"مَسْنَد"اسم مونث ہے،جسکا لغوی معنی تکیہ،گاؤ تکیہ، تکیہ لگا کر بیٹھنے کی جگہ وغیرہ کے ہیں، ہمارے ہاں بڑی جامعات اور یونیورسٹیز میں ایسی عہد ساز اور جلیل القدر علمی شخصیات،جنہوں نے امت اور ملّت کی راہنمائی اور رہبری کا فریضہ نہایت اخلاص،تندہی اور جانفشانی سے سرانجام دیا ہو، کے طرزِ زیست،اسلوبِ حیات اور علمی مقامات و محاسن سے استفادہ کیلئے ایک الگ "چیئر"یعنی مختصر ساریسرچ ونگ قائم کر دیا جاتا ہے،جس کے لیے مَسْنَد کا لفظ بھی مستعمل ہے، جس پر بالعموم متعلقہ فکر و فن کی کسی بڑی شخصیت کو "مَسْنَد نشین"کے طور پر تعینات کیا جاتا ہے ، جس کا بنیادی کام صرف اور صرف اس شخصیت کے حوالے سے فکری، فنی اور علمی تحقیقات اور مطالعات کو منصہ شہود پر لانا ہے، پنجاب یونیورسٹی میں حضرت داتا گنج بخشؒ کی نسبت سے مزیّن "مسندِ سیّد ہجویر"کا قیام محکمہ اوقاف کی استدعا پر 1980ء میں عمل میں آیا ،اوقاف نے Recurring grantکے ساتھ، تحقیقی وطباعتی منصوبہ جات کے لیے بھی فنڈز کی فراہمی کی تحریری یقین دہانی کروائی ، لیکن انتظامی افسروں اور علمی مسند نشینوں کے درمیان فریکوئنسی"Frequency" اور اتصال ہوتے ہوتے وقت لگ جاتا ہے۔ جس کا بالعموم خمیازہ اداروں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ مستزاد یہ کہ ان ایام میں یونیورسٹی کے ماحول پہ غالب مخصوص فکری رحجانات بھی ایسے امور کی پرداخت کے لیے زیادہ موزوں نہ تھے، اور یہ سلسلہ گذشتہ چالیس سال یوں ہی جاری ہے ۔ اگرچہ اسّی کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں شعبہ فارسی میں کشف المحجوب کی باقاعدہ تدریس کااہتمام بھی ہوا اور یہ فریضہ ڈاکٹر محمد بشیر حسین جیسے اساتذہ سرانجام دیتے رہے،مگر المیہ یہی ہے کہ ایسے امور عارضی اور فرضی اہتمامات سے آگے نہیں بڑھتے، ’’ادارہ سازی‘‘ایک مشکل اور محنت طلب معاملہ ہے ۔بہرحال۔۔۔ان دنوں اس’’چیئر‘‘کے مَسْنَد نشین۔۔۔ عربی زبان و ادب کے نامور استاذ اور اسلامی علوم و معارف کے ماہر، پروفیسر ڈاکٹر خالقداد ملک ہیں، جو پنجاب یونیورسٹی کے ڈین فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہیں۔قبل ازیں موصوف ، محکمانہ اشتراک سے کشف المحجوب کے متن اور ایک ماڈل نسخہ کی تیاری کے حوالے سے گراں قدر خدمات سرانجام دے چکے ہیں، جبکہ کشف المحجوب میں وارد احادیث کی تخریج کے حوالے سے"الزاد المطلوب فی تخریج احادیث کشف المحجوب "بھی ، ان کاایک معتبر حوالہ ہے، جس میں راقم کو بھی Co,Author کے طور پر کام کرنے کا اعزاز میسر رہا۔انہوں نے گذشتہ ہفتے ڈین آفس ہی میں’’ہجویری چیئر‘‘کی میٹنگ کا اہتمام فرمایا،جس میں آئندہ کے لیے مؤثر منصوبہ سازی،بطور خاص حضرت داتا صاحب کے پیش آمدہ 978ویں سالانہ عرس کے موقع پر عالمی کانفرنس اور پھر اس موقع پر کسی وقیع علمی کتاب کی اشاعت سمیت دیگر امور بھی زیرغور ہیں۔ یہ ساری باتیں اس لیے بھی تازہ ہوئیں کہ گذشتہ روز حضرت داتا گنج بخشؒ کے آستاں پہ قائم "جامعہ ہجویریہ "جس کو گورنمنٹ سیکٹر میں واحد ماڈل دینی مدرسہ ہونے کا اعزاز میسر ہے، کے تعلیمی سال کی افتتاحی تقریب ، جس میں سیکرٹری اوقاف نبیل جاوید مہمانِ خصوصی کے طور پر تشریف فرما تھے، جبکہ مقتدر علمی و دینی شخصیات کی موجودگی نے اس سیشن کو وقیع اور معتبر بنا رکھا تھا، جامعہ ہجویریہ اور "ہجویری چیئر"کو باہم مشترکہ روحانی نسبتوں کے سبب "پیربھائی"،جبکہ جدید اصطلاح میں "Sister Organizations" کا اعزاز میسر ہے، یقینا اس میں لیڈنگ رول تو "ہجویری چیئر "ہی کا ہے، جس پر اپنے اپنے عہد کی مقتدر اور معتبر شخصیات جلوہ آراء رہیں، یہ چیئربلاشبہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں قائم ہے، جس کے لیے محکمہ اوقاف و مذہبی امور بھی اپنی معاونت کوہمیشہ بصد شوق فراواں کیے رکھتا ہے۔ اورینٹل کالج ، علومِ شرقیہ بالخصوص اسلامی فنون کا ہمیشہ ہی سے مرکز رہا اور اس کو ایسے ایسے صاحبانِ فکر و فن میسر آئے، جن کا ثانی تلاش کرنا ممکن نہ ہوا، انہی میں سے ایک شخصیت، مولانا فیض الحسن سہارنپوری کی تھی، جو اورینٹل کالج میں قائم شعبہ عربی کے پہلے چیئرمین ہوئے، مولانا موصوف بہت عالی شان شخصیت کے مالک تھے، دربار حضرت پیر مکی کے قریب ان کی رہائش تھی، گھوڑے پر سوار ہو کر ، داتا دربار سے گزرتے ہوئے، اورینٹل کالج پہنچتے،جہاں ان کے لیے فی الواقعہ" مسند "بچھتی، رہائش گاہ سے کالج تک کے اس سفر کے دوران علامہ شبلی نعمانی جیسے اکابر ان کی سواری کے ساتھ چلتے ہوئے،عربی ادبیات کا درس لیتے رہے،انہوں نے حماسہ آپ سے انہی ایام یعنی1875ء ہی میں پڑھا ۔ بہرحال۔۔۔کالج میں فی الواقعہ خوبصورت"مسند" یعنی تخت نما پلنگ اور پھر اُس پر بستر آراستہ ہوتا، تلامذہ صف بستہ اور دو زانو۔۔۔۔ دراصل اورینٹل کالج ڈاکٹر جی ڈبلیو لائیٹنر ، جو مشرقی علوم و فنون کے زبردست مؤید اور حامی۔۔۔ اور گورنمنٹ کالج کے پہلے پرنسپل تھے ، کی مساعی جمیلہ ہی کے سبب، لاہور میں مشرقی علوم کا یہ ادارہ قائم کرنے پر اتفاق ہوا، یہی اورینٹل سکول، بعد میں اورینٹل کالج اور مابعد 1882ء میں پنجاب یونیورسٹی کے قیام پر اس سے الحاق پا کر ، اسکا مستقل حصّہ بن گیا۔ جس کے اساتذہ میں علامہ اقبال ؒ، ڈاکٹر مولوی محمد شفیع ، پروفیسر محمود شیرانی، مولانا عبدالعزیز میمنی ، مولانا غلام قادر بھیروی ، شمس العلماء مفتی عبداللہ ٹونکی، ڈاکٹر وولنر، پروفیسر میکڈانلڈ جیسے عمائدین شامل ہیں، جس میں مولانا فیض الحسن سہارنپوری کا نام سرفہرست ہے، جن کے علمی کمالات کے سبب ڈاکٹر لائیٹنر ان کو یونیورسٹی اورینٹل کالج لانے پر مصر تھے۔لائیٹنر نے مولانا موصوف کی خدمت میں کالج کی تقرری کی بابت عریضہ ارسال کیا تو آپ نے حسبِ ذیل وجوہات کی بناء پر یہاں تشریف لانے سے معذوری ظاہر کردی: *آپ کی تعلیم گاہوں میں اوقاتِ تدریس کی پابندی ہے اور ہمارا دستور یہ ہے کہ جس وقت چاہا پڑھادیا اور جب چاہا التوا کردیا۔ *آپ کے یہاں اوقاتِ تدریس کی تعیین ہے اور ہمارے مدرسوں میں وقت کی تقلیل و تکثیر دونوں یکساں، جب تک گوارا ہوا پڑھاتے رہے اور اگر طبیعت مائل نہیں تو کتاب کو ہاتھ نہ لگایا۔ *آپ کے یہاں میز اور کُرسی کے ساتھ لگ کر پڑھانے کا دستور ہے ،مگر ہم تدریس کے وقت پلنگ پر بیٹھ کر پڑھاتے ہیں۔ طبیعت استراحت کی طرف مائل ہوئی تو لیٹ کر پڑھانے لگے ۔ اُونگھ آگئی تواستراحت میں بھی مضائقہ نہیں،مگر شاگردوں کے لیے اپنی اپنی جگہ پر بیٹھنے کا حکم ہوتا،اور جب آنکھ کھل گئی پھر پڑھانا شروع کردیا۔ * آپ کے مدرسوں میں تحدید اوقات پر گھنٹی کی پابندی بھی ہم گوارا نہیں کرسکتے۔(وغیرہ)مولانا فیض الحسن نے اسی قسم کے متعدد و اعذارو موانع لکھنے کے بعد لاہور آنے سے انکار کردیا،لیکن لائیٹنر(رجسٹرارتعلیم گاہ) نے مولوی صاحب کے تمام شرائط من و عن تسلیم کر تے ہوئے لاہور تشریف آوری پر قائل کر لیا۔ درسگاہ کے ایک کمرے میں پلنگ لگادیا،مولانا اپنی عادت کے مطابق پڑھاتے،درمیان میں استراحت بھی ہوتی، شاگرد اپنی اپنی جگہ پر کتابیں ہاتھ میں لیے بیٹھے رہتے، آنکھ کھل جاتی تو جہاں سے سلسلہ منقطع ہوا تھا وہیں سے سررشتہ میں گرہ لگا کر علم کے موتی پرونا شروع فرمادیتے ۔ اورینٹل کالج لاہور میں مولانا فیض الحسن کی علمیت کے حقیقی جوہر کھلے اور یہ چشمۂ فیض بن گیا ۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں ۔ تھی فیض کو جو پھولنے پھلنے کی آرزو یاں تک گل اس نے کھائے کہ پھولوں سے پھل گیا