پہلے تو صرف گمانوں کے لشکر تھے اب یقین کا ثبات بھی ہوتا جارہا ہے کہ ہم بہت مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ معیشت کے علاوہ دو ایسے چیلنج ہیں جن کے بارے میں پہلے صرف اندازہ تھا‘ اب وہ ایک حقیقت بنتے جا رہے ہیں۔ مخالف کہا کرتے تھے کہ بھان متی کا کنبہ کیسے چلے گا۔ اس بات پر بھی شک کا اظہار کیا جاتا تھا کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی ایک ہی گھاٹ سے پانی نہیں پی سکتے۔ زرداری صاحب کی سیاست کے بارے میں ہمیشہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے قد سے کہیں زیادہ وصول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا اصل ٹارگٹ تو پہلے بھی یہ تھا کہ کسی طرح انہیں پنجاب میں پائوں جمانے کی جگہ ملے۔ مسلم لیگ سے پہلے دوستی پھر دوری دونوں اسی کشمکش کے دو رخ تھے۔ انہوں نے بڑا ماسٹر سٹروک کھیلا اور پنجاب میں پرویزالٰہی کو وزارت اعلیٰ پر مسلم لیگ ن کو منوا لیا۔ یہ بہت بڑی قربانی تھی جو مسلم لیگ دے سکتی تھی۔ تاہم پرویزالٰہی کی حمایت تو نہیں کہوں گا یہی کہہ سکتا ہوں کہ چودھریوں کی سیاست نے مسلم لیگ ن کی جھولی میں پنجاب کو ڈال دیا ہے۔ زرداری تو شہبازشریف کی وزارت عظمیٰ پر اس لیے راضی تھے کہ پنجاب ان کے پاس نہیں ہوگا۔ اب جب پنجاب اور وفاق دونوں ن لیگ کے پاس ہوں گے تو یقینا پیپلزپارٹی والے مضطرب ہوں گے۔ وہ اب پنجاب کی گورنری مانگ رہے ہیں جو یقینا ان کو مل جائے گی۔ قومی اسمبلی کا سپیکر وہ پہلے ہی لے چکے ہیں۔ اب صدر کے عہدے اور سینٹ پر ان کی نظریں ہیں۔ وہ بارگین کے لیے وفاق میں وزارتیں لینے سے بھی کنی کترا رہے ہیں۔ بڑے آرام سے کہہ رہے ہیں پہلے چھوٹی پارٹیوں کو حصہ دو میں نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے۔ شہبازشریف کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ وہ چھوٹی پارٹیوں اور چھوٹے صوبوں کے حقوق کی بات پہلے بھی کرتے رہے ہیں تاہم وہ چاہیں گے کہ ایک ایسی حکومت تشکیل پائے جو بقول ان کے مائنس پی ٹی آئی ایک قومی حکومت ہو۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ اکیلی ایک پارٹی یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتی۔ ایک ایسی قومی حکومت کے لیے پیپلزپارٹی کی پرخلوص اور بھرپورشمولیت ضروری ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلم لیگ ن ہر جگہ اپنے ہاتھ کٹوا لے۔ تو سب سے بڑا چیلنج تو اس اتحاد کا خلوص کے ساتھ باقی رہنا ہے وگرنہ مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ دوسرا بڑا چیلنج ایسا پیدا ہوا ہے جس کے بارے میں پہلے سوچا بھی نہ تھا۔ یہ غیر متوقع تو نہیں مگر ذرا مختلف زاویے سے سامنے آیا۔ مریم نواز کہتی تھیں عمران عوام میں ہیلمٹ پہن کر نکلیں۔ یہ یقین نہیں تھا کہ وہ بڑے بڑے جلسے کرسکیں گے اور اتنا سخت بیانیہ اختیار کریں گے اور یہ بیانیہ چل بھی جائے گا۔ کل تک عمران خان کے بارے میں اپوزیشن کا خیال تھا کہ وہ عوامی سطح پر بالکل پٹ چکا ہے مگرمردہ زندہ ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ چیلنج بڑا ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ صورت حال خطرناک ہے کیونکہ اس بیانیے اور اس صورت حال کے ساتھ جو قیادت ابھرتی ہے یا تو وہ دبا دی جاتی ہے یا پھر وہ ایک ایسے ہیجان کا سبب بنتی ہے جو ملک میں انارکی یا آمریت مسلط کردیتی ہے۔ ہٹلر کے جرمنی کی مثال پہلے سپریم کورٹ میں دی گئی اور اب اس کا تذکرہ عام ہورہا ہے۔ یہ بیانیہ کہ آپ جیت گئے اور ہم آزاد ہو گئے یا یہ کہنا کہ ہمیں فلاں میں جکڑا جا رہا ہے ہم اسے قبول نہیں کریں گے اور تحریک آزادی کا گویا پھر آغاز کریں گے‘ ایک بہت انتہا پسندانہ موقف ہے۔ میں نے کہا یہ یا تو انارکی کی طرف جاتا ہے یا آمریت کی طرف۔ آمریت بھی دونوں طرح کی صرف فوجی آمریت ہی نہیں‘ سول آمریت بھی۔ اور سول آمریت نازی ازم یا فاشزم ہوتی ہے۔ عمران خان کو کسی بات کی پروا نہیں ہے۔ ایسے میں تاریخ کی قوتیں اپنا رنگ دکھاتی ہیں۔ تاریخ کی قوتوں میں سب شامل ہوتا ہے۔ سامراجی طاقتیں بھی‘ مقتدرہ کی قوت بھی اور انتہا پسند عوامی لہر میں بھی۔ کیا کچھ کہنا باقی رہ گیا ہے ایسے میں سب سے بڑا چیلنج معیشت کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی تمام جماعتوں میں صرف مسلم لیگ ن ایک ایسی جماعت ہے جس کے پاس اپنی معاشی ٹیم ہے۔ وہ جیسی بھی ہے مگر ہے ضرور۔ ماضی قریب میں تین افراد نے پاکستانی معیشت کو ن لیگ کی طرف سے چلایا ہے۔ سرتاج عزیز‘ اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل۔ اسحاق ڈار ہی موجودہ صورت حال کو چلاتے نظر آتے ہیں۔ سنا ہے انہوں نے لندن میں خاصا ہوم ورک کر رکھا ہے تاہم معاملہ یہ ہے کہ معیشت کوخلا میں نہیں چلایا جا سکتا۔ اگر حکومت کی کھینچا تانی رہتی ہے اور صورت حال بھی غیر یقینی رہتی ہے۔ عمران خان سے کس طرح نپٹنا ہے یہ طے کرنا ضروری ہے اور یہ طے کرنا صرف حکومت کا کام نہیں۔ سمجھ گئے نا آپ! پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ معاملات کیسے آگے بڑھتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کو صرف ایک بڑا نمایاں فائدہ ہونے والا ہے اور وہ یہ کہ ان کے قائد نوازشریف وطن واپس آ جائیں گے۔ عوامی اپیل صرف ان میں یا ان کی بیٹی میں ہے۔ کیا ان بدلے حالات میں وہ رنگ دکھا سکیں گے‘ یہ سب کچھ دیکھنے کی بات ہے۔ عالمی سطح پر بھی بڑے چیلنج ہیں۔ تاہم لگتا ہے اس میں بہتری آ سکتی ہے۔ اگر یہ سازش یا مداخلت والے خط میں درست تجزیہ ہے تو پھر نئی حکومت کو مغرب کی طرف سے کچھ ریلیف ملے گا۔ مغرب کو بھی آپ کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ مگر یہ بھی دیکھنا ہے کہ آپ کو سی پیک کی طرف رجوع کرنے دیا جائے گا کیونکہ پاکستان کی معاشی بقا اس وقت صرف سی پیک سے منسلک ہے۔ چینی حکومت موجودہ حکومت سیٹ اپ سے زیادہ آسانی محسوس کرتی ہے اور اس کے ساتھ قطر‘ سعودی عرب‘ ترکی اور روس وغیرہ کا رویہ یا ردعمل بتاتا ہے کہ اس حکومت کو معاشی میدان میں کچھ گنجائش ملنے کی توقع ہے۔ کیا ملک کے حالات ہمیں اجازت دیں گے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ بات کو یہاں ختم کرتا ہوں‘ صرف چلتے چلتے اپنے ایک دکھ کا اظہار کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ جو کچھ پنجاب اسمبلی میں ہوا اور چودھری پرویزالٰہی کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا‘ وہ اس لیے باعث تشویش ہے کہ چودھری خاندان کا ایک بھرم تھا۔ موجودہ عمل نے وہ بھی ختم کردیا ہے۔ بہرحال اب تک کچھ یقینی نہیں ہے۔ وہ کچھ ہورہا ہے جس کی توقع نہ تھی۔ خدا نہ کرے وہ کچھ ہو جس کی کسی کو توقع نہیں۔ ہم صرف دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔