مروجہ جمہوریت کی خوبی یہ ہے کہ عوامی حمایت کے دعوے دار ہر لیڈر کو عوام کی ایک بڑی تعداد کی صورت میں اتنا خام مال میسر آجاتا ہے کہ وہ جب چاہے اپنے مخالف عوامی لیڈر کا ناطقہ بند کرسکے۔ ادھر مخالف عوامی لیڈر کو بھی یہی سہولت اسی نیٹ ورک پہ میسر ہوتی ہے۔ملک کی مقتدرہ اس امر کا خاص خیال رکھتی ہے کہ یہ توازن بگڑنے نہ پائے اور عوامی جتھوں کی حمایت کے ذریعے ایک کے ذریعے دوسرے کو نکیل ڈالی جاسکے۔پاکستان جیسے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی اس ضمن میں خاص کردار ادا کرتی ہے جس کی بڑی تعداد محض جذباتی وابستگی کی بنیاد پہ اپنے لیڈر کی ایک کال پہ گھروں سے نکل پڑتی ہے۔ غالبا یہ کوشش بھی کی جاتی ہے کہ یہ آبادی کم نہ ہونے پائے نہ ہی تعلیم اور شعور جیسی بدعات اس کے قریب پھٹکنے پائیں۔چنانچہ آپ نے بے نظیر اور نواز شریف کے ایک جیسے بڑے عوامی اجتماعات دیکھے ہونگے اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا ہوگا کہ آخر عوام کا یہ ٹھاٹیں مارتا سمندر ہے کس کے ساتھ۔ ایسے ہی لاکھوں کے اجتماعات کراچی میں بھی ہوا کرتے تھے۔عمران خان نے جو بے مثال بڑے جلسے کئے ۔ بھٹو کے عوامی جلسوں کی تو بات ہی کیا تھی اور اسی بھٹو کے خلاف سڑکوں پہ نکلنے والی عوام کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔اس تمام مبہم عوامی حمایت جو سبھی کے ساتھ ہوتی ہے کے مظہر میں مروجہ سماجی مذہب کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور ہر عوامی لیڈر اس کے استعمال کا عذر تراش لیتا ہے۔ہم نے ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اس کا بہترین استعمال تحریک نظام مصطفی کی صورت میں دیکھا حالانکہ موصوف کے دیگر اوصاف اپنے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک میں مکمل ممد و معاون ثابت ہوسکتے تھے۔اس کے باوجود مذہب کارڈ ہمیشہ سے سریع الاثر اور معجزاتی خصوصیات کا حامل رہا ہے جس کا مقابلہ کوئی دوسرا کارڈ نہیں کرسکتا۔ ستتر کے انتخابات کے بعد بھٹو مرحوم جو آمرانہ حربے استعمال کرکے بر سر اقتدار آئے تھے وہ بہرحال اپنی تکنیک میں جمہوری ہی تھے۔یعنی انتخابات ہوئے تھے خواہ اس کے نتائج کسی کو قبول ہوں یا نہ ہوں۔ بھٹو کے خلاف تحریک برپا کرنا متحدہ اپوزیشن کا حق تھا جو انتخابات کو تسلیم نہیں کرتی تھی۔انتخابات کو تسلیم نہ کرنا آئین جمہوریت میں کونسی شق ہے اس بارے میں مورخ لب بستہ ہے۔اس تحریک میں اس بھٹو کے خلاف مذہب کا تڑکا لگا جس نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ بھٹو صاحب اپنی فطرت میں قطعی جمہوری نہیں تھے اس لئے انہوں نے حسب فطرت اس تحریک کا منہ توڑ جواب دیا۔ وہ ایسے شخص تھے کہ تنہا بھی کھڑے ہوتے تو اس آن کے ساتھ گویا سامنے لاکھوں کا مجمع ان کے سامنے سر بکف کھڑا ہو۔اس بار تو وہ جعلی یا اصلی ، بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب ہوکر آئے تھے۔بیلٹ باکس کی قوت ان کے ساتھ تھی۔ انہیں کون روک سکتا تھا ۔ انہوں نے وہی کیا جو ان کی فطرت کو زیب دیتا تھا۔ تحریک کو بزور قوت کچلا اور ملک میں وہ انارکی پھیلی جس کے بعد بوٹوں کی دھمک ہی آرکسٹرا کا کام دیتی ہے۔ جنرل ضیاالحق بر سراقتدار آگئے اور بھٹو صاحب ، جو جیسے بھی سہی، منتخب وزیر اعظم تھے، تختہ دار پہ جھول گئے۔ان کی سزائے موت کو عدالتی قتل بجا طور پہ کہا جاتا ہے۔بجا طور پہ اس لئے کہ جس ملک میں ہزاروں قاتل چھٹے پھر رہے ہوں وہاں قتل کے ایک مقدمے میں ایک سال کی سماعت میں ایک ایسے لیڈر کو سزائے موت دے دی گئی جو خود کو امت مسلمہ اور تیسری دنیا کے بڑے لیڈروں میں شمار کرتا تھا اور اس ایک سال جب وہ داخل زنداں رہا، اسنے اپنی بدن بولی، بولی اور حرکات و سکنات سے اس تاثر کو پختہ بھی کیا۔ اس کی تفصیلات بھٹو کی سکیورٹی پہ مامورکرنل رفیع الدین اپنی معروف کتاب بھٹو کے آخری ۳۲۳ دن میں بیان کرچکے ہیں۔یہ کتاب پڑھتے ہوئے بارہا احساس ہوتا ہے کہ گویا آخری چند دنوں کے علاوہ بھٹو کو یقین تھا کہ ان کی بچت کا کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔ان کی امید بہرحال بر نہیں آئی کہ فیصلہ ہوچکا تھا۔تختہ دار ان کا مقدر بن چکا تھا۔ آپ بھٹو صاحب کے محاسن و معائب پہ کتابیں لکھ سکتے ہیں لیکن خرابی ساری انتخابات سے شروع ہوئی جو جمہوریت کا دین اصل ہے اور اس کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کے غیر جمہوری اظہار سے ہوئی جو آج بھی رائج العمل ہے۔عجیب بات یہ ہے کہ بھٹو کے نام پہ آج تک ووٹ لینے والے عمران خان کے خلاف اسی طرز عمل کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں جس کا مظاہرہ ان کے عظیم رہبر کے خلاف کیا گیا تھا۔اس بار مذہبی کارڈ ایک مذہبی شخص کے ہاتھ میں تھما دیا گیا ہے جسے یہ تک علم نہیں کہ وہ سڑکوں پہ نکلا کیوں ہے۔ جب حکومتی مذاکراتی ٹیم نے مشترکہ رہبر کمیٹی سے سوال کیا کہ احتجاج کا مقصد کیا ہے تو ان کا جواب اتنامبہم تھا کہ بھٹو مرحوم زندہ ہوتے تو رہبر کمیٹی کی ٹانگیں توڑ دیتے۔ لے دے کر بات عمران خان کے استعفیٰ پہ اٹک جاتی ہے تو سوال پھر وہی ہے کہ بھٹو نے متحدہ اپوزیشن ، جس کے ساتھ عوام کی ایک کثیر تعداد موجود تھی،کے مطالبے پہ استعفی کیوں نہیں دیا اور انتخابات کیوں نہیں کرائے؟جب ان کا یہ طرز عمل جمہوریت کی رو سے بالکل درست تھا ۔ البتہ جس کا خمیازہ انہوں نے بھگت بھی لیا تو عمران خان کو ، جس کے مخالفت میں اکھٹے ہونے والوں کے اپنے دل پھٹے ہوئے ہیں،کیا پڑی ہے کہ وہ مستعفی ہوں؟ بات جمہوریت کی ہی ہے تو عمران خان مکمل جمہوری عمل کے ذریعے بر سر اقتدار آئے ہیں۔ ملک میں باقاعدہ انتخابات ہوئے تھے۔ نواز شریف ضرور نااہل ہوئے لیکن ان کی جماعت موجود تھی اور اسے اپنے عظیم قائد کی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کی اس حد تک آزادی تھی کہ وہ اکثر یہ حد کراس کرجاتی تھی۔ بھٹو مرحوم کے ستتر کے انتخابات کی نظیر کے برخلاف نہ کسی کی ٹانگیں توڑی گئیں، نہ کسی کو اغوا کیا گیا اور نہ ہی کسی کی جان لی گئی۔ملک میں انتخابات ہوئے اور تیسری قوت برسرا قتدار آگئی۔بالفرض یہ انتخابات ستتر کے انتخابات کی طرح بھی ہوئے تب بھی وہ ہوئے تو تھے۔اس وقت بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک جو بعد میں مذہب کا تڑکا لگا کر تحریک نظام مصطفی بن گئی، اگر غلط تھی تو آج عمران خان کے خلاف تحریک جس کی کوئی بنیاد ہی نہیں، کیسے درست ہوسکتی ہے۔ ایک لمحے کے لئے فرض کرلیجیے کہ ان انتخابات میں تحریک انصاف کی جگہ نون لیگ یا پیپلز پارٹی ایک بار پھر برسر اقتدار آجاتیں تو کیامیثاق جمہوریت کے تحت سکون سے باری لینے اور دینے والے ایک دوسرے کے خلاف سڑکوں پہ ہوتے؟لہٰذا اصل تکلیف باری نہ ملنے اور کرپشن کے خلاف کیس کھلنے کی ہے۔اسے آپ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کہہ لیں۔دل کے بہلانے کو اچھا خیال ہے۔