ہم مہذب دنیا کی اس سرزمین بے آئین کے باسی ہیں کہ جہاں کرپشن، بددیانتی جھوٹ اور دشنام طرازی جرم تصور نہیں کیا جاتا بلکہ ان کی تاویلیں قانونی دلائل کے ساتھ پیش اور منظور بھی کی جاتی ہیں. جھوٹ کا جادو یہاں سر چڑھ کر بول رہا ہے، جس سے سچ گوشہ نشین ہو چکا، کفر کا نظام تو نہیں مگر ظلم کا دور دورہ، حکومتی ترجیحات میں عوام کی بہبود کیا ہونی ،سیلاب زدگان کی بحالی تک نہیں،اپوزیشن بھی اس بارے کوئی زیادہ سنجیدگی نظر نہیں آئی،کہ اہل درد کے نزدیک یہ موقع مل کر متاثرین کو بحال کرنے کا تھا مگر سیاست کا سینے میں دل نہیں،تو سیاست دان کا سینہ بھی تو درد سے خالی ہے، سابق وزیر اعظم گرچہ خلوص نیت کے ساتھ تبدیلی کے خواب کی تعبیر کو آئے تھے مگر نظام کے شکنجہ نے ان کے سب کس بل نکال دئے،انہیں کسی نے باور بھی کرایا تھا اور بار بار کرایا تھا کہ خان صاحب موجودہ نظام میں تبدیلی تو کیا خاک آنی ہے آپ بھی لتھڑے جائیں گے،اور پھر وہی ہوا، ہمارے ہاں انصاف اتنا ہی میسر ہے جتنا افریقہ کے قحط زدہ ممالک میں اشیائے خورونوش، یہاں طاقتوروں اور عام شہریوں کے لیے قانون الگ. چند روز قبل ایک بڑے کیس کا فیصلہ…. ہر ظالم اور ہر جابر کے لیے اذن عام. اور مجبور، مقہور ہے تو بے چارہ غریب. طاقتور ملک میں کچھ بھی کر گذرنے پر قادر ہیں. طاقت اور دولت کے بل بوتے پر ان آنکھوں نے ممبران کی اقلیت کو اکثریت میں بدلتے دیکھا اور محفوظ طریقہ سے سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوتے بھی. یہاں مجرم قانون ساز بنتے ہیں اور اربوں کی کرپشن والے جھنڈے والی گاڑی پر پھرتے ہیں. 14 کے قاتل اور دہشت گردی کی عدالت میں مقدمات میں نامزد اقتدار میں اور مقتولین کے لواحقین 8 سالوں سے دربدر. جی ہاں یہ گل اسی ملک اور اسی نظام میں ہی کھلائے جا سکتے ہیں. اب تو مردہ آئین کو دیکھ کر سیاست دانوں نے قومی اداروں اور ملکی سلامتی کے خلاف زبان درازی کو اقتدار میں آنے کا نسخہ کیمیا جان لیا ہے. عجب نظام کہ اربوں کی کرپشن کو تحفظ اور غیر قانونی دولت کو جائز قرار دینے کے لیے " معزز اراکین " نے آئین میں ترامیم کر لیں مگر خوابیدہ عوام کا ضمیر بیدار ہوا اور نہ ادارے اس پر حرکت میں آئے. کہ شاید مایوسی کے گہرے سائے نے ضمیر مردہ کر دیئے۔(عبدالحنان راجہ )