آسٹریلیا کے کھلاڑیوں نے ورلڈکپ میں فتح کے بعد جوتوں میں شراب پی۔ ان کے ہاں سماجی سطح پر اگر یہ ایک مستحسن عمل ہے تو ہمیں اس پر اعتراض یا تنقید کا ظاہر ہے کوئی حق حاصل نہیں۔یہ سوال البتہ نہ چاہتے ہوئے بھی دیوار دل سے آن لگا ہے کہ جن احباب کو مقامی تہذیب کا ہر رنگ پریشان کر دیتا ہے اور غیر مقامی تہذیب کے مظاہرجن کے لیے معیار شرافت و شرف ہیں،وہ اس رسم پر کب عمل پیرا ہوں گے؟ اندریں حالات درخواست یہ ہے کہ اگر انتہائی مقامی احباب کے ہاں ایسی کوئی رسمِ جوتا نوشی ادا کی جائے اور ہم جیسوں کو مدعو کرنا خلاف شان ہو تو از راہ کرم یوٹیوب پر یہ مناظر براہ راست نشر کر کے ہمیں بھی تھوڑا مہذب ہونے کا موقع فراہم کیا جائے۔ عین نوازش ہو گی۔ اس روایت کا دستیاب سیاق و سباق بھی دلچسپ ہے۔ روایت یہ ہے کہ شکاگو میں اشرافیہ کے لیے قائم ایک قحبہ خانے میں رقص کرتے ہوئے ایک رقاصہ کا جوتاگر گیا۔اس وقت جرمن شہنشاہ ولیم دوم کے بھائی شہادہ ہنری کا وفد بھی وہاں موجود تھا۔ اس وفد کے ایک معزز نے وفور شوق میں رقاصہ کا جوتا اٹھا لیا اور اس میں شراب پینا شروع کر دی۔پہلی جنگ عظیم میں جرمن فوجی اپنا مورال ہائی رکھنے کے لیے اپنے جرنیلوں کے بوٹوں میں شراب پیا کرتے تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایت فروغ پانے لگی اور اب آسٹریلیا میں فتح کی بد مستی کی یہ انتہا تصور کی جاتی ہے کہ بوٹوں میں ڈال کر شراب پی جائے۔ یہ فتح کے بعد کی افتاد طبع کی کہانی ہے جو کبھی بوٹ میں شراب ڈال کر پیتی ہے تو کبھی انسانی کھوپڑیوں میں ڈال کر۔ یہ اصل میں وحشت ہے جس کے اظہار کے انداز بدلتے رہتے ہیں۔کبھی جنگی مشن سے پہلے فائٹر پائلٹس کو پورن فلمیں دکھائی جاتی ہیں تا کہ ان میں وحشت بھر جائے، کبھی مفتوحہ لوگوں کے جسم کے حصے کاٹ کر بطور یاد گار پاس رکھ لیے جاتے ہیں اور کبھی ان مقتولین کی کھوپڑیوں میں شراب پی جاتی ہے۔ یہ وحشت محض نچلے درجے کے اہلکاروں میں نہیں ہوتی۔ اس کا دائرہ کار اعلی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔امریکہ کی سدر ن الینائس یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر جے وینگارٹنر کا کہنا ہے ایک رکن کانگریس نے امریکی صدر کو ایک ایسا ’ لیٹر اوپنر‘ تحفے میں دیا تھا جو ایک دشمن سپاہی کے بازو کی ہڈی سے بنایا گیا تھا۔ اگر آپ کا خیال ہو کہ امریکی صدر کو اس وقت اپنا اعلان آزادی یا اپنے حریت سے جڑے تصورات یاد آ گئے ہوں گے اور انہوں نے رکن کانگریس کو شدید الفاظ میں تنبیہ کی ہو گی تو آپ غلطی پر ہیں۔ وینگارٹنر کے مطابق یہ تحفہ امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ نے قبول فرما لیا تھا۔ امریکی یونیورسٹی آف السٹر کے ’ جرنل آف دی رائل انتھرو پولو جیکل انسٹی ٹیوٹ ‘ میں اسی یونیورسٹی کے پروفیسر سمن ہارے سن کی ایک اور رپورٹ اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ امریکی فوجیوں کے ہاں یہ عام تھا کہ مقتول جاپانی فوجیوں کے سر کاٹ کر پکاتے تھے اور کھاتے تھے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور آکسفرڈ یونیورسٹی کے سینئر ریسرچ فیلو،برطانوی مورخ نائل فرگوسن نے اپنی کتاب ’ دی وار آف دی ورلڈ‘ میں لکھا ہے :’’ دشمن کی کھوپڑیوں کو ابال کر ان سے کھال اتار کر یار گار کے طور پر رکھنا ایک عام چیز تھی۔کان،ہڈیاں اور دانت تک اکٹھے کیے گئے‘‘۔نیال فرگوسن کسی امریکہ مخالف شخصیت کا نام نہیں۔بلکہ وہ امریکی صدارتی امیدوار جان مک کین کے مشیر رہ چکے ہیں اور 2004ء میں ٹائم میگزین نے ان کا شمار دنیا کے 100 موثر ترین لوگوں میں کیا تھا۔ امریکی کے اس رویے پر جمی جے وینگارٹنر نے بڑی اہم بات کہی۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ چونکہ امریکی معاشرہ دشمن کو جانور سمجھتا ہے اس لیے دشمن کی ہڈیوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو جانوروں کی ہڈیوں کے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس میں حیرت کیسی؟ ایک دور میں عالم یہ تھا کہ اخبارات کے دفاتر میں مقتول جاپانیوں کے کٹے ہوئے سروں کی ٹرافیاں آویزاں ہوتی تھیں۔امریکی شاعر ونفیلڈ تائونلے سکاٹ جس اخبار میں ملازمت کرتے تھے، وہاں 5 جاپانی سروں کی ٹرافیاں آویزاں تھیں۔چنانچہ انہوں نے اس پر مشہور نظم لکھی کہ : دی یو ایس سولجر ود دی جیپنز سکل‘۔ اگر آپ کا خیال ہے یہ پرانی بات ہے اور یہ سلسلہ اب تھم چکا تو ایسا نہیں۔ایشین ٹریبیون اور جرمن رونامہ در سپیگل میں یہ رپورٹ تصاویر کے ساتھ شائع ہو چکی ہے کہ افغان مقتولین کی لاشوں کے سر کاٹ کر ان کی ٹرافیاں بنائی گئی ہیں۔ ایشین ٹربیون ہی میں یہ رپورٹ بھی شائع ہو چکی ہے کہ ایک 15 سالہ افغان گل مدین کو قتل کر کے اس کی انگلی ایک فوجی جرمی مارلوک نے اپنے پاس بطور یاد گار محفوظ کر لی۔ بعد میں برطانوی اخبار گارجین نے اسی جرمی مورلوک کا انٹرویو کیا تواس نے ہنستے ہوئے جواب دیا: میں نے یہ قتل محض تفریح کے طور پر کیا ہے۔ آپ کہیں گے جوتوں میں شراب تو آسٹریلیا والوں نے پی ، اس میں امریکہ کا ذکر کہاں سے آ گیا۔یہ ذکر اس لیے آیا کہ دونوں کا تہذیبی ورثہ یکساں اور سانجھا ہے۔فتح کی وحشت کے اظہار میں بھی دونوں ایک جیسے ہیں۔ وہی قدیم سفاک جبلتیں ان کے ہمراہ ہیں۔ان جبلتوں کا اظہار جنگ کے میدان میں ہو تو دشمن کی کھوپڑی میں شراب پی جاتی ہے اور اس کا اظہار کھیل کے میدان میں ہو تو شراب بوٹوں میں پی جاتی ہے۔ دنیا میں بہت تنوع ہے اور ہر تہذیب اور ہر قوم اپنی قدروں اور روایات کے ساتھ جیتی ہے۔ آسٹریلیا نے اگر جیت کا جشن اسی طرح منانا ہے تو شوق سے منائے لیکن مقامی مرعوبین کے لیے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی ایک قوم کی تہذیب اور روایات کو گلوبلائزیشن کے نام پر ساری دنیا پر مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی ایسا چاہتا ہے تو یہ ایک بیمار نفسیات کی علامت ہے۔ ہماری فکری مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ برطانیہ میں ٹیسٹ سیریز جیتنے کے بعد جاوید میانداد کو بطور کپتان شراب کی بوتل دی جاتی ہے تو میانداد صاحب اسے عالم شوق میں لہرا تے رہتے ہیں جیسے بڑی سعادت حاصل کر لی۔ یہ مرعوبیت آدمی کو خوفزدہ کر دیتی ہے کہ شراب کی بوتل لینے سے انکار کر دیا تو انتہا پسند اور گنوار نہ کہلائوں ۔ حالانکہ یہ میزبان کے آداب میزبانی کا تقاضا تھا وہ مہمان کی حساسیت کا خیال رکھے، اگر میزبان کو اس حساسیت کا خیال نہیں تو مہمان بھی بصد شکریہ شراب کی بوتل بطور انعام وصول کرنے سے انکار کر سکتا تھا۔رونالڈواگر کوکا کولا کی بوتل ایک طرف ہٹا سکتا ہے تو ہمارے جاوید میانداد بھی انکار کر سکتے تھے۔ لیکن خیر یہ بحث تو بہت طویل ہے فی الوقت تو یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ مقامی سطح پر کسی نے Shoey کی رسم نبھانا ہو تو بوٹ کے لیے مجھ سے رجوع فرماسکتا ہے۔ پائوں کا سائز بھی دس نمبر کا ہے اور جوتا بھی امپورٹڈ ہے۔