آپکا فرض ہے کہ اس ظالم کو گرفتار کر کے اس پر فوری مقدمہ قائم کریں۔ انہوں نے مزید یہ کیا کہ اس خط کی متعد د نقول بنا کر تمام فوجی جنرل آفیسرز کو بھیج دیں۔ چیف آف آرمی سٹاف اُس کی اس حرکت پرسخت پریشان اور ناراض ہوئے انہوں نے حکم دیا کہ اس بریگیڈیر کا فوج کے اندر Seduction پھیلانے کے جرم میں کورٹ مارشل کیا جائے اور سخت سزا دی جائے۔ یہ اُ ن حالات کی ایک جھلک ہے جو فوجی قیادت کو درپیش تھے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل دو بریگیڈیرمظاہرین پر گولی چلانے سے انکار کر کے سنگین نتائج بھگتنے کا انتہائی اقدام کر چکے تھے۔ فوج چار مہینے سے انتہائی صبر اور نظم و ضبط کے ساتھ حکومت کی معاونت کر رہی تھی۔ جون کے آغاز میں اخبارات کے صفحہ اول پر چیئر مین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، آرمی، نیوی اور ایر فورس کے تینو ں چیف آف سٹاف کے پیغامات اُن کی تصاویر کے ساتھ شائع ہوئے۔ جن میں کہا گیا کہ اس کشمکش میں مسلح افواج آئینی حکومت کے ساتھ ہیں۔ یہ مفروضہ قطعی طور پر غلط ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف میں کوئی تصفیہ یا سمجھوتہ طے پا گیا تھا۔ یہ جو ایک آدھ معتبر آواز اس سلسلے میں سنائی دیتی ہے '' کہ سمجھوتہ ہو گیا تھا صرف دستخط کرنا باقی تھے کہ فوج نے بے جا مداخلت کی ''۔ بصد احترام یہ قطعی غلط اور جھوٹ ہے۔ دونوںفریق اقتدار کے بھوکے اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو دھوکا دے رہے تھے۔ جمہوریت، آمریت، سیاست، سیاست گری، ریاست، ریاست گری، سیادت، جہاں بانی و جہانگیری، عالمی زعما کے سینکڑوں اقوال، درسگاہوں میں پڑی اور پڑھی جانے والی ان گنت کتابیں، بادشاہت، ملوکیت، اشتراکیت، سوشلزم، کیمونزم، کیپٹلزم، لینن ازم، مارکس ازم، مائو ازم، مسلم ریاست، اسلامی حکومت، مذہب پر قائم حکومت، قومیت کے نام پر قائم ریاست، رنگ و نسل پر قائم ریاست، زاریت، چانسلر شپ، ڈکٹیٹر شپ، کامریڈ شپ، خلافت۔۔۔ یہ سب لاحاصل اور لا یعنی بحث ہے۔ مشہور فلسفی کنفیوشس کا گزر ایک دیہات پر ہوا۔ اس نے دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے سرہانے بیٹھی رو رہی ہے۔ عورت نے بتایا کہ یہ اس کے بیٹے کی قبر ہے جسے گزشتہ رات شیر کھا گیا تھا۔ دوسری قبر اس کے خاوند کی ہے جسے دو سال پہلے شیر نے نشانہ بنایا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے باپ کی قبر ہے جسے پچھلے سال وحشی درندے کھا گئے تھے۔ کنفیوشس نے عور ت کے سر پر ہاتھ رکھا اور بولا پیاری بیٹی! تم اس علاقے کو چھوڑ کر کسی اور علاقے میں کیوں نہیں چلی جاتی۔ عورت نے کہا میرے اس علاقے کا بادشاہ بہت رحم دل اور انصاف پسند ہے'' میں اس بادشاہ کے علاقے سے باہر نہیں جانا چاہتی'' اُس دیہاتی عورت نے وہ صیغہ عارفانہ اور حرف محرمانہ بتا دیا جس کے لیے یہ سارے نظام کوشاں و سرگرداں ہیں۔ باب العلم کا سادہ و صیقل قول سدید کفر کی سلطنت قائم رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں '' اس پر صاد او ر مشعل راہ ہے۔ آج چار اور پانچ جولائی 1977کی درمیانی شب ہے۔ رات کا ڈیڑھ بج چکا ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق، چیف آف آرمی سٹاف کی وردی پہنے جی ایچ کیو میں اپنے دفتر میں موجود ہیں۔ ہتھیار بند فوجی دستے وزیر اعظم ہائو س میں داخل ہو چکے ہیں۔ بھٹو نے گھبرا کر جنرل ضیاء الحق کو ٹیلی فون کیا اور کہا ?'' ضیائ! یہ کیا ہو رہا ہے؟ جنرل ضیاء الحق نے اطمینان سے جواب دیا سر! جو ہو رہا ہے میرے حکم سے ہو رہا ہے۔ بھٹو نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا میرے بچے تو آج ہی بیرونِ ملک سے آئے ہیں۔ چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر نے کہا کہ’’کوئی مسئلہ نہیں آپ اطمینان سے بچوں کے ساتھ وقت گزارئیے۔ صبح ہم آپ کو راولپنڈی سے مری شفٹ کر دیں گے۔ ہمارے کوئی لمبے چوڑے سیاسی عزائم اور وچ ہنٹ (Witch Hunt) کے ارادے نہیں ہیں۔ ہم جلد ہی انتحابات کرا دیں گے۔ جو کوئی بھی جیتے گا۔ ہم اقتدار اس کے حوالے کر دیں گے انشاللہ‘‘پو پھوٹنے والی ہے۔ صبح صادق کا ظہور قریب ہے۔ تقریباً 3 بجے صبح جنرل ضیاء الحق نے تمام کور کمانڈرز کو ایک برقی پیغام یعنی سگنل کے ذریعے مطلع کیا ۔ From : Chief of The Army Staff To : All Corps Commanders ''Operation Fair Play.,well done . I will address the nation tomorrow" یہ اقتدار کے لیے شب خون نہیں تھا۔ رات کے اندھیرے میں ڈالا گیا ڈاکہ نہیں تھا۔ یہ سازش یا بغا وت نہ تھی۔ یہ جمہوریت کی ناکامی نہ تھی بلکہ نام نہاد جمہوری حکمرانوں کی ناکامی تھی۔ مسلح افواج کا سوچا سمجھا اور متفقہ فیصلہ تھا جس کے متعلق وزیر اعظم کو پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا۔ یہ ''یوم سیاہ ?'' نہیں تھا عوام کی پکار تھی مقہور و محبوس قوم کے لیے صبح آزادی کی نوید اور ’’یومِ نجات‘‘تھا۔(ختم شد)