کچھ اختصار اور اجمال ہے اہل دانش کی باتوں میں اور بہت سے ایسے احباب ہیں جو تفصیل سے وضاحت سے اور شفاف طریق پر اپنی بات کہنا چاہتے ہیں۔ اختصار پسند نئے موضوعات کی تلاش میں اپنا رزق تلاشتے ہیں اور بات کہنے سے غرض رکھتے ہیں۔ انہیں کیا کہنا چاہیے یا انہیں کیا تجویز کرنا چاہیے۔ اسے وہ اپنی ذمہ داری میں شمار نہیں کرتے۔ لوگ ان کی باتوں کو سنتے ہیں۔ ان کی تحریروں سے کچھ پڑھتے ہیں۔کبھی بہت غور کرتے ہیں اور کبھی بعجلت اعراض کرتے ہوئے کسی اور طرف دھیان پھیر کر سکون میں آ جاتے ہیں۔ ارباب بست و کشاد کو خیال آتا ہے کہ یہ عذاب کے لشکر ٹلنے کا نام نہیں لیتے۔ کچھ مافوق الفطرت معاملہ ہے۔ اس لئے کسی پرانے نیک آدمی سے پوچھیں کہ ہم نفساں کبھی ماضی میں ایسا ہوا ہو تو پھر آسمانی بلاء کی یورش بے انتہا کیسے رکی؟ بزرگ نے جواب دیا کہ خدا ناراض ہو جائے تو پھر ایسی ایسی بلائیں منہ زور پسپائی پر نہیں آتیں۔ ابھی چند روز پہلے پنجاب کے گورنر صاحب جو پنجاب کی تمام یونیورسٹیوں کے سربراہ بھی ہیں یعنی چانسلر ہیں۔ سب وائس چانسلرز ان کی ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔ اعلیٰ ڈگریوں پر ان کے دستخط ثبت ہوتے ہیں۔انہوں نے 7عدد وائس چانسلر حضرات کو ایک کمیٹی تشکیل دی ہے کہ تمام یونیورسٹیز میں ترجمہ قرآن کا اہتمام کریں تاکہ ہمارے نوجوان باشعور مہذب طلبہ و طالبات قرآنی تعلیمات سے آگاہ ہوں۔ راز دار درون مجلس مشاورت کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے اہم شرکاء نے گورنر صاحب کو باور کرایا کہ یہ کورونا دراصل اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہے ۔ اس لئے رضائے خداوندی کے حصول کے لئے دروس قرآن بہت زیادہ مفید ہونگے۔ گورنر صاحب نے اس تجویز کو بہت سراہا اور رائے کو عملی امکان کے درجے تک پہنچانے کے لئے کمیٹی بنا دی۔ اچھا رویہ ہے اور احسن اقدام ہے۔ یہ ایک موضوع ہے بہت زیادہ غور طلب۔ قرآن کریم کی تعلیم پہلی جماعت سے شروع ہوتی ہے۔ دسویں تک تکمیل تک پہنچ جاتی ہے نصاب میں ترتیب اوقات اور طریقہ ہائے تدریس بہت دلکش اور دلفریب ہے۔ پھر کچھ پتہ نہیں چلتا کہ سکولوں میں کیا ہوتا ہے اور میٹرک کے بعد سکول کی قرآنی تعلیم کے نتائج کیسے ہولناک ہوتے ہیں کہ جس بچے نے سکول کی قرآنی تعلیم پر تکیہ کیا اسے ایک آیت مبارکہ بھی صحیح طریقے سے پڑھنا نہیں آتی ہے۔ البتہ جن والدین نے اپنے بچوں کو اپنی کوشش سے قرآن کی تعلیم دلوائی ہوتی ہے وہ قرآن کریم کے عربی متن کو پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ پھر میٹرک کے بعد مضامین کے گروپ کی تقسیم کے مراحل اور فنی تعلیمی کے ضروری اور اہم مراتب و درجات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اسی شورمیں اکثر حفاظ بچے بھی قرآن کریم کا حفظ طماق نسیان میں رکھ دیتے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر ترجمہ قرآن سے متعلق نصابات کی تدریس انتہائی درجہ کمزور ہے۔ قرآنی عربی اور ترجمہ کی مہارت تو ایم اے اسلامیات کرنے کے بعد بھی عنقا ہی رہتی ہے۔ یہ تلخ حقائق کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ترجمہ قرآن کے سلسلے میں عوامی سطح کے دروس قرآن کا سلسلہ ایک بنیادی آگاہی اور شعور پیدا کرنے کا سبب تو ہوتے ہیں لیکن قرآن فہمی کی روح اجاگر کرنے میں ایک مسلسل علمی قابلیت اور ذوق کامل درکار ہوتا ہے اس طریقہ کار میں مختلف دبستان فکر کے علماء کے تراجم پر اعتماد کیا جاتا ہے اور ان تراجم میں کچھ ابتدائی تصور تو پیدا ہوتا ہے لیکن قرآن کریم کی درست ترین ترجمانی کی تشنگی برقرار رہتی ہے۔ اسلئے تفسیری اشارات اور تفصیل کی ضرورت باقی رہتی ہے یہ حقائق ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم قرآن فہمی سے گریز کریں۔ قرآن کا ترجمہ اس کی فہم اور اس کی تعلیمات اسلامی عقائد و تعلیمات کا اولین ماخذ ہیں لیکن قرآنی تعلیمات کے مطابق نظام تربیت بغیر حدیث رسول ؐ کے نہایت نامکمل ہوتا ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ تربیتی امور شاہد ہیں۔اس بات میں جناب گورنر پنجاب کی خدمت میں چند تجاویز تحریر ہیں۔ جن سے مقاصد براری میں ایک وسیع درجہ معاونت میسر آ سکے گی۔ 1۔ ملک بھر کے مختلف دبستان فکر کے معتدل مزاج جید علماء کرام(جو سیاسی اور مفاداتی فکر سے آزاد ہوں) کا ایک بورڈ تشکیل دیا جائے اس بورڈ میں ایک ماہر نفسیات جو تعلیم و تربیت کے پہلو سے تجربہ کار ہو۔ کو بھی شامل کیا جائے اور اس بورڈ میں مختلف مکاتب فکر کے تبلیغی جماعتوں کے تجربہ کار مربیین کو بھی شامل کیا جائے۔ 2۔یہ بورڈ باہمی مشاورت سے یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کی ذہنی فکری اور معاشرتی نہج کو سامنے رکھ کر قرآن و حدیث سے ایک اخلاقی تربیت کا نصاب مرتب کرے اور جناب گورنر کی نگرانی میں مختلف یونیورسٹیز کے وائس چانسلر صاحبان اور اس مجوزہ بورڈ کی میٹنگ ہو۔ روایتی اجلاس نہ ہو۔ تفصیلی بحث کے بعد منظوری دی جائے۔ 3۔وائس چانسلر صاحبان متعلقہ کمیٹیوں/بورڈز سے اس کی منظوری لیں اور پھر تمام شعبہ جات کے صدور کو پابند کر دیا جائے کہ وہ ازخود اس نصاب کو پڑھیں اور یہ ذمہ داری قبول کریں کہ روزانہ 30منٹ کی ابتدائی اسمبلی میں اس نصاب کا بیان وہ خود کریں گے۔ 4۔ تقریر‘تبلیغ کے علاوہ حیا فروغی کا اہتمام جناب گورنر یہ فرمائیں کہ نوجوان طلبہ میں اسلامی اور مشرقی معاشرے کی اقدار کا ماحول پیدا کرنے کے احکامات جاری فرمائیں۔طالبات کے لئے ایک اسلامی اور مشرقی یونیفارم کی پابندی کر دی جائے اور طلبہ کے لئے بھی سادہ اور باوقار مبنی برحیا لباس کی پابندی عائد کی جائے۔نیز اساتذہ کے لئے بھی دین اور پاکستان سے وابستگی کے لئے تازہ مطالعہ کی فراہمی کا اہتمام کیا جائے۔ جناب گورنر بظاہر یہ تجاویز روایتی نظر آتی ہیں لیکن اگر خیر افزا روایت پر عمل درآمد ہو جائے تو قوموں کی اخلاقی اقدار صحت مند رویوں کی طرف سفر شروع کرتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مغرب زدہ ذہن اور قلمار ایک شدید مزاحمت کا ماحول پیدا کریں لیکن آپ خدا و رسول ﷺ کی خوشنودی کو دل و دماغ میں بسا لیجیے خدائی نصرت آپ کو کامیاب کرے گی۔ آپ اور قوم سرخرو ہوں گے۔