ملک بھر کی جیلوں میں گنجائش سے تین گنا زائد قیدیوں کے پابند سلاسل ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ پورے ملک کی جیلوں میں قیدیوں کی بندش کی گنجائش 54 ہزار 695 ہے جبکہ ان جیلوں میں 1 لاکھ 68 ہزار 788 قیدی موجود ہیں۔ جیلوں کی پیشانی پر کندہ ہوتا ہے کہ’’ نفرت انسانیت سے نہیں جرم سے ہے‘‘ لیکن اگر ان میں جھانکا جائے تو وہ جیل کم اور جانوروں کا باڑہ زیادہ لگتا ہے۔ ہر بیرک میں تناسب سے زیادہ قیدی ہوتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں تو ان کا کوئی پُرسان حال ہی نہیں ہوتا۔ رات کو سونے کے لئے بھی جگہ دستیاب نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں انصاف کا کوئی نظام نہیں۔ معمولی جرائم میں ملوث ملزمان کئی کئی برس سلاخوں کے پیچھے گزار دیتے ہیں جس کا ذمہ دار ہمارا نظام انصاف ہے۔ اگر پولیس بغیر کوئی سفارش قبول کئے تفتیش کرے تو آدھے مسائل صرف تھانے کی سطح پر ہی حل ہو سکتے ہیں۔ کسی حد تک معاشرے کے بگاڑ کی بڑی ذمہ دار پولیس بھی ہے جو جرائم پیشہ افراد کو کھلی چھوٹ اور بے گناہ سے حوالات بھر دیتی ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کی تعداد کم کرنے کے لئے عدلیہ کو بھی فعال کردار ادا کرنا چاہئے جبکہ حکومت قیدیوں کے تناسب سے نئی جیلیں تعمیر کرے۔ پرانی جیلوں میں نئی بیرکیں بھی بنا کر قیدیوں کو ان میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ جگہ کی قلت کے پیش نظر پرانی جیلوں میں ہی دو تین منزلہ عمارتیں بنائی جا سکتی ہیں۔تھانے کی سطح پر مصالحتی کمیٹیاں بھی فعال کی جائیں تاکہ چھوٹے چھوٹے تنازعے ان میں حل کرکے جیلوں میں رش کم کیا جائے۔