سولہ مہینے امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے مشرق وسطٰی کو نظر انداز کئے رکھا۔ سفارتی تعلقات میں سرد مہری کی سب سے بڑی وجہ جمال خاشقجی کا قتل تھا۔ جو بائیڈن کا شمار ان امریکی سیاست دانوں اور حکمرانوں میں ہوتا ہے جو انسانی حقوق کی ادائیگی کے معیار کو بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ جو ملک جس قدر انسانی حقوق کی ادائیگی میں بہتر ہوگا، اسی معیار کے تعلقات امریکہ اس کے ساتھ روا رکھے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا معاملہ اس سے یکسر مختلف تھا۔ اس کے دور میں امریکہ نے انسانی حقوق کے معیار تو کیا کسی بھی معیار کو اتنی اہمیت نہیں دی کہ وہ بین الاقوامی تعلقات پر اثر انداز ہو سکیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال موسمی تبدیلیوں سے مطلق قوانین ہیں جن کو ٹرمپ نے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ ٹرمپ کے لیے امریکہ کی ترقی سب سے مقدم ہدف تھا پھر چاہیے اس پر انسانیت پامال ہو یا اخلاقیات۔ میکسیکو سے غیر قانونی طور پر امریکہ میں آنے والے لوگوں کو نہ صرف جیل میں بند کیا گیا بلکہ مائوں سے دودھ پیتے بچے جدا کئے گئے۔ امیگریشن کے عمل کو روکنے کے لیے بہت سے ممالک کے افراد کی امریکہ داخلے پر پابندی لگائی گئی۔ مختصراً ٹرمپ نے وہ سب غیر انسانی اور غیر اخلاقی کام کئے جو امریکی حکمران کئی دہائیوں سے ڈپلومیسی کی چاسنی میں ڈبو کر کرتے رہے تھے۔ اس برہنہ کرنے والے کردار کو اسی لیے نکالا کیونکہ وہ امریکی پالیسوں کو ان کی اصل شکل میں دنیا کے سامنے رکھ رہا تھا۔ بائیڈن کے دل میںخاشقجی کی ہلاکت کی چبھن محمد بن سلمان کے ساتھ روابط سے کئی بڑھ کر تھی۔ لیکن پھر روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا اور یہ چبھن ڈپلومیسی کی چاسنی میں جا گری۔ چین اور روس پچھلی ایک دہائی سے بین الاقوامی دینا کو امریکہ کی غیر مشروط اطاعت اور شراکت داری کے خول سے نکالنے میں پہلے ہی بہت حد تک کامیاب ہو چکے تھے۔ بین الاقوامی دنیا میں بدلتے اتحاد اور خطوں کا علاقائی تجارت کو فروغ دینے کے مزاج نے بھی امریکہ کی اہمیت کو متاثر کیا۔ امریکہ اب بھی پہلی سرد جنگ کے دوران رکھنے والی طاقت کے خواب میں مبتلا ہے اور کئی عرصے سے روس کے ساتھ اپنی چپقلیش کو دوسری سرد جنگ میں تبدیل کرنے کی کوشش میں بھی رہا ہے۔ یوکرین پر روسی حملے نے اس خواہش کو عمل جامعہ پہنانے کا موقع بھی فراہم کیا۔ لیکن امریکہ کو سرد جنگ 2.0 کو آگے بڑھانے کے لیے جن اتحادیوں کی ضرورت تھی وہ دستیاب نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ وہ ممالک جن کے ساتھ امریکہ نے سٹرٹیجیک ڈیفنس معاہدے کر رکھے ہیں جیسے کہ بھارت، اس نے بھی روس کے ساتھ یوکرین کے حوالے سے تعلقات خراب کرنے کی امریکی ہدایت مسترد کر دی۔ بھارت میں بدسطور روسی تیل کی درآمد کا سلسلہ جاری ہے۔ روسی تیل کی ترسیل امریکی پابندی کی وجہ سے بہت متاثر ہوئی۔ تقریباً پورا یورپ ہی اس معاملے پر امریکہ کے آگے سر نگوں ہے۔ ایسے میں روس نے تیل کی قیمت کم کردی۔ روس یوکرین جنگ نے جہاں تیل کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ کر رکھا تھا اور پوری دنیا میں مہنگائی کو آسمان تک پہنچادیا تھا، ایسے میں رعایت پر ملنے وال روسی تیل کس کو نہ اپنی طرف کھینچتا۔ چناچہ بھارت سمیت چین ، سعودی عریب یہاں تک کہ بہت سے یورپی ممالک بھی اب تک روسی تیل کے خیریدار ہیں۔ سعودی عرب کے ساتھ امریکی سفارتکاری میں سردمہری کی ایک وجہ یہ بھی بنی۔ امریکہ کے مطابق روس سے تیل خریدنا دراصل یوکرین پر حملے کو جائز قرار دینا ہے۔ اس منطق کو صرف ان ممالک نے خریدا جنہیں امریکہ کی بھڑک کا خدشہ تھا۔ جس کی تعداد اب دنیا میں کم رہ گئی ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کا شمار بہر حال ابھی بھی اسی کیمپ میں ہوتا ہے۔ یوکرین کی جنگ نے جہاں بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمت کو پر لگا ئے، مہنگائی کا عفریت پیدا کیا، ہر ملک کو شرح سود میں اضافہ کرنے پر مجبور کیا، بین الاقوامی معاشی سرگرمیوں کو متاثر کیا وہیں یہ چین اور روس کا امریکی اتحادیوں پر اثر ورسوخ بڑھانے کی وجہ بھی بنی۔ روس، چین، سعودی عرب، بھارت کے اس غیر محسوس اتحاد نے امریکہ کو مشرق وسطیٰ کی پالیسی پر از سر نو جائزہ لینے پر اکسایا جس کے نتیجے میں بائیڈن کے لیے اس دورے کا اہتمام کیا گیا۔ یوں امریکہ کی عالمی طاقت کو بچانے اور اپنے اتحادیوں میں امریکی حمیت کو زندہ رکھنے کے لیے بائیڈن نے انسانی حقوق کی تحریم اور اخلاقیات کی آبیاری سے ہاتھ کھینچ لیا۔ خاشقجی کی ہلاکت بھی اسی طرح بے معنی ہوگئی جس طرح مودی کا2002 میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام جس کی وجہ سے کئی سال مودی بطور وزیر اعلیٰ گجرات کا نہ صرف امریکہ بلکہ بہت سے مغربی ممالک میں داخلہ بند تھا۔ لیکن جیسے ہی مودی بھارت کا وزیر اعظم بنا تو امریکہ کے لیے ایشیاء کی سب سے بڑی منڈی کے سرابرہ مملکت کے خلاف جانا ممکن نہیں تھا۔ لحاظہ انسانی حقوق اور اخلاقیات کی لو کو بجھا دیا گیا۔ لیکن اپنی تمام تر دو رخی سفارتی پالیسی کے باوجود بائیڈن کا دورہ مشرق وسطیٰ صرف اس قدر کامیاب ہو سکا کہ اسرائیل کے ساتھ بنائے گئے یروشلم معاہدے میں دونوں ممالک نے فیصلہ کیا کہ اگر تہران نے اپنے جوہری پروگرام کو مزید بڑھایا تو اس کے خلاف مشترکہ کارروائی کی جائے گی اور سعودی عرب کی فضا کو اسرائیلی جہازوں کی آمدورفت کے لیے کھولنے کی اجازت دلوائی گئی۔ جہاں تک امریکہ کا مطابلہ کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار بڑھائے اس پر کسی اوپیک ملک نے حامی نہیں بھری۔ امریکہ کو سوائے خفت کے اس دورسے سے اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ اپنی طاقت کے زعم سے نکلے اور دنیا میں ابھرتے ہوئے نئے رجحانات، اتحاد اور طاقت کے توازن کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنائے۔