جو ہو گیا، سو ہو گیا… مٹی پاؤ … ماضی کو چھوڑیں، آگے کی بات کریں … کس نے کتنا لُوٹا؟ اب اس کا کیا تذکرہ؟ … تیس پینتیس سالوں میں اگر کچھ نہیں ہوا تو کوئی بات نہیں، یہ بتائیںایک سال میں کیا کیا؟؟؟… یہ اور اس طرح کا جو فتنہ پرور، مفاد پرستانہ اور بد نیتی پر مبنی بیانیہ کچھ عرصے سے میڈیا اور سوشل میڈیا پہ مسلط کر دیا گیا۔ کچے ذہن اور بچگانہ ذہنیت کو باور کرا دیا گیا ہے کہ ماضی کی طرف نہیں دیکھنا، پیچھے کی جانب دھیان نہیں دینا…گند صاف کرنے کا تذکرہ نہ ہو… حرام زدگیوں اور حرام خوریوں کی خبر نہیں لینی… کسی جرم پہ سزا دینے کا تصور ہی ذہن سے نکال دیا جائے… عرصے سے گھر میں رہنے والوں سے کچھ نہ پوچھا جائے کہ اس ہنستے بستے گھر کا یہ حال کیوں کیا؟… نئے آنے والوں پہ چڑھائی کر دی جائے کہ یہ گھر ویران و پریشان کیوں ہے؟ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں سے در گزر کی جائے ، اس کی تعمیر کی بات کرنے والوں کا ہر محاذ پہ ناطقہ بند کیا جائے … غرض یہ کہ اتنا شور مچا دیا جائے کہ احتساب، حساب، ریکوری، بازیابی، سزا، پکڑ دھکڑ، عدل، انصاف کی بات کرنے والوں کو اپنی پگڑی سنبھالنا مشکل ہو جائے… ایسا ماحول بنا دیا جائے کہ ہیلی کاپٹر پہ دہی منگوانے والوں کو سر آنکھوں پہ بٹھایا جائے اور چائے کے ساتھ بسکٹ پیش کرنے والوں کا مذاق اڑایا جائے۔ مَیں کہتا ہوں اس بیانیے پہ لعنت … اس سستی سوچ کو سلام … اس گھٹیا ذہنیت پہ تُف … اس سوچی سمجھی سکیم کی ایسی کی تیسی… اس بکاؤسسٹم کو سلام… ہاں اگر ایسا ہی نظام چلانا ہے تو عدالتوں کو تالے لگائیے، مذاہب و عقائد کو غلاف میں لپیٹیے،ا خلاقیات جیسے الفاظ کے استعمال پہ پابندی لگائیے اور جنگل کے قانون کے نفاذ کا بہ قائمیِ ہوش و حواس اعلان کیجیے۔ شیخ سعدی نے کہا تھا کہ لہسن کی بُو مشک و عنبر پہ غالب آ جاتی ہے اور ڈھول بتاشے کی آوازیں، بربط کے سازوں کا گلا گھونٹ دیتی ہیں۔ دوستو! گزشتہ ایک دو سالوں میں وطنِ عزیز کے ساتھ بھی یہی ہاتھ ہوا ہے کہ جن لوگوں نے حساب دینا تھا، انھوں نے گلا پھاڑ پھاڑ کے حساب مانگنا شروع کر دیا۔ غلیظ ذہنیت کی سب سے بری ادا اور چالاکی یہ ہوتی ہے کہ اس سے پہلے کہ آپ پہ کوئی قانون، ضابطے کے ساتھ چڑھائی کرے، آپ دوسروں پہ بلا ضابطہ اور اتنی شدت سے چڑھائی کر دو کہ محتسب کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملے۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ جب مجرم کٹہرے میں کھڑا ہونے کے بجائے، رانگلا مطہرا ہاتھ میں پکڑ کے چوراہے میں کھڑا ہو جائے تو عدل و انصاف کی کیا صورتِ حال ہوگی؟ جب بدمعاشی خوف زدہ ہونے کے بجائے ، للکار کا روپ دھار لے اور چوری، ڈوب مرنے کی جگہ سینہ زوری کا رستہ اختیار کر لے تو وہی ہوتا ہے، جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ پوری دنیا آپ کو کرپشن کا امام قرار دے رہی ہے، گلشن میں جا بہ جا لوٹ مار کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ ذاتی تجوریاں ، اپھارے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ہر محکمے کا ریکارڈ جل کے بھسم ہو چکا ہے۔ بیرونِ ملک بنائی جائیدادیں قطار اندر قطار سر اٹھائے کھڑی ہیں۔ الیکشنوں میں عوام سے تیس سال تک کیے تمام نعرے، وعدے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہو چکے۔ جمہوریت کا ڈھونگ رچا کے نا اہل اور خائن بیٹوں، بیٹیوں، بھتیجوں، بھانجوں کی فوج قوم پہ مسلط کر رکھی ہے۔پھر بھی آپ ڈھنگ سے شرمندہ ہونے کے لیے تیار نہیں۔ شاعر نے ٹھیک ہی کہا تھا : ایسا کم ظرف ہے تذلیل پہ قانع ہی نہیں خُبثِ باطن میں الگ دھاک بٹھا رکھی ہے سب جانتے ہیں کہ سابقہ سرمایہ دار حکمرانوں کا دولت پہ پختہ ایمان تھا۔ جب ہر طرف سے دولت کے کرشمے نظر آنے لگے ۔ کچھ ضرورت سے زیادہ امیر صحافی، چالاک سیاست دان، ضرورت من قانونی اور مال پسند تجزیہ کار دیوانہ واراس گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دینے کو اٹھ کھڑے ہوئے۔ حکمرانوں کی ایک ایک بات کا غلط مطلب نکالنے کی سازشیں تیار ہونے لگیں۔ لیکن دوستو! کسی بھی غیرت مند پاکستانی کا سرتو مارے ندامت کے، سوشل میڈیا پہ تواتر سے لگنے والی اس طرح کی پوسٹوں ہی سے جھک جاتا ہے: ٭ سنی لیون کا خود کو پاک دامن ثابت کرنے کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ…٭ کلبھوشن یادیو نے التجا کی ہے کہ اس کا کیس بھی لاہور ہائیکورٹ میں سنا جائے… ٭ تم کتنے ڈاکو پکڑو گے، ہم سارے ڈاکو چھوڑیں گے!!…٭ جج چوروں سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے؟ بلکہ روز روز ایسی پوسٹیں پڑھ کے تو باقاعدہ رونا آنے لگتا ہے کہ : ٭ پرانے ٹین ڈبیاں توں ضمانتاں، نائیلون دیاں جُتیاں توں ضمانتاں، پرانے بُوٹاں توں ضمانتاں، سُکیاں روٹیاں توں ضمانتاں … اور کسی کا کیا تذکرہ، ان کے تو اپنے حواری سرِ عام کہتے ہیں کہ ’ وہ کھاتے تھے تو لگاتے بھی تھے۔‘ ظاہر ہے وہ ایسے ہی لوگوں اور کاموں پر لگاتے تھے۔ ویسے دیکھا جائے تو کھاتے اور لگاتے والا یہ بیانیہ بھی کہ جس کی کبھی سابقہ حکومت کی طرف سے تردید نہیں آئی، ڈوب مرنے کے لیے کافی ہے لیکن دوستو! ڈوب مرنا کوئی ایسا آسان کام تھوڑا ہے۔ شاعر نے کہا تھا: اس امر کا تذکرہ ہر طرف ہونا چاہیے ڈوب مرنے کے لیے بھی ظرف ہونا چاہیے پھر جب چاروں جانب سے کرپشن کی صدائیں آنے لگیں تو بجائے شرمندہ ہونے ، اور لوٹا ہوا مال قومی خزانے میں جمع کرانے کے سرمایہ داروں نے انھی پیسوں سے ضمیر خریدنے کا فیصلہ کیا، لیکن احباب! میرا ذاتی خیال ہے کہ ضمیر کبھی نہیںبِکتا، ہمیشہ بے ضمیر بِکتے ہیں اور ان سرمایہ داروں کی شبانہ روز محنت اور اس اکلوتی ترجیح کے بعد ہمارے ملک کے ہر شعبے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں رہی۔ اپنے انھی مشیروں کی مشاورت سے ’شور مچاؤ‘ پالیسی پہ شدو مد سے عمل کرنا شروع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز کے موجودہ حالات میں ، ہماری جب بھی اپنے ارد گرد کی عدالتی ، صحافتی، ثقافتی، سیاسی اور معاشرتی صورتِ حال پہ نظر جاتی ہے تو نسیم لیہ کا یہ معروفِ زمانہ شعر پنجوں کے بل کھڑا ہو کے سامنے آ جاتا ہے : دیار مصر میں دیکھا ہے ہم نے دولت کو ستم ظریف پیمبر خرید لیتی ہے