جون کا مہینہ شروع ہو چکا۔ جون ہمارے ہاں تو سخت گرمی کا مہینہ ہے لگتا ہے سورج سوا نیزے پر آ کر آگ برسا رہا ہے۔ اسی مہینے میں بجٹ کا ہنگامہ بھی برپا ہوتا ہے۔ گرمی حالات کچھ اور بڑھ جاتی ہے۔ میرے جیسے سیدھے سادے عوام بجٹ آنے کا مطلب یہی سمجھتے ہیں کہ اب آنکھیں دکھاتی مہنگائی کو مزید تڑکا لگ جائے گا اور جون کی گرمی اور بھی کڑاکے دار محسوس ہو گی۔ سوچتی ہوں مئی کا مہینہ تو غریب شہر کا رمضان دسترخوان پر گزر گیا۔ عزت نفس کے آبگینے بھلے ٹوٹتے بھی رہے تو کیا پیٹ بھرنے کا تو انتظام تو ہوا۔ اور اس بار میرا مشاہدہ ہے کہ رمضان کے فی سبیل اللہ دسترخوانوں پر انتہائی غریب لوگوں کے علاوہ سفید پوش گرانے بھی موجود تھے۔ آنکھوں دیکھا واقعہ ہے۔ بحریہ ٹائون کو جاتی مین کینال روڈ پر الیکٹرانکس کی مصنوعات بنانے والی ایک مشہور کمپنی کی مسجد کے باہر افطار کے وقت پر اس قدر مجمع تھا کہ گمان گزرتا کہیں کوئی امن و امان کا مسئلہ پیدا نہ ہو جائے۔ گھر کے آرام دہ ماحول میں بیٹھ کر ایک وقت کی روٹی کھانا غریب شہر کے لئے دوبھر ہو چکا ہے۔ اب تو رمضان کا مہینہ رخصت ہو چکا ذرا سوچیں کہ فی سبیل دسترخوانوں پر بھوک مٹانے والے اب کس تنگی حالات سے گزرتے ہوں گے مگر حکمرانوں کو اس کی کیا پرواہ ہے۔ بڑے بڑے معیشت دان‘ عالمی معیشت کے رجحان کو سمجھنے والے تجزیہ کار زمینی حقائق کی بنیاد پر پیش گوئی کر رہے ہیں کہ بجٹ کے بعد مہنگائی کا ایک سونامی آنے والا ہے۔ زندگی متوسط طبقے کے لئے اور بھی مشکل ہو جائے گی۔ حکومتی ترجمان مگر اپنی الاپے جاتے ہیں کہ معاشی اعتبار سے بہتر ہو رہے ہیں۔ معاشی حالات کی سمت درست ہو چکی ہے جن کی جیبوں میں پڑے چند روپے بند مٹھی سے ریت کی طرح ریزہ ریزہ بکھرتے جاتے ہیں۔ انہیں ان معاشی اعشاریوں کی سمجھ نہیں آتی جو بقول حکومتی ترجمانوں کے بہتری کی نوید دیتے ہیں۔ حالات کی ابتری پر ہر جگہ ہاہا کار مچی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں کی سماعتیں مگر بند ہیں۔ وہ زمینی حقائق سے بے خبر ہیں بے حسی کی انتہا کہ عید سے پہلے پٹرول کی قیمت بڑھا کر عوام کو عید کا تحفہ دیا گیا۔ملکی معیشت آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کر۔ اس کی بہتری کی امید لگانا بھی عبث ہے۔ ان عالمی مالیاتی اداروں نے دنیا کے کتنے غریب ملکوں کی غربت دور کرنے اور ان کی بکھرتی ہوئی کمزور معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی لیکن ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں آئی ایم ایف گیا ہو اوروہاں معاشی بہتری آئی ہو۔ اس بات کو دنیا کے بڑے بڑے معیشت دان سمجھتے ہیں۔ نہیں کوئی سمجھتا تو ہمارے حکمران آئی ایم ایف کو معیشت گروی رکھ کر اب اس سے خوش گمانی لگائے بیٹھے ہیں کہ بنیاقرض دے کر ہماری غربت دور کرے گا اور یہ کہ ہم صرف قرض لے کر اپنی معاشی حالت سدھار لیں گے : قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن (Ana Eris)اینا ایرس ایک سینئر معاشی تجزیہ کار ہیں جو ہیرٹیج اکنامک فائونڈیشن کی ایک قابل قدر رکن ہیں۔ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ چالیس برسوں سے یہ عالمی مالیاتی ادارے غریب ملکوںکی غربت دور کرنے کے لئے بلین ڈالرز قرضے دے چکے ہیں لیکن اس کے باوجود معاشی مسائل حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ آئی ایم ایف پیسہ دے کر اس ملک کی معاشی آزادی کو سلب کر لیتا ہے اور کوئی ملک اس وقت تک معاشی طور پر اوپر نہیں اٹھتا جب تک وہ اپنے لوگوں کی خوشحالی اور ترقی کے لئے آزادانہ پالیسیاں نہیں بناتا جب آئی ایم ایف قرض کی رقم بھی اس وقت دیتا جب وہ اس ملک کی اکنامک فریڈم اس سے چھین لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس ملک میں بھی آئی ایم ایف گیا‘ نہ وہاں غربت دور ہوئی نہ معاشی ڈھانچہ بہتر ہوا۔ نہ ادارے مضبوط ہوئے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ایسے ملکوں کی مسلسل بدحالی کی وجہ ہی آئی ایم ایف کی وہاں موجودگی ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر آپ کے حالات تنگ ہیں تو آپ کسی امیر شخص سے قرضہ لیتے ہیں وہ امیر شخص آپ کو اس شرط پرقرضہ دیتا ہے کہ وہ آپ کے گھر کا بجٹ خود بنا کر دے گا۔ وہی طے کرے گا کہ آپ نے قرض کی اس رقم کو کہاں لگانا ہے۔ کس وقت پیٹ بھرنا ہے‘ کس وقت بھوکے رہنا ہے۔ اس معاشی غلامی کے ساتھ کیا آپ کی معاشی بدحالی دور ہو گی۔ کبھی بھی نہیں۔!ہمارا حال تو میر کے اس شعر جیسا ہے : میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے ہیں جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں ہم مگر سادہ ہیں‘ بدترین فریب کا شکار ہیں۔پرلے درجے کے جاہل ہیں۔کیکڑ پر انگور کی بیل چڑھانے والے دائرے میں سفر کر کے منزل پر پہنچنے کی خواہش رکھنے والے: کاغذ کے پھول سر پر سجا کر بارش سے لطف اندوز ہونے والے فریب خوردہ لوگ پاکستانی مارکہ جمہوریت سے ثمرات حاصل کرنے کی توقع رکھنے والے جھوٹ بولنے والوں سے ایفائے عہد کی امید رکھنے والے۔ سیاسی تماشاگروں کو رہنما سمجھنے والے۔ بڑھکیں مار کر مجمع لوٹنے والوں کو مسیحا جاننے والے۔ اپنے دشمن آپ! اس جنگ میں اپنے مقابل آپ ہی کھڑے ہیں۔ اپنے آپ سے ہارنے والے شکست خوردہ لوگ! اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکریں اور بلاول اور مریم کے سیاسی مستقبل کے احکامات پر لاحاصل بحثیں کرنے والے۔ سوشل میڈیائی مخلوق جو سموئیل بیکٹ کے مشہور زمانہ ڈرامہ wailing for godotویٹنگ فارگوڈو کی طرح ساری عمر ایک لاحاصل انتظار میں گزار دیتی ہے۔ ایک کھوکھلی امید کا سہارا لے کر ابھی کوئی مسیحا نفس آئے گا اور جادو کی چھڑی گھما کر سب ٹھیک کر دے گا۔ سب ٹھیک مگر اس وقت نہیں ہو گا جب تک خود اٹھ کر اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش نہ کرو۔ سیاسی حالات تو ایسے ہی رہیں گے۔ جون کا آغاز ہو چکا۔ اپوزیشن اتحاد حکومت کو ٹف دینے کو تیار ہے سیاسی درجہ حرارت بڑھے گا تو گرمی کے ساتھ ساتھ گرمیٔ حالات بھی بڑھے گی!!