کہنے کو بیس نشستیں تھیں مگر بیس قسم کے تجزیے دے گئیں، بلکہ آنے والے قومی انتخابات کے لیے امکانات و خدشات کے بہت سے در وا کر گئیں۔جیت کی خوشیاں بھی ہیں اور ناکامی کا اعتراف بھی، مگر شاید یہاں فتح اور شکست کو کسی اور زاویے سے دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جن کی سیٹیں تھیں انہیں مل گئیں،اس میں حیران ہونے یا جشن منانے کی کیا بات ہے!دوسری طرف مریم نواز صاحبہ نے جس قدر پھرتی اور اطمینان سے شکست کو تسلیم کیا اس پہ حیرت ہے۔کیا ہمارا سیاسی کلچر اتنا ہی مہذب ہوگیا یا دال میں کچھ کالا ہے؟وہ صرف چار نشستوں پر مطمئن دکھائی دیتی ہیں اور خان صاحب پندرہ نشستیں لے کر بھی دھاندلی کا واویلا مچارہے ہیں۔ اب نئی تقریر کی بھلاکیا تک تھی جبکہ پارٹی جشن منانے میں مصروف ہے اور انصافیے ’’برائی ‘‘کو شکست دے کر روحانی طور پہ سرشار! اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی تقریریں سیاسی ابلاغ کی تھیوریز کا شاندار عملی مظاہرہ ہوتی ہیں۔ایجنڈا سیٹنگ تھیوری کہتی ہے کہ میڈیائی ابلاغ لوگوں کی توجہ کو جس طرف چاہے موڑ سکتا ہے۔اور مجبوری یہ کہ میڈیا کو خواہی نہ خواہی عمران خان کی تقریریں دکھانی پڑتی ہیں چاہے بعد میں ان پہ تنقید ہی کرے۔ مگر اس کا کیا حل کہ میڈیا پر نشر ہونے والے عمران مخالف بیانیے کی تشہیر یا ٹاک شوز میں ان پرتنقید کی بجائے ان کی یک طرفہ تقریر زیادہ قائل کرلیتی ہے ،یعنی: بْوٹ ڈاسن نے بنایا، میں نے اک مضموں لکھا ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا سو خان صاحب کا جوتا خوب چل رہا ہے،خاص طور پہ حکومت سے بے دخلی کے بعد۔تحریک انصاف کی جیت یہ بھی بتارہی ہے کہ لوگوں نے ان کے سازش بیانیہ کو بھرپور قبولیت بخشی ہے۔ سیاسی میدان میں جگہ بنانے کے لئے ان کے شخصی چارم نے ان کی مدد ضرور کی ہوگی،مگر اب سازش کا بیانیہ یسا ہِٹ ہوا ہے کہ قوم صدمے سے نکل کریکایک جہاد کے مائنڈ سیٹ میں آگئی ہے۔نہ جانے علمائے کرام اس بارے میں کیا کہتے ہیں مگر خان صاحب نے اپنے امریکی سازش اور چورغدارٹولہ کے موقف پر اسلامی اصطلاحات کا جوتڑکا لگایا ہے،اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے حامیوں کوحق و باطل کی جنگ کاایک نیا مفہوم ہاتھ لگ گیا ہے اور وہ ملک کو پہنچنے والے نقصان کا سارا غصہ میدانِ سیاست کو میدانِ کارزار بنا کر نکال رہے ہیں۔پاکستان میں جاری موروثی سیاست کے لگے بندھے داؤبیچ کے برعکس،اپنے سیاسی کیریئر کے آغاز ہی سے عمران خان نے محض اپنی شخصی مقبولیت پر انحصار نہیں کیا بلکہ پڑھے لکھے انداز میں اپنا امیج قائم کیا ہے،اورعوام کو ایجوکیٹ کرنے کے ذریعے عوام میں جگہ بنانے کی پالیسی اپنائی ہے۔یہ انداز مغربی جمہوریتوں میں چلنے والی سیاسی مہمات کی طرز کا ہے جن میں حقائق اور اعدادو شمار کی مدد سے پالیسی اور نظریہ کی بنیاد پر حریف پہ تنقید کی جاتی ہے،ساتھ ہی اپنا متبادل نظریہ اور تفصیلی پروگرام عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جس میں کیا کے ساتھ ساتھ کیوں پربھی بات کی جاتی ہے، ملکی حالات کو عالمی تناظر میں رکھ کر ایک وژن دیا جاتا ہے،پھر اس وژن سے عوامی مسائل کے حل کا راستہ نکالنے تک ایک واضح تصویر دکھائی جاتی ہے۔حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ عمران خان کے اس اندازنے نہ صرف عوام کو مزیدایجوکیٹ کیا ہے، بلکہ اب اس آگاہی کا دائرہ دوسری جماعتوں کے حامیوں تک بھی پہنچ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نون لیگ نے اپنی ناکامی کا تجزیہ کرتے ہوئے اول نمبر پر ’’لوٹوں‘‘کو ٹکٹ دینا رپورٹ کیا ہے جن کو ان کے اپنے ووٹرنے بھی قبول نہیں کیا۔حالانکہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کے مصداق سیاسی حریف کو نقصان پہنچانے والے کو اپنا ہیرو تصور کیا جانا چاہیے تھا، مگر سیاست میں لوٹا کریسی مخالف بیانیہ اتنا طاقتور ہو گیا کہ منحرف ہونے والوں کو عوام نے مسترد کر دیا۔اس اعتبار سے یہ بھی عمران خان ہی کی کامیابی ہے۔ دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ‘‘لوٹوں’’ والی نشستوں پر اس بار تحریک انصاف نے اپنے نئے امیدواروں کو کھڑا کیا تھا جو کئی نشستوں پر جیت بھی گئے ہیں۔یہ اصل جیت ہے کیونکہ ووٹر نے سوچ سمجھ کر ایک نظریے اور بیانیے کو ووٹ ڈال کر جتوایا ہے، جبکہ 2018میں پارٹی نے چونکہ بہت حد تک الیکٹ ایبلز پر انحصار کیا تھا،سوا سے پارٹی کی حقیقی جیت نہیں کہا جا سکتا تھا۔اگر پاکستان میں آزادانہ انتخابات اور جمہوری تسلسل رہے تو اگلے قدم پر امید کی جا سکتی ہے کہ امیدواروں کا انتخاب کرتے ہوئے اچھے کردار کو بھی اہمیت دینے کا شعور بیدار ہونے لگے تاکہ لوٹے پیدا ہی نہ ہوں۔ دوسری طرف نون لیگ ہے جسے بیٹھے بٹھائے صفر کے مقابلے میں چار نشستیں مل گئیں، بلکہ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ کے مقابلے میں ایک لاکھ ووٹ بھی زیادہ پڑا ہے۔تو پھر شکست کیسی!ان کے لیے تو یہ قومی انتخابات کے لیے امکانات سے بھرپور صورتحال ہے۔لہٰذا ضمنی انتخابات نے سب کو ہی خوش کردیا ہے۔البتہ نئی تقریر پر بات بیچ میں رہ گئی جس میں الزامات ہیں کہ نتائج پراثرانداز ہونے کے لیے لاکھوں ووٹوں کا ردوبدل،اورمردہ کہہ کر ووٹ کینسل کرنے کے اعدادوشمارتو ایک طرف رہے،چیف الیکشن کمشنر بنفسِ نفیس دھاندلی کے مبارک عمل میں شامل ہیں۔اب تک خان صاحب نے اپنی تقریروں میں نام یا کرتوت سے جس کو بھی پکارا اس کی شامت ہی آئی۔ گنجینہِ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے اس گنجینہِ معنی میں سے کام کی بات ان کے حامی خود ہی نکال لیتے ہیں اورپھر وہ بے چارے نہ لندن کی سڑکوں پر بچتے ہیں نہ موٹر وے پر۔ تواب تک خان صاحب کی تقاریر کے جادوئی اثرات کا اندازہ کرتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگلی باری چیف الیکشن کمشنر صاحب کی ہے، تیاررہیں۔