لکھنا جو میرے بس میں نہیں۔ خوف ہے کہ کیا لکھ بیٹھوں۔ ماسوائے ان کے کہ جن کے دل تاریک رات کے سیاہ سرد خانے میں پڑے ہیں،سبھی جانتے اور مانتے ہیں کہ آپﷺ کوچار عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجاگیا۔خود کئی بڑے مستشرقین کو حقیقت کا اعتراف ہے۔ذہن پر زور دیتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ چار عشروں قبل تک اُس گھر میں پورے پچاس سال باقاعدگی کے ساتھ ہر جمعہ کے روز محفل درود وسلام برپا ہوتی رہی، جہاں میں نے اِس جہانِ رنگ و بو میں آنکھ کھولی تھی ۔اسی نسبت سے اسے ’جمعہ والا گھر‘ کہا جاتا۔شہر سے سو پچاس خواتین گھر کے صحن میں ہفتہ وار جمع ہوتیں اورمیری دادی محترمہ کی اقتداء میں عصر کے بعد تک درود وسلام پڑھتیں۔ میں اگر کہوں کہ اپنا بچپن میں نے آپ ﷺ کی مدحت کی صدائوں میں گزارا ہے تو غلط نہیں ہو گا۔میرادل مگر پتھرکیوں ہے؟ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس سے متعلق پہلا تاثر جو ایک واقعے کی صورت میرے دل ودماغ پر نقش ہے، اب یاد نہیں ہم نے سکول کی کتابوں میں کہیں پڑھا تھا یا کسی بڑے بوڑھے سے سنا تھا۔ عید کی نماز کے بعد آپﷺ گھر کی طرف لوٹے تو راستے میں دو بچوں کو پھٹے پرانے کپڑوں میںغمگین کھڑا پایا۔ آپ نے ﷺ استفسار فرمایا تو معلوم ہوا بچے یتیم اور مفلس ہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں گلے لگایا اور اپنے ساتھ لے جا کے نئے کپڑے دلوائے اور کھانا کھلایا۔خود آپﷺ ماں کے پیٹ میں یتیم ہو گئے تھے۔زندگی بھر بچوں، یتیموں اوربے کسوں پر خاص شفقت فرماتے رہے۔ دنیوی امور میں خود کو دوسروں پر کبھی فضیلت نہ دی۔اپنے کام خود انجام دیتے۔ اپنی جوتیاں بھی خود گانٹھ لیتے۔مسجدِ نبوی کی تعمیر میں عام مزدوروں کی طرح اینٹیں اور گارا ڈھویا ۔ جنگِ خندق میں کھدائی میں ساتھیوں کا ہاتھ بٹاتے۔آپ ﷺ کی غذا عام طور پر جَو کی سوکھی روٹی ہوتی۔ ہفتوں آپﷺ کے گھر والے کجھوروں اور پانی پر گزارا کرتے۔ ٹاٹ کا ٹکڑ ا تھا جسے دہرا تہراکر دیا جاتا اور آپ ﷺ اسی پر آرام فرماتے۔ایک یہودی کے پاس آپﷺ کی زرہ گروی تھی۔زرِ نقد نہ تھاکہ چھڑوا لیتے۔ترکے میں چند ہتھیاراور ایک خچر چھوڑا۔حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ دس سال کی خدمت کے دوران کبھی ایک باربھی آپ ﷺ نے انہیں اُف تک نہ کہا۔لوگوں نے آپ ﷺ سے مشرکین کے لئے بد دعا کی درخواست کی، فرمایا میں لعنت کے لئے نہیں بھیجا گیا۔اپنی تعظیم میں مبالغہ پسند نہ فرماتے۔ مجلس میں جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتے۔اُٹھتے ، بیٹھتے،راہ چلتے سلام میں پہل فرماتے۔اپنے اصحاب کو نام لے کر نہیں، کنیت اور اُن ناموں سے یاد کرتے جن سے وہ پکارا جانا پسند کرتے۔آپ ﷺ کے رفقاء گواہی دیتے کہ آپﷺ سے زیادہ خوش اخلاق ، بہادر اور شجاع کوئی پیدا نہیں ہوا۔ایک بدوی نے آپﷺ کے گلے میں حمائل چادر کو زور سے کھینچ کر جھٹکا،رگڑ سے گردن لال ہو گئی مگر آپ ﷺ خاموش رہے۔صاحبزادے ابراہیم کو جان بلب دیکھا تو آنسو بہہ نکلے۔ فرمایا، بے صبری اور ناشکری نہیں، دل رنج کرتا ہے، آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ایک یہودی اور مسلمان جھگڑا لے کر آئے، آپ ﷺ نے یہودی کو سچا پایاتو اُسی کے حق میں فیصلہ فرمایا۔طاقتور کے حق میں ناجائز سفارش قبول نہ فرماتے۔ بد ترین دشمن بھی آپﷺ کو صادق اور امین مانتے۔ خود ابو جہل نے اقرار کیا کہ محمدﷺ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں، گراں فروشوںاور فروخت کے مال میں عیب کوچھپانے والوں کو سخت نا پسند کیا۔ فرمایا جس نے کم تولا، وہ ہم میں سے نہیں۔اکثر خاموش رہتے اور بلا ضرورت کوئی بات نہ کرتے۔بدنی صفائی کا خاص خیال رکھتے۔آپ ﷺ کے لباس ، جسم اور منہ سے کبھی کسی کو بو نہیں آئی۔ دوسروں کو مصیبت میں دیکھ کر بے چین ہو جاتے۔دین اور دنیا کے معاملات میں دو صورتیں در پیش ہوتیں تو آسان راستہ اختیار فرماتے۔دین میں جبر سے منع فرمایا۔کلمہ گو کے قتل پر سخت وعید سنائی۔پوچھا ، کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا ؟فرمایا جس نے ایک انسان کو قتل کیا ، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ عیسائیوں، یہودیوں اور مشرکوں سے خیرات کی تقسیم میں بھی فیاضی کا سلوک فرماتے۔منافقین کی شرارتوں سے حتی المقدورصرفِ نظر فرماتے۔ یہودیوں سے میثاق اورمعاہدات کئے۔ مسیحیوں کو عبادت گاہوں کی حفاظت اورتاقیامت حرمت کا عہد نامہ دیا۔روزِ محشر غیر مسلم مظلوموں کی وکالت کا ذمہ خود لے لیا۔جنگی قیدیوں کی خبر گیری مہمانوں کی طرح فرماتے۔ مسلمان لشکر کو بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے،لاشوں کی بے حرمتی ،درختوں اور کھڑی فصلوں کو جلانے سے منع فرمایا۔جہاں عفو کی ضرورت ہوتی عفو فرماتے، جہاں سزا کی حاجت پیش آتی سزا سناتے۔غزوہ خندق میں بنو قریظہ کی بد عہدی کا معاملہ خود قبیلے کی مرضی سے سعد بن معاذ ؓکے سپرد ہوا تواُن کے فیصلے کے مطابق قبیلے کے سب مردقتل کر دیئے گئے۔آپﷺ کے علم میں لایا گیا توفرمایا،’معاملہ مجھ پر چھوڑتے تو میں عفو سے کام لیتا‘۔ قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کا بے رحم عفریت جن دنوںانسانوں کے گلے کاٹ رہا تھا۔ لاشوں کی بے حرمتی اور جسم کے نازک اعضاء کو چیرنا جب معمول تھا۔بیچ بازاروں میں عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کا قتلِ عام، قیدیوں سے بے رحمانہ سلوک اور غیر مسلموں کے جان و مال بشمول ان کی عبادت گاہوں پر حملے عام تھے،اس بیچ کئی بارجی چاہا کہ اس باب میں کچھ لکھوں مگر حوصلہ نہ ہوا۔ہر بار مگر کچھ توفہم ِ دین میں کم مائیگی آڑے آئی تو کچھ اس خیال نے آن لیا کہ آپﷺ کی زندگی کا یہی ایک پہلو تو نہیں۔ کیا باقی معاشرہ آپ ﷺ کی اسوہ پر استوار ہے؟کیا حکمرانوں کو جوابدہی کا خوف کھائے جاتا ہے؟انبیاء کے وارثین جو خود کو کہلواتے ہیں، کیا اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں؟ دل ہیں کہ پتھرا گئے ہیں۔گناہوں سے لتھڑی خود گنہگار کی اپنی زندگی کیا ہے؟ آٹھ برس قبل اپنے دفتر میں علی الصبح چائے کی پیالی پر ایک اخباری کالم میں بنو قریظہ کے واقعہ پر آپﷺ سے منسوب جملہ پڑھا تو آنکھیں بے اختیار نم ہو گئیں۔ایک آنسوسامنے دھرے اخبار پر گھرا اور پھیل گیا۔گنہگار دن بھردنیوی بکھیڑوں میں کھو یا رہا۔ اسی شب خواب میں خود کو نور میں ڈوبی ایک محفل میں پایا۔ گناہگارخوبصورت قالینوں پر چلتے ہوئے سامنے کی طرف یوں بڑھ رہا تھا کہ بھیڑ خود بخود چھٹتی اور راستہ بنتا چلا جا رہا تھا۔منبر قریب آیا تو آنکھ کھل گئی۔ دن بھر ایک عجب سرشاری کا احساس رہا۔ گناہوں میں لتھڑے شب و روز مگر جاری رہے۔ برسوں بیت گئے ہیں۔ منظر آج بھی نگاہوں کے سامنے اسی طرح تر وتازہ ہے۔اُس ایک روزشاید آنکھ سے ٹپکا ایک آنسوکچھ دیر کیلئے اندھیری راہ میںجلتا چراغ بن گیاتھا ۔ راستہ مگرجسے بھٹکا ہوا پا نہ سکا۔ سیاہ کاریوں سے چھٹکارا جسے نصیب نہ ہوا۔ دل جس کا پتھر کا پتھر رہا۔دل ہے مگر لکھنے سے گھبراتا ہے۔جوآپ ﷺ کے شایانِ شان ہو، لکھنا میرے بس میں نہیں۔