جوبائیڈن کو امریکہ کا صدر بنے ابھی چار سوا چار مہینے ہوئے ہیں لیکن انہوں نے تیزرفتاری سے بین الاقوامی سفارت کرکے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو ایک نئے رُخ پر ڈال دیا ہے۔صدر بائیڈن نے صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی اعلان کیا تھا کہ امریکہ عالمی اسٹیج پر واپس آگیا ہے یعنی وہ بین الاقوامی اُمور میں اپنا متحرک‘سرگرم کرداردوبارہ شروع کریگا جو ڈونلڈ ٹرمپ کے چار برسوں میں خاصی حد تک کم ہوگیا تھا۔ بائیڈن نے وائٹ ہاوس میں پہنچتے ہی انڈیا‘ چین اور یورپ کے سربراہوں سے ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ ایران سے اسکے ایٹمی پروگرام پر کیے گئے معاہدہ کو بحال کرنے کی غرض سے مذاکرات شروع کیے۔ اس ماہ وہ دنیا کے دورے پر نکل پڑے۔ انہوں نے دنیا کے سات امیر ملکوں کی تنظیم ’جی سیون‘ کے برطانیہ میں ہونیوالے سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔اس موقع پر کئی ممالک کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں۔ پھر وہ بیلجیم کے دارلحکومت برسلز جا پہنچے،جہاں یورپی یونین اور نیٹو کے سربراہی اجلاس ہو رہے تھے۔ فوراً بعد رُوس کے صدر ولادمی میر پیوٹن سے جنیوا میںسربراہی ملاقات کی۔ صدر جو بائیڈن امریکی ریاستی مقتدرہ (اسٹیبلشمینٹ) کے پرانے آدمی ہیں۔ انکی سوچ امریکی حکمران اشرافیہ کے موقف کی عکاس ہے۔ امریکہ کا حکمران طبقہ خود کو دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور سمجھتا ہے ۔انیس سو نوّے کی دہائی کے اوائل میں کمیونسٹ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا۔ پچیس تیس سال تک وہ بلاشرکت غیرے دنیا پر راج کرتا رہا۔ تاہم سنہ دو ہزار بیس کے اوائل میں دنیا میں پھیلنے والی کوروناوبا نے عالمی سیاست کا رُخ بدلنے میں اہم کردار دا کیا۔ اس وبا سے پہلے ہی کچھ عرصہ سے چین کی معاشی طاقت اور ٹیکنالوجی میں ترقی امریکی بالادستی کیلیے ایک چیلنج بن گئی ہے۔امریکہ کی دنیا میں برتری اسکی فوجی صلاحیت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اسکی سبقت پر منحصر ہے۔ صدر ٹرمپ نے چینی اشیاء کی امریکہ میں درآمدات پر نت نئے ٹیکس لگا کر تجارتی جنگ شروع کردی تھی۔ان سے پہلے صدر اوبامہ بھی چین کے عروج کو بھانپتے ہوئے بحرالکاہل اور بحرہند کے اتحاد (انڈو پیسیفک الائنس)کا ڈول ڈال چکے تھے۔امریکہ کی سربراہی میں جاپان‘ آسٹریلیا اور انڈیا پر مشتمل ایک کواڈ نامی تنظیم بھی بنا لی گئی تھی تاکہ چین کو محدود کیا جاسکے۔مقصد یہ ہے کہ جب ضرورت ہو تو بحر الکاہل اور بحر ہند میں چین کی بحری تجارت میں رکاوٹ ڈالی جا سکے۔ عام طور سے خیال ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کا محور اب بحراوقیانوس (ایٹلانٹک) نہیں رہا جیسا پہلے تھا جس میں امریکہ کا یورپ سے اکٹھ اور فوجی اتحاد نیٹو اہم تھا ۔ اُس اتحاد کا مقصد کمیونسٹ سوویت یونین کا مقابلہ کرنا تھا۔ اب امریکی پالیسی کا مرکزی نکتہ بحرالکاہل اور بحر ہند ہیں۔اسکا ہدف چین ہے۔اسی باعث امریکہ کے یورپ سے تعلقات میں کسی قدر کمی آرہی تھی۔ تاہم جو بائیڈن نے بحراوقیانوس کے طرفین اتحاد ( ٹرانس ایٹلانٹک الائنس )میں دوبارہ جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ وہ یورپ کو دوبارہ امریکہ کے اہم شریک کار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے چین کیساتھ ساتھ رُوس کو بھی امریکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا ہے۔ بائیڈن کی کوشش ہے کہ رُوس اور چین دونوں کے خلاف یورپ کی مدد حاصل کی جائے۔ اس پسِ منظر میںدنیا کے 7 امیر ملکوں کے کلب ’جی سیون‘ کا برطانیہ میں گزشتہ ہفتہ دو روزہ اجلاس ہوا۔ اس گروپ میں امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی ‘اور جاپان شامل ہیں۔ تاہم اس بارآسٹریلیا‘جنوبی کوریا اور جنوبی افریقہ کے سربراہوں نے بھی مبصر کے طور پر شرکت کی جبکہ انڈیا کے وزیراعظم نریندرا مودی نے بحیثیت مبصر ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔یہ اجلاس ایک طرح سے علامتی نوعیت کا تھا ۔اس میں کچھ خاص‘ ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی۔ امریکی صدر چاہتے تھے کہ یہ گروپ دنیا کے دیگر ممالک کو اپنے زیراثر لانے کیلئے اپنا سرمایہ کاری کا منصوبہ لائیں جسکا مقصد چین کے سرمایہ کاری کے بڑے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ (جو پاکستان میں سی پیک کہلاتا ہے) کا متبادل پیش کرنا ہولیکن اس پر اتفاق نہیں ہوسکا۔ شاید اسلئے کہ کورونا وبا کے باعث جی سیون کے بیشتر ممالک معاشی مشکلات کا شکار ہیںاور کئی تو مقروض ہوچکے ہیں۔ وہ صرف اس بات پر متفق ہوسکے کہ دنیا کے دوسرے کم آمدن ممالک کی مددکے طور پر گروپ کورونا ویکسین کی ایک ارب خوراکیں تقسیم کریگا۔ کوئلہ سے بجلی بنانے کے پلانٹس بند کرنے پر اتفاق ہوا تاکہ ماحولیات کا تحفظ کیا جاسکے۔ چین کے معاملہ پر امریکہ اور یورپی ملکوں کا اتفاق نہیں ہوسکا۔ اصل میں یورپی یونین نے حال ہی میں چین سے سرمایہ کاری کا ایک بڑا معاہدہ کیا ہے جسکے تحت یورپی کمپنیوں کو چین میں سرمایہ کاری کیلیے خاصی رعایتیں دی گئی ہیں۔ یورپی یونین اور چین کے درمیان تجارت کا حجم ایک ہزار ارب ڈالر ہے جبکہ دونوں کے درمیان سرمایہ کاری اڑھائی سو ارب ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ یورپ صرف امریکہ کے مفادات کو پورا کرنے اور اُسکی بالادستی قائم رکھنے کیلئے چین سے اپنے مفید تعلقات کو خطرہ میں کیوں ڈالے؟ جو بائیڈن کسی حد تک جی سیون کے ذریعے امریکہ ‘یورپ اور اپنے بڑے اتحادیوں کے درمیان روابط کو پہلے سے بہتر بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں لیکن چین کے خلاف فی الحال کوئی بڑا بلاک بنانے میں ناکام ہوگئے۔چین کا معاشی عروج اتنا بھاری بھرکم ہے اور دنیا کے سب ممالک کیلیے اتنا پُرکشش ہے کہ کوئی ملک بھی اس کے ساتھ دشمنی نہیں چاہتا۔جو بائیڈن کی یہ بھی کوشش تھی کہ روس کے صدر پیوٹن کو انسانی حقوق اور یوکرائن کے معاملہ پر دباؤ میں لا کر چین سے فاصلہ کرنے پر مجبور کرسکیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ انکی صدر پیوٹن سے ملاقات ہونا بذاتِ خود اہم سفارتی واقعہ ہے لیکن اس ملاقات کے بعد کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔ نہ مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی۔مطلب ‘ دونوں کے درمیان اہم امور پر اختلافات ختم یا کم نہیں ہوسکے۔بائیڈن کے سامنے دو راستے ہیں ۔ ایک ‘وہ چین کے خلاف بلاک بنانے کی کوششیں جاری رکھیں اور کامیابی کیلیے مناسب وقت کا انتظار کریں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ امریکہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے اور تسلیم کرلے کہ اب چین اسکے برابر کی عالمی طاقت ہے۔ دونوں کومِل بانٹ کر کھانا ہوگا۔ اپنے اپنے دائرہ اثر میں کام کرنا ہوگا۔