معزز قارئین!۔ مرزا اسد اللہ خان غالب ؔکے ایک شاگرد نیّرمرزا کا ، جوانی ہی میں انتقال ہُوا تو، جنابِ غالبؔ نے اپنی ایک غزل کے ایک مصرعے میں ’’ ملک اُلموت‘‘ (حضرت جبرائیل ؑ ) سے گِلہ کرتے ہُوئے کہا تھا کہ … کرتا ، ملک اُلموت ، تقاضا ، کوئی دِن اور؟ وسطی پنجاب ’’پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ ( پی۔ پی۔ پی۔ پی) کے صدر اور سابق وفاقی وزیر، لالہ موسیٰ (ضلع گجرات کے) جناب قمر زمان کائرہ کے، ٹریفک حادثے میں جوانی ہی میں جاں بحق ہونے والے بیٹے اُسامہ قمر کائرہ اور اُس کے دوست حمزہ بٹ کی ناگہانی موت پر ، اُن کے اہل خانہ اور دوست احباب کے علاوہ ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ کے قائدین کے ساتھ ساتھ مختلف اُلخیال سیاسی ( اور مذہبی) جماعتوں کے راہنما بھی اُن کی نمازِ جنازہ میں ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے تھے۔اچھی بات تھی / ہے ۔ کلامِ حضرت میاں محمد بخشؒ میرے اسلام آبادی داماد معظم ریاض چودھری کا تعلق گجرات کے موضع ’’ بھدر‘‘ سے ہے ۔ جناب قمر زمان کائرہ ، اُس کے پسندیدہ سیاستدانوں میں سے ایک ہیں ۔ مَیں کائرہ صاحب سے کبھی نہیں ۔ مِلا لیکن جب جولائی 2013ء میں معظم نے مجھے "Face Book" پر ایک ویڈیو فلم دِکھائی جس میں ، مَیں نے دیکھا کہ قمر زمان کائرہ صاحب ایک نجی محفل میں بہت ہی سُریلے انداز میں پنجابی کے نامور صوفی شاعر ، حضرت میاں محمد بخشؒ کا کلام گا رہے تھے تو ، مَیں تو اُن کا اُسی وقت دلداہ ہوگیا تھا۔ میاں صاحبؒ کا کلام تھا/ ہے… مَیں کو ہجی ، میرا دِلبر سوہنا، اَیویں، صاحب ؔنُوں ، وَڈیائیاں! مَیں گلیاں دا، رُوڑا، کوڑا، تے محل چڑھایا، سائیاں! یعنی۔’’ مَیں بدصُورت ہُوں اور میرا محبوب خوبصورت۔ یہ صاحب ؔ (پروردگار) کی عظمت ہے ورنہ مَیں تو ، گلیوں کے کچرے کی طرح تھی لیکن، میرے مُرشد نے مجھے محلوں میں رہنے کے قابل بنا دِیا ہے‘‘۔ قمر زمان کائرہ صاحب ’’گجر ‘‘ ہیں اور 1964ء سے میرے ایک اور سیاستدان دوست، مزاج کے لحاظ سے فقیر/ درویش۔ دو مرحومین وزرائے اعظم، ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو کی کابینہ کے سابق رُکن، پنجاب کے علاقہ شکر گڑھ کی ’’ جم پل‘‘ (ماشاء اللہ حیات ) 88 سالہ چودھری انور عزیز بھی ’’گجر ‘‘ ہیں ۔ مَیں پرانے دَور کی بات کر رہا ہُوں ۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ ’’ جب وفاقی وزیر کی حیثیت سے بھی چودھری انور عزیز دوستوں کی محفلوں میں اپنی سُریلی آواز میں حضرت میاں محمد بخشؒ کا کلام گایا کرتے تھے ‘‘ (شاید اب بھی گاتے ہوں؟)۔ 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے ،میرا چودھری انور عزیز سے اُس وقت رابطہ ہُوا جب وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے شکر گڑھ کے ’’ پی۔ پی۔ 48‘‘ سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے انتخابی میدان میں اُترے۔ اُن دِنوں میری چودھری صاحب سے تین ، چار بار بات تو ہُوئی لیکن، اُنہوں نے مجھے حضرت میاں محمد بحشؒ کا کوئی شعر نہیں سُنایا لیکن، جب بھی ملاقات ہوئی تو ، مَیں اُن کی سُریلی آواز حضرت میاں محمد بخشؒ کا کلام ضرور سنوں گا۔ اِنشاء اللہ !۔ بانسری نواز ، شری کرشن ! ’’ گجر‘‘ برادری کے لوگ اپنا تعلق ’’وِشنو دیوتا ‘‘ کے اوتار شری کرشن جیؔ مہاراج کے قبیلہ ’’ یادَو‘‘ سے بیان کرتے ہیں ۔ شری کرشن جی کا ایک صفاتی نام ’’ مُرلی دَھر‘‘ بھی تھا / ہے ۔ یعنی۔ مُرلی (بانسری ) بجانے والا ،یا بانسری نواز ۔ معزز قارئین۔ مَیں خود بھی حضرت میاں محمد بخشؒ کے کلام کا شیدائی ہُوں ۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب جناب محمد حنیف رامے (مرحوم) ایک مرتبہ مجھے اور اپنے کئی دوستوں کو اپنے ساتھ ’’ کھڑی شریف‘‘ ( آزاد کشمیر) میں حضرت میاں محمد بخشؒ کے مزار پر حاضری کے لئے لے گئے تھے ۔ بھارتی پنجاب کے سِکھ اور ہندو بھی حضرت میاں محمد بخشؒ کے کلام کے شیدائی ہیں ۔ 29 جون 2013ء کو ( اُن دِنوں) وزیراعظم میاں نواز شریف کے دفتر میں "Pak India Joint Bussines Council" ۔ کے اجلاس میں جب بھارتی پنجاب کی ایک کاروباری شخصیت نے حضرت میاں محمد بخشؒ، کا ایک مصرعہ غلط پڑھا تو وزیراعظم نواز شریف نے صحیح مصرعہ پڑھ کر اُن سے داد وصول کرلی تھی ۔ مصرعہ تھا / ہے… ٹُٹّے دِل، کدی نئیں مِلدے، بھانویں ، گُھٹّ ، گُھٹّ جھپّیاں، پائیے! یعنی(’’جب رنجش یا کسی اور وجہ سے ) اِنسانوں کے دِل ٹوٹ جائیں تو وہ جُڑ نہیں سکتے، خواہ کتنی ہی گرمجوشی سے ایک دوسرے سے بغل گیر ، کیو ں نہ ہوتے رہیں؟‘‘)۔ ’’دشمن مرے تے، خوشی نہ کرئیے!‘‘ حضرت میاں محمد بخشؒ نے ایک دوسرے کے دشمنوں کو کتنی اچھی نصیحت کی تھی کہ… دُشمن مَرے تے خُوشی نہ کرئیے! سنجناں وِی ، مَر جانا! یعنی’’ اگر تمہارا کوئی دشمن مر جائے تو خُوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ تمہارے دوست بھی تو ، ایک نہ ایک دِن مر جائیں گے!‘‘ ۔ حضرت میاں صاحبؒ کے اِس عمل پر ہمارے سیاستدان (اور مذہبی قائدین بھی ) ایک دوسرے سے مستقل دشمنی یا دوستی نہیں رکھتے ۔ اقتدار میں شرکت کا معاملہ ہو تو، دشمن بھی ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال کو ’’جمہوریت کا حُسن‘‘ کہتے ہیں ۔ معزز قارئین!۔ کل (19مئی کو ) دِن کے وقت لالہ موسیٰ میں جناب قمر زمان کائرہ اور اُن کے رشتہ داروں اور دوستوں نے جواں مرگ اُسامہ کائرہ کی رسم قُل ادا کی اور (کل شام ہی ) بلاول بھٹو زرداری کی اسلام آباد میں ’’دعوتِ افطار و گفتار ‘‘ میں ، جنابِ ذوالفقار علی بھٹو ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری صاحب کے کبھی دشمنوں اور کبھی دوستوں (یا اُن کی اولاد نے ) وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے ایک دوسرے کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا۔ ’’ بلاول ، مریم ، بھائی بہن چارا‘‘ معزز قارئین! ۔ جب دو مرد ایک دوسرے کے بھائی بن جائیں تو اُس صورتحال کو ’’ بھائی چارا‘‘ کہا جاتا ہے ۔ صدر پرویز مشرف کے دَور میں جب، دو سابق وزرائے اعظم، میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک دوسرے کو بہنؔ اور بھائیؔ کہنا شروع کِیا اور جب 14 مئی 2006ء کو جب دونوں نے لندن میں ’’ میثاق جمہوریت‘‘ پر دستخط کئے تو ، مَیں نے اپنے کالم میں اُس ’’ میثاق ‘‘ کو ’’ بھائی ، بہن چارا‘‘ کا نام دِیا تھا ۔ 25 جولائی کے 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں حزبِ اختلاف کی دو بڑی پارٹیاں ہیں ۔ ’’ پی۔ پی۔ پی۔ پی‘‘ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ہیں ۔ حزبِ اختلاف کی دوسری جماعتوں کو آپ ’’شامل باجا‘‘ کہہ سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ’’ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر کل ’’ دعوتِ افطار و گفتار‘‘ کے میزبان ، بلاول بھٹو زرداری اور خاندانِ شریفاں کی سب سے بڑی سیاستدان مریم نواز صاحبہ کو مہمانِ اوّل ( یا مہمان خصوصی ) کہا جا رہا ہے ۔ معزز قارئین!۔ جولائی 2014ء کے آغاز میں جب، وزیراعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری صاحب میں دوستی کے دھاگے بہت مضبوط ہوگئے تھے تو، دونوں فریقوں کی طرف سے اِس طرح کے بیانات آرہے تھے کہ’’ ہمارے خاندانوں کی دوستی آئندہ کئی نسلوں تک چلے گی‘‘۔ اِس پر 5 جولائی 2014ء کو ’’ پاکستان پیپلز ، مسلم لیگ (ن) ‘‘ کے عنوان سے مَیں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ جب دونوں پارٹیاں ’’ اِک مِک ‘‘ ہو جائیں گی تو، اُس پارٹی کا نام ہونا چاہیے ۔’’ پاکستان پیپلز ، مسلم لیگ (ن) ‘‘ دُکھ ، غم ، سوگ ، مصیبت؟ شاعر نے کہا تھا کہ … خُوشی کے ساتھ ، دُنیا میں ، ہزاروں ، غم بھی ہوتے ہیں! جہاں بجتی ہے ، شہنائی، وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں! جواں سالہ بیٹے کی موت پر قمر اُلزمان کائرہ ، اُن کا خاندان اور دوستوں کا دُکھ بانٹنے کے لئے مناسب تو یہی تھا کہ ’’بلاول بھٹو زرداری ایک دِن صبر کرلیتے اور اسامہ قمر زمان کی رسم قل کی شام اپنی ’’ دعوتِ افطار و گفتار‘‘ کا اہتمام نہ کرتے۔ یہ دعوت تو، دوسرے روز بھی ہوسکتی تھی؟۔ بہرحال علاّمہ اقبالؒ نے تو، اُسامہ کائرہ جیسے ’’ جواں مرگ ‘‘ نوجوانوں کے بارے میں پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ … شباب سیر کو آیا تھا،سوگوار ہُوا!