غالباً 82ء یا 83ء کی بات ہے ۔ روزنامہ وفاق میں ایک سینئر صحافی اکرام رانا صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ مجھے مسکین حجازی صاحب سے پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت میں ایک کام تھا۔ وہ مجھے اپنے سکوٹر پر یونیورسٹی لے گئے۔ حجازی صاحب نے مجھے وارث میر صاحب ملوادیا اور اُن سے جو پوچھنا تھا پوچھ لیا ۔ اکرام رانا صاحب پنجابی بہت اچھی بولتے تھے۔ ’’چل تینو اپنا دفتر وکھانا واں‘‘ اور ہم پینوراما پہنچ گئے۔ سیڑھیاں اُتر کر بیسمنٹ میں پہنچے تو حیران ہی رہ گیا۔ اُن کا ایک کتب خانہ ، حُقہ اور ٹھنڈا یخ دفتر دیکھ رہا تھا کہ رانا صاحب نے حُقے کا کش لیا اور موٹے شیشوں کی عینک کے پیچھے سے مسکراتی نگاہوں کے ساتھ گھورتے ہوئے کہا ’’ٹھیک اے؟‘‘ میں اُنہیں کیا بتاتا کہ کتنا ٹھیک اے۔ کچھ دیر میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین ضیاء الاسلام انصاری صاحب اور پھر ایم انور بارایٹ لاء بھی آگئے۔ ایم انور صاحب اُن دنوں بھٹو صاحب کے خلاف اپنی وکالت کے حوالے سے خاصے مشہور تھے۔ صحافت میں بھیگی ہوئی باتیں ،نظریاتی دوستوں اور دشمنوں کی حکائتیںاور شکایتیں۔ ضیاء اور بھٹو کے تذکرے اور فلسفے ۔ اک جہاں حیرت تھا جہاں میرا دل لگ سا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے ہوتا رہا اور رانا صاحب کے ساتھ اینٹی بھٹو اور ضیاء نواز صحافت بھی دیکھتا اور سنتا رہا۔ ایم اے ہوگیا مگر دل کہیں صحافت میں اٹک سا گیا۔ ابھی نتیجہ آنا تھا کہ ایک دن رانا صاحب نے سکوٹر پر بٹھایا اور ایبٹ روڈ پر طوبیٰ مرغ چنے کی ساتھ والی گلی میں گھُسے اور ایک دفتر کے سامنے سکوٹر روک دیا۔ اس دفتر کی پیشانی پر ’’روزنامہ جرأت؍ تجارت‘‘ لکھا تھا۔ رانا صاحب کے ساتھ ایڈیٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوا۔ سامنے جمیل اطہر صاحب تشریف فرما تھا۔ جمیل اطہر صاحب احتراماً کھڑے ہو گئے۔ دل میں سوچا کہ یا تو یہ رانا صاحب کے شاگرد ہیں یا سینئر کے احترام میں کھڑے ہوئے ہیں۔ اکرام رانا صاحب نے مجھے اُن کے حوالے کیا کہ اسے نیوز روم میں بھرتی کرلیں بطور ٹرینی ۔ تھوڑی دیر میں میری ملاقات دو ایسے بابوں سے ہوئی جنہیں میں آج تک نہیں بھلا سکا۔ دونوں کا تعلق غالباً لائل پور سے تھا۔ دونوں سادگی اور محبت کا مرقع تھے اور پرانے وقتوں کی نشانی تھے۔ یہ تھے سبحانی صاحب اور رانا احسان صاحب۔ یقین تو نہیں مگر لگتا تھا کہ رانا احسان صاحب لیفٹ کے صحافی ہیں۔ بطور سب ایڈیٹر کام شروع کردیا۔ مگر جب کبھی کوئی فنکشن ہوتا ۔۔ اس کا دعوت نامہ ہوتا تو کبھی کبھی ایک فوٹو گرافر کے ساتھ تھوڑی سی کوشش کرکے میں بھی چلا جاتا۔ وہاں جو ہوتا اس کی روداد لکھ لیتا اور دفتر آکر اس کی زبان درست کردی جاتی۔ مگر اسی دوران ایم اے کا رزلٹ آگیا اور اخبارات میں اشتہار دیکھ کر درخواستیں دینے لگا۔ والد صاحب لاہور ہائی کورٹ میں پریکٹس کرتے تھے۔ ایک دن گھر کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوا تو والد صاحب کے ایک دوست اُن کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ اپنے لب و لہجے اور بے تکلفی سے پرانے لاہوریے لگتے تھے۔ باتوں ہی باتوں میں پورا انٹرویو لے لیا انہوں نے۔ بتانے لگے کہ نوائے وقت کے پاس ہی مین روڈ پر میری ٹریولنگ ایجنسی ہے ۔ ایک دفعہ ضرور آئو۔ ایک دو روز کے بعد انہیں ملنے چلا گیا۔ ابھی اچھی طرح بیٹھا بھی نہ تھا کہ کھڑے ہوگئے اور مجھے لے کر نوائے وقت کے دفتر آگئے۔ چند ہی قدم کا فاصلہ تھا۔ گلوبل ایکسپریس اور نوائے وقت میں فاصلہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ہم سیدھے عارف نظامی صاحب کے کمرے میں آگئے۔ عارف نظامی صاحب اور منور میر صاحب کے مابین گفتگو اور مسکراہٹوں کے تبادلے سے مجھے پتہ چلا کہ میر صاحب اور نظامی صاحب کے درمیان گاڑھی چھنتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد عارف نظامی صاحب نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگے کونسا شعبہ پسند ہے اخبار میں؟ ’’سیاسی رپورٹنگ‘‘ میرے منہ سے نکلا۔ کسی کو بلایا اور مجھے چیف رپورٹر یا شاید پولیٹکل رپورٹر کے کمرے میں بھیج دیا۔ سامنے جو موصوف تشریف فرما تھے اُن کا نام لینا مناسب نہیں۔ تعلیم پوچھی، کنوینس کونسی ہے، کچھ مالی معاملات پر بات کی اور پھر صاف انکار کردیا۔ میں حیران اور پریشان عارف نظامی صاحب کے کمرے میں واپس آگیا۔ مجھے پریشان دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے کیا باتیں ہوئیں؟ میں نے گوش گزار کردیں۔ ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہنے لگے چائے پیئیں۔ میں کچھ نہ سمجھا۔ انکار کی وجہ بہت بعد میں سمجھ آئی۔ مگر اس وقت جو کچھ اس سیاسی رپورٹر کے بارے میں نظامی صاحب نے کہا وہ میرے لیے حیران کن تھا۔ بس اتنا کہا ’’آپ انٹرویو میں پاس ہوگئے اسی لیے آپ کو انکار ہوگیا۔ ایسا کریں آپ نوائے وقت کا کوئی بھی شعبہ جائن کرلیں۔ بعد میں آپ کو سیاسی رپورٹنگ میں لے آئیں گے۔ اقبال زبیری صاحب تشریف لائے اور میں اُن کے ساتھ نوائے وقت کے تمام شعبہ جات دیکھنے لگا ۔ زبیری صاحب بڑی ٹھنڈی میٹھی شخصیت کے مالک تھے ۔ سارا دفتر دیکھا اور پھر واپس عارف نظامی صاحب کے کمرے میں آگیا۔ ’’جی میں ذرا ایک دو روز سوچ لوں‘‘ ۔ ’’ضرور‘‘ نظامی صاحب نے کہا۔ میں اور منور میر گلوبل ایکسپریس کے دفتر واپس آگئے۔ جب تک گلوبل ایکسپریس کے دفتر میں رہا، میر صاحب مجھے نوائے وقت جائن کرلینے پر قائل کرتے رہے ۔ مگر وہ کیا کہ انسان کی افتادِ طبع ہی اُس کے فیصلوں کا سبب بنتی ہے اور فیصلے مقدر کا سبب۔ میں اسلام آباد ریڈیو میں پروڈیوسر بن کر لاہور چھوڑ گیا۔ 2015ء میں جب پاکستان ٹیلی ویژن بطور اینکر جائن کیا اور ’’دستک‘‘ کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا تو میں اور میری پرڈیوسر ہر ہفتے وہ شخصیت طے کرتے جسے انٹرویو کرنا ہے اور اس سے رابطہ کرنا ہے۔ وقت طے کرنا ہے ۔ ایک دن میں نے کہا کیوں نہ عارف نظامی صاحب کو انٹرویو کیا جائے۔ کہنے لگیں آپ کا کوئی رابطہ ؟ میں نے منفی انداز میں سر ہلایا۔ میری پرڈیوسر ایک جید اخبار کے ایڈیٹر کی صاحبزادی تھیں۔ عارف نظامی صاحب اُنہیں اپنی بیٹی کی طرح ٹریٹ کرتے تھے۔ انٹرویو کا وقت طے ہوگیا۔ رش کی وجہ سے میں دس منٹ لیٹ پہنچا۔ عارف صاحب تھوڑے سے ناراض لگے۔ انٹرویو کے سب سوال خاصی محنت سے تیار کیے تھے خاص طور پر خارجہ پالیسی پر۔ جب اُن کا موڈ ذرا ٹھیک ہوا تو میں نے اُن سے اپنی پرانی ملاقات اور منور میر صاحب کا ذکر کیا تو مسکرائے اور کہنے لگے ۔آپ کا فیصلہ ٹھیک تھا یا غلط ؟ اب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو کیسا لگتا ہے؟ ’’جی میں یہ آج تک نہیں طے کر پایا‘‘۔ نظامی صاحب نے کہا کہ انسان وہی فیصلہ کرتا ہے جو اس کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے۔ میں نے کہا سر میرا خیال ہے کہ انسان کا مزاج ہی اس کا مقدر ہوتا ہے۔ وہ مسکرا پڑے۔ آج وہ ہم میں نہیں۔ بڑے دنوں سے یہ سب واقعات ذہن کی سکرین پر فلم کی رِیل کی طرح بار بار چل رہے تھے۔ جب عارف صاحب اس دنیا سے گئے تو خیال آیا کہ وہ سب جو راہ میں ملتے ہیں کیا یہ سب اتفاق ہوتا ہے یا خالقِ کائنات کا طے شدہ منصوبہ ؟ درویش کہتے ہیں کہ جس طرح رزق مقدر کی طرح ملتا ہے ایسے ہی انسان بھی مقدر میں لکھے ہوتے ہیں۔ ہمیں اتفاق لگتا ہے مگر یہ اتفاق نہیں ہوتا ۔ مگر یہ سب شعور اور لاشعور کا حصہ بن کر آپ کو ہانٹ ضرور کرتا ہے۔