قومیں بیرونی حملوں‘ ناگہانی آفتوں اور تباہی سے نہیں اندرونی خلفشار ،بدعنوانی اور سازشوں سے مٹتی ہیں۔ عالمی جنگوں میں جاپان ،جرمنی اورسلطنت عثمانیہ اتحادی تھے۔ مگر جاپانی اور جرمن قوم متحد تھیں۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی تین دن تک جلتے رہے ،دھائیوںتک جاپان میں معذور بچے پیدا ہوتے رہے۔ جرمنی کے شہر برلن کے بیچ دیوار کھینچ دی گئی مگر قومی یکجہتی اور اجتماعی قربانیوں کے باعث دونوں ممالک چند دھائیوں بعد ہی دنیا کی پانچ مضبوط معیشتوں میں شمار ہونے لگے۔ سلطنت عثمانیہ کو جنگ کے ساتھ باہمی خلفشار‘ اندرونی سازشوں اور بدعنوانی کا بھی سامنا تھا۔ سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اور آج تک مسلمان ممالک بے کسی کی حالت میںعالمی استعمار کے رحم و کرم پر ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کو قائد اعظم کی عظیم قیادت نے متحد کیا اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ بانی پاکستان کی بے وقت موت کی وجہ سے پاکستانی اشرافیہ خود کو تمام قانونی اور اخلاقی ضابطوں سے آزاد سمجھنے لگی ،نتیجہ باہمی مخاصمت ‘ بدعنوانی اور اندرونی سازشوں کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ کے ساتھ بیورو کریسی بھی قومی وسائل کی لوٹ مار میں شامل ہو گئی۔افسر شاہی چڑھتے سورج کے سامنے سجدہ ریز ہونے اور جائز ناجائز طریقے سے اقتدار میں آنے والے حکمرانوں کی معاونت کر کے لوٹ مار میں حصہ دار بننے لگی۔ یہ قومی فرائض کی بجائے حکمرانوں کی غلامی کا ہی نتیجہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے وفادار سیکرٹری اطلاعات مارشل لا کے چھٹے روز ضیاء الحق کی پہلی پریس کانفرنس میں ان کے پہلو میں بیٹھے تھے۔ معاملہ کسی ایک تک محدود نہ تھا جو جس کے جتنا بھی قریب ہو سکتا تھا ،مل کر لوٹ مار میں مصروف ہو گیا۔افسر شاہی اور حکمرانوں کے گٹھ جوڑ نے ملکی نظام کو اس حد تک مفلوج کر کے رکھ دیا ہے کہ قانون مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ پانچ دن کی سزا والا غریب 5سال جیل میں سڑتا رہتا ہے مگر اربوں کی لوٹ مار کرنے والے کروڑوں کی پلی بارگین کر کے باہر آ جاتے ہیں۔قدرت کا مگر اپنا نظام بھی تو ہے۔راحت اندوری نے کہا ہے : یہ مئے کدہ ہے وہ مسجد ہے وہ بت خانہ کہیں بھی جائو فرشتے حساب رکھتے ہیں اشرافیہ کی لوٹ مار پر فرشتوں کے حساب کا ہی اثر ہے کہ آج میاں شہباز شریف عدالت میں کہتے ہیں کہ خدا کی قسم قوم کے اربوں روپے بچائے حالانکہ ان سے حساب ان کے خاندان کی 15ارب کی کرپشن کامانگا جا رہا ہوتا ہے۔ افسر شاہی اور حکمرانوں کے باہمی گٹھ جوڑ سے لوٹ مار کی بدترین مثال آئی پی پیز میں 45ہزار 8سو ارب کی لوٹ مار ہے ۔ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ڈاکے میں اہم کردار سابق سیکرٹری پانی و بجلی شاہد رفیع ہے۔ موصوف لاہور کے کمشنر رہنے کے علاوہ میاں نواز شریف کے منظور نظر مشہور تھے۔ ترقی پاتے پاتے وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی تک ہی نہیں پہنچے بلکہ سیاسی وفاداری بھی مسلم لیگ ن کے علاوہ پیپلز پارٹی تک پھیل گئی۔ کہتے ہیں اشرافیہ میں رشتہ داریاں بھی مفادات کو مدنظر رکھ کر ہوتی ہیں۔پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے بھتیجے موصوف کے داماد ہوئے اور دونوں حکمران جماعتوں تک رسائی نے لوٹ مار کا دائرہ بھی وسیع کر دیا ہے۔2008ء میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔ راجہ پرویز اشرف وفاقی وزیر پانی و بجلی بنے تو پوری وزارت گھر کی لونڈی ہوئی۔ بجلی کے بحران سے نجات کے نام پر واردات کا اہتمام ہوا اور یوسف رضا گیلانی کی کابینہ سے بجلی کے بحران کے خاتمے کے نام پر180ارب روپے کی پالیسی کی منظوری لی گئی۔ نجی کمپنیوںکو کرائے پر بجلی مہیا کرنے کو کہا گیا۔ ترکی کی کار کے کمپنی نے ایوانوں تک رسائی کے لئے رکھ لیا یوسف رضا گیلانی کی بیگم کے قریبی رشہ دار کو کنٹری منیجر رکھ لیا۔ شاہد رفیع کی راجہ پرویز اشرف اور علی ذوالقرنین کی وزیر اعظم کی بیگم کی رشتہ داری نے کرپشن کی دنیا میں گل کھلائے۔کرپشن کی گنگا میں ڈبکیاں لگانے والے صرف پیپلز پارٹی ہی میںنہیں تھے شریف خاندان بھی خوب خوب نہایا۔ آج شر یف فیملی کا شاید ہی کوئی فرد ہو جس کا نام ٹی ٹیز یا اراضی منتقلی میں نہ آتا ہو۔ جن کے بیرون ملک تو کیا پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہ تھی افسر شاہی کے دست تعاون سے وہ آج لاہور میں ہزاروں کنال کی مالک بنی بیٹھی ہیں۔یہ اربوں کی زمینیں اور ٹی ٹیز کیوں آئیں ان کی ایک جھلک پاور سیکٹر میں ہونے والی لوٹ مار میں ہی دیکھی جا سکتی ہے مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2015ء میں بجلی کے معاہدے کئے تو 10.54سنٹ فی یونٹ بجلی خریدی۔ پچاس میگاواٹ کا پلانٹ 13 کروڑ ڈالر میں لگانے کا معاہدہ کیا گیاجس میں سے 25فیصد سرمایہ کار نے لگانے تھے جبکہ 75فیصد پاکستانی بنکوں نے حکومت کی گارنٹی پر قرضہ جاری کرنا تھا جبکہ تحریک انصاف کی حکومت نے 2019ء میں 4.7سینٹ فی یونٹ کا معاہدہ کر رہی ہے بلکہ پلانٹ بھی 6کروڑ ڈالرمیں لگا رہی ہے یعنی مسلم لیگ ن نے تین گنا مہنگے پلانٹ لگانے کے معاہدے کیے اور تین گنا مہنگی بجلی خریدنے کی گارنٹی بھی دی۔ اس تین گنا ہی میں سے افسر شاہی نے حصہ وصول کیا اور اربوں روپے ٹی ٹیز ار ہزاروں کنال اراضی شریف خاندان کے حصہ میں آئیں یہ تو محض ایک وزارت کی لوٹ مار کی دستان ہے باقی اداروں کو کس طرح لوٹ کر اجاڑہ گیاان کا حساب آنا باقی ہے۔ مرتضیٰ برلاس نے کہا ہے کہ : جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی کبھی تو ان کا حسا ب ہو گا اب بستی اجاڑنے والوں کا احتساب شروع ہوا ہے تو جواب میں احتساب عدالت پر پتھر برسائے جا رہے ہیں اور اربوں روپے بچانے کی قسمیں کھائی جا رہی ہیں ۔سوال صرف یہ ہے کہ اربوں روپے قوم کیلئے بچائے یا اپنے ٹی ٹیز کے کھاتوں کے لیے۔عمران خان کا احتساب جتنا بھی اخلاص پر مبنی ہو مگر شریک جرم بیوروکریسی کو چھوڑ کر یا وعدہ معاف گواہ بنا پر انصاف ہو سکتا ہے نا ہی مستقبل میں لوٹ مار کا راستہ روکا جا سکتا ہے ۔ احتساب ہونا ہے تو سیاست دانوں کے ساتھ ان کے معاونین افسر شاہی کا بھی ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کہ قومیں بیرونی حملوں اور آفتوں سے تو بچ نکلتی ہیں مگر مخاصمت، اندرونی سازشوں اور کرپشن سے مٹ جاتی ہیں۔