پھینکی۔ یہ سب کچھ پچھلے بیس برس سے ماشاء اللہ نواز لیگ کی چھتر چھائوں تلے ہوا اور اعتراف کون کرے ٹریڈر مافیا’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘ میوزیکل گروپ تھا۔ نون لیگ کے لئے تن من اور خاص طور پر دھن قربان کرنے والے بیوپاری۔ اس دوران نہ صرف مال روڈ بلکہ ہال روڈ کی جانب لکشمی مینشن کی پوری عمارت کو جہازی سائز کے بل بورڈوں سے ڈھانک دیا گیا ۔ میرے فلیٹ کی چار کھڑکیاں بھی ان لعنتی بورڈوں کے پیچھے دفن ہو گئیں۔ خدا مزید بھلا کرے چیف جسٹس صاحب کا۔ انہوں نے حکم دیا کہ لکشمی مینشن کو دفن کر دینے والے بورڈ فی الفور ہٹا دئے جائیں اور یوں میرے پرانے گھر کی چار کھڑکیاں بھی برسوں کے بعد ظاہر ہو گئیں۔ میری آنکھیں یونہی تو بھر نہیں گئی تھیں۔ عمارت کا پورا چہرہ برسوں سے ڈھکا ہوا جب ظاہر ہوا تو اس کا حال برا تھا۔ نیم شکستہ اور مٹیالا اور سوگ میں رنجیدہ۔ تھینک یو چیف جسٹس صاحب آپ نے مجھے میری کھڑیاں دکھا دیں۔ میو ہسپتال کی مرکزی عمارت میں نصب کلاک گئے وقتوں کی یادگار ‘ اس نے کیسے کیسے زمانے دیکھے تھے۔ مجھے ستر برس پیشتر دیکھا تھا۔’’ہیلو‘ میں نے اسے سلام کیا ’’ہیلو گرینڈ فادر کلاک‘‘ میو ہسپتال کے سامنے لان میں تمام فٹ پاتھوں پر بستر بچھے تھے۔ مریض پڑے تھے۔ ان کے لواحقین ان کی زندگی کی بھیک مانگنے آئے تھے اور وہ سینکڑوں کی تعداد میں بے آسرا پڑے تھے۔ زرداری یا نواز شریف آئے یا بے شک عمران خان آ جائے‘ ان لوگوں کی تقدیر تو بدلنے والی نہیں۔ ان کی قسمت میں کوئی پرانا یا نیا پاکستان نہیں ہے۔ انہوں نے یونہی بے آسرا مر جانا ہے۔ یہ گلیوں کے آوارہ کتے جنہیں تونے بخشا ہے ذوق گدائی! میو ہسپتال کے ایک نسبتاً جدید وارڈ کے اندر سب سے پوشیدہ ایک قدیم گنبد دار عمارت‘ کہ یہی اس چھجو بھگت کا چوبارہ یا اس کے بچے کھچے آثار ہیں جس کی مثال نہ بلخ میں اور نہ بخارا ایسے شاندار شہروں میں تھی۔ حضرت میاں میر صاحب کا ذاتی دوست اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا‘ ان کے وفادار مُرید‘ چھجو بھگت۔ کیا یہی ان کا مسکن تھا؟ اگر آپ کی روح میں کھوج کی بے چینی بھر دی گئی ہے‘ افسانوں کرداروں‘ عمارتوں‘ داستانوں کھنڈروں اور نامعلوم کی جستجو آپ کی رگوں میں دوڑتی پھرتی ہے‘ تب آپ جان سکتے ہیں کہ کارٹر پر کیا گزری جب وہ نوجوان فرعون توتن خامن کے ہزاروں برس قدیم‘ ابھی تک چوروں سے محفوظ پوشیدہ مقبرے میں داخل ہوا۔ اس کے بدن پر لرزہ طاری ہو گیا کہ وہ پہلا انسان تھا جو ہزاروں برس قدیم ماحول میں پہلا سانس لے رہا تھا۔ اس پر کیا گزری جس نے دو ہزار برس پُرانا ’’فاقہ کش بُدھ‘‘ کا مجسمہ سوات کے ایک کھنڈر میں دفن دریافت کیا۔ جس نے ہڑپہ یا موہنجوڈارو کی پہلی اینٹ دریافت کی اور مٹی میں دفن’’ڈانسنگ گرل آف موہنجوڈارو ‘‘ کا بت کھود نکالا۔ پتن کی وہ بھیڑیں چرانے والی بڑھیا جسے چار ہزار برس پیشتر کے زمانوں کا بیس کلو وزنی سونے کا ہار زمین پر پڑا مل گیا تو اس پر کیا گزری اور مجھ پر بھی قدرے کم تاریخی اور افسانوی وارداتیں گزر چکیں جب میں غرناطہ کے قصبے الحمرا کے برج میں شب بسری کے لئے جا نکلا۔ جب میں نے پہلی بار کے ٹو کی چوٹی کو اپنی آنکھوں کے سامنے بلند ہوتے دیکھا۔ یا پھر چینی ترکستان میں ’’لِٹل کعبہ‘‘ کے قصبے کے قریب اصحاب کہف کی غار میں داخل ہوا جس کے اندر چین کا پہلا مسلمان گڈریا دفن ہے اور ان کے سوا بھی بہت کچھ گزرا۔میوہسپتال کے ایک جدید وارڈ کے صحن میں ایک قدیم گنبد دار عمارت‘ جو کہ چھجو بھگت سے منسوب ہے میںجب بھی اس کے اندر داخل ہوا تو مجھے بھی یہی محسوس ہوا جیسے حضرت میاں میر کا مرید لاہور کا متمول ترین صراف چھجو بھگت ابھی ابھی یہاں تھا۔ اس کی پارسائی کی مہک ابھی تک موجود تھی۔ اگر میں اس مختصر عمارت کی آرائش تزئین اور گُل بوٹوں کی سنہری بناوٹوں‘ چھت میں جڑے قیمتی پتھروں‘ آئینوں‘ محرابوں‘ خالص سونے سے اُلیکے ہوئے رنگ رنگ کے گل بوٹوں ‘ نیلاہٹ میں ڈوبی نقاشی‘ قیمتی پتھروں کی آمیزش سے سجی کھڑکیوں کو بھی بیان کرنا چاہوں تو بھی نہیں کر سکتا۔ یہ ایک سعی لاحاصل ہو گی۔ چھجو بھگت سے منسوب اس گنبد دار کمرے کی ہر اینٹ پر تاج محل سجے ہوئے ہیں۔ اسے بیان کرنے کے لئے ایک ماہر تعمیرات اور ماہر زیبائش اور ماہر مصوری کا قلم درکار ہے اور میں زریں قلم نہیں ایک معمولی ان گھڑا قلم ہوں۔ البتہ میں یہ بیان دے سکتا ہوں کہ کم از کم لاہور میں اس سے بڑھ کر حیرتوں کی سجاوٹوں اور گنگ کر دیے والی قدیم آرائشوں ایسا کوئی اور مقام نہیں ہے اور اس کی چھت قلعہ لاہور کے شیش محل کی چھت کو ماند کرتی ہے کہ ایک لائٹر جلانے سے پوری چھت نہ صرف آئینوں سے دمکتی ہے بلکہ اس میں نصب قیمتی پتھر بھی رنگ رنگ کے چراغوں کی صورت جل اٹھتے ہیں۔ چھجو بھگت تقریباً ساڑھے چار سو برس پیشتر شاہجہاں کے عہد میں لاہور کے قدیم شہر میں پیدا ہوا اور بھٹی راجپوتوں کی نسل سے تھا۔ وہ شروع سے ہی صوفیانہ سوچ میں غرق رہتا تھا اور اس کی ایمانداری اور پارسائی کے بہت قصے مشہور ہوئے ۔ وہ اس عہد کے عظیم صوفیا کرام اور ولی اللہ حضرات کی صحبت میں بیٹھا رہتا جن میں بالا پیر لاہوری‘ شیخ اسماعیل فہیمی‘میاں وڈھا کے نام سے پکارا جاتا تھا اور حضرت میاں میر صاحب شامل تھے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اس نے اپنے آپ کو یاد الٰہی کے لئے وقف کر دیا۔ گوالمنڈی کے علاقے میں جہاں آج ریلوے روڈ ہے وہاں اس نے ایک ایسا عالی شان چوبارہ تعمیر کروایا جو اتنا ذی شان اور عالی شان تھا کہ ہندوستان بھر سے لوگ اسے دیکھنے کے لئے آتے اور اس کی تعمیراتی عظمت کے قصے لکھتے کہانیاں کہتے،چھجو بھگت اس چوبارے کی آخری منزل پر سب سے الگ ہو کر گیان دھیان میں مصروف رہتا اور شام کے وقت نیچے اتر کر اپنے مریدوں سے ملاقات کر کے ان کے مسائل‘ دین اور دنیا کے معاملات سلجھانے کی کوشش کرتا۔ بالائی منزل تک باقاعدہ سیڑھیاں نہیں جاتی تھیں۔ بانس کی ایک سیڑھی تھی جس کے ذریعے چھجو اوپر پہنچتا اور پھر اس سیڑھی کو کھینچ لیتا تاکہ کوئی بھی اس کے ارتکاز میں مخل نہ ہو۔ وہ اکثر اپنے چاہنے والوں کو نصیحت کرتا کہ مجھ ایسے فانی انسان کے ساتھ وقت ضائع نہ کرو۔ اپنے اندر جو خوبصورت روح ہے اسے تلاش کرو۔ میاں میر صاحب بھی اس کی عبادتوں کے معترف تھے یہاں تک کہ اپنے ایک شاگرد کو نصیحت کی کہ جائو چھجو بھگت کی صحبت میں بیٹھو اگر تم اللہ تعالیٰ تک پہنچنا چاہتے ہو۔ تمہیں کچھ اندازہ نہ ہو گا کہ اس کا مذہب کیا ہے کہ وہ صرف راہِ حق کا متلاشی ہے۔چھجو بھگت کا ایک اور قول تھا کہ تبلیغ کیا کرنی‘ پہلے اندر کو حرص اور انا سے صاف کرو۔ چھجو بھگت نہ تو شراب کو ہاتھ لگاتا تھا اور نہ ہی گوشت کھاتا تھا اور نہ ہی بتوں کی پرستش کرتا تھا۔ وحدانیت پر یقین رکھتا تھا چھجو بھگت 1054ء ہجری میں فوت ہوا تو ایک درباری نے اس مقام پر سنگ مر مر کا ایک معبد تعمیر کروایا جہاں وہ عبادت کیا کرتا تھا۔ (جاری) ویسے میرا گمان ہے کہ حضرت میاں میر صاحب کی محفلوں میں چھجو بھگت کی ملاقات یقینا داراشکوہ سے بھی ہوئی ہو گی کہ وہ بھی حضرت کے قریبی مریدوں میں سے تھا اور بے شک میں محقق تو نہیں لیکن میرا قیاس ہے کہ میوہسپتال کے اندر جو عمارت چھجو بھگت سے منسوب چلی آتی ہے یہ وہ چوبارہ نہیں جہاں وہ رہائش پذیر تھا۔ یہ صرف ایک گنبد دار کمرہ ہے اور چوبارہ کا مطلب شاید چار منزلوں والی عمارت ہے جب کہ یہ عمارت صرف ایک کمرے پر مشتمل ہے۔ ممکن ہے یہ وہ معبد ہو جو اس کے ایک مرید نے اس کی وفات کے بعد تعمیر کیا تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ چھجو بھگت کی خصوصی عبادت گاہ ہو کہ اس کے درو دیوار پر کسی ہندو دیوی دیوتا کے نقش نہیں۔ کوئی تصویر نہیں‘ صرف پچی کاری کے نمونے ہیں اور گُل بوٹے نقش ہیں۔ اگرچہ لوک داستانوں میں جو مقولہ چھجو کے چوبارے کے بارے میں چلا آتا ہے کہ جومزا یا سُکھ چھجو دے چوبارے‘ اوہ نہ بلغ نہ بخارے عام طور پر اپنے آبائی وطن کے چین اور آرام کے حوالے سے ہے لیکن میرے نزدیک اس کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ اگر چھجو کا چوبارہ اتنا ہی شاندار اور مرصع تھا جتنا کہ میو ہسپتال کے درمیان میں واقع وہ مختصر تاج محل تو اس کا موازنہ بلخ اور بخارا کی شاہی عمارتوں کے حسن کے ساتھ کرتے ہوئے چھجو کے چوبارے کو ان پر فوقیت دی جاتی تھی ۔ اس کالم کے لئے میں نے مخصوص طور پر بے مثل فارسی شاعر اور محقق منشی کنہیا لال کی تاریخ لاہور ’کے علاوہ محترم مجید شیخ کے مضامین سے بھی راہنمائی حاصل کی بلکہ یو ٹیوب سے مشورہ کیا تو بتایا گیا کہ نہ صرف ’’چھجو دا چوبارہ‘‘ نام کی ایک فلم بھی بن چکی ہے بلکہ متعدد گیت بھی اس کی شان میں گائے گئے ہیں۔ مثلاً … ’’عشقے وِچ ڈُبیاں نوں ملے ناں کنارا۔ چھجو دا چوبارہ بھئی چھجو دا چوبارہ۔ اگر آپ گوالمنڈی چوک سے ریلوے روڈ پر جاتے ہوئے میوہسپتال کی جانب سفر کریں تو بائیں جانب اب بھی موجود ایک نیم شکستہ جھروکہ نظر آتا ہے۔ کسی زمانے میں وہاں میرا ایک شاعر دوست مسعود منور بہت حسرت زدہ حالت میں رہتا تھا اور میں اس کے نکاح میں شریک ہونے کے لئے اس جھروکے والی عمارت کے اندر گیا تھا۔ کیا یہ چھجو کے چوبارے کے آثار ہیں۔ بہر طور میری جستجو جاری رہے گی اور اگر کبھی چھجو کا چوبارہ دریافت ہو گیا‘ اگر وہ اب تک موجود ہے تو تب بھی آپ کو پھر سے اس عمارت کے آثار تک لے جائوں گا جس کا ثانی نہ بلخ میں تھا اور نہ بخارا میں۔ ہم میوہسپتال سے باہر آ کر ہسپتال روڈ پر پیدل چلتے ایبک روڈ کی جانب رواں ہو گئے جہاں ہم نے قطب الدین ایبک سے ملنا تھا۔ ہو سکتا ہے وہ چوگان کھیلتا ابھی تک گھوڑے سے نہ گرا ہو۔(جاری)