ان کے شہر کا نام بہت خوبصورت ہے مگر ان کے حالات بہت بدصورت ہیں۔ ان کے شہرکا نام ’’جوہی‘‘ ہے۔ وہ جوہی جس کی طرف جانے والا راستہ قلندر لال شہباز کے مزار سے چندکلومیٹر آگے سیہون کی اس سڑک سے نکلتا ہے جو لاڑکانہ کی طرف جاتی ہے۔ جوہی سندھ کے وزیر اعلی مرادعلی شاہ کے گاؤں کے بیحد قریب ہے۔ چیف منسٹر کے پڑوسی ہونے کا انہیں فائدہ ہونا چاہئے مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ تعلق ان کے لیے نقصان کا باعث بنا ہوا ہے۔ جوہی کے لوگ جب بھی اپنے کسی جائز مطالبے کے لیے آواز اٹھاتے ہیں جاگیردارانہ ذہنیت کے باعث وزیر اعلیٰ سندھ اس صدا کو اپنے خلاف سازش سمجھتے ہیں۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ جوہی کے لوگ ان کو سیاسی طور پر بدنام کرنے کے پر تلے ہیں۔ حالانکہ جوہی کے لوگ تو صرف جینے کا حق مانگ رہے ہیں۔ پانی کے بغیر زراعت تو کیا زندگی کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ یہ جوہی کے لوگوں کی بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ وہ دریائے سندھ کے بہت قریب ہونے کے باوجود پانی کی ایک ایک بوند سے محروم ہیں۔ جس طرح سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی نے فرمایا ہے ’’وہ پانی پر رہتے ہیں مگر پیاسے ہیں‘‘ اہلیان جوہی کی بھی وہی صورتحال ہے۔ وہ نہ صرف دریائے سندھ کے قریب رہتے ہیں مگر ان کے گھروں سے چند کلومیٹر دور اس ملک کی سب سے بڑی جھیل منچھر موجود ہے۔ یہ بات کس قدر افسوسناک ہے کہ ایک طرف ان کی وہ جھیل زہر کا پیالہ بن چکی ہے اور دوسری طرف ان کی طرف آنے والے دریائے سندھ کے پانی پر مقامی وڈیروں کا قبضہ ہے۔ جوہی کا مقدر بھی سندھ کے دیگر شہروں سے مختلف نہیں مگر جوہی اور سندھ کے دوسرے شہروں میں یہ فرق ہے کہ جوہی کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں ترقی پسند اور جمہوری سیاست کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ اس لیے جوہی کے لوگ انصاف کے لیے آواز اٹھانے کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔ وہ ہمیشہ سیاسی تحریکوں میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ مگر اس بار جوہی کے آبادکار صرف اپنے اور اپنے بچوں کے حق کے لیے احتجاج کی راہ پر ہیں ۔ وہ کئی دنوں سے بھوک ہڑتالی کیمپوں پر بیٹھے نعرے لگا رہے ہیں کہ ’’جوہی کو پانی دو‘‘ مگر اب تک ان کی بات اس وزیر اعلیٰ کی سماعت تک نہیں پہنچی جو ان کا پڑوسی ہے۔اہلیاں جوہی پہلے تو اپنے شہر کے چھوٹے سے پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کرکے وہاں بیٹھے رہے مگر کافی دن گذرنے کے بعد جب انہیں محسوس ہوا کہ ان کی آواز اقتداری ایوانوں تک نہیں پہنچ پا رہی تو وہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں آئے اور کراچی پریس کلب کے سامنے انہوں نے ڈیرے ڈال کر وہی صدا بلند کی ہے کہ ’’جوہی کو پانی دو‘‘ ان کے پاس ہمدردی کے اظہار کے لیے بہت سارے مشہور افراد آ رہے ہیں اور سندھی میڈیا میں ان کے حمایت میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے مگر قومی میڈیا میں اب تک ان کی آواز اس طرح سے نہیں گونجی جیسا ان کا حق ہے۔ جوہی کے لوگ یہ سمجھتے ہیں اگر عدلیہ ان کی آواز سنے اور حکومت سے پوچھے کہ جوہی کے ساتھ جو زیادتی ہو رہی ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ تب ان کی طرف آنے والے پانی پر قبضہ ڈھیلا ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ وڈیرے اور وہ بھی سندھ کے وڈیرے اتنے سفاک ہیں کہ انہیں غریب کسانوں اور ان کے بھوکے بچوں پر کوئی ترس نہیں آتا۔ اگر ان وڈیروں کے دل میں خوف خدا بھی ہوتا تو آج جوہی کے آبادکاروں کا یہ حال نہ ہوتا کہ وہ برسوں سے پانی کی کمی کا شکار رہتے ہوئے آخر تنگ آکر سڑکوں پر آگئے ہیں اور وہاں وہ پوری دنیا کو بتا رہے ہیں ان کی طرف آنے والے واٹر کورس بالکل سوکھے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ ان کینالوں پر وڈیروں کا قبضہ ہے۔ وزیر اعلی سندھ سے مکمل طور پر مایوس ہونے کے بعد وہ کراچی پریس کلب کے دروازے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آنے جانے والوں سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں ملازمتیں نہیں چاہئیں اور نہ وہ دولت مانگ رہے ہیں وہ صرف اپنے حصے کے پانی کا حق مانگ رہے ہیں اور ان یہ حق ابھی تک نہیں ملا۔ سندھ کے وڈیرے حکمران صبح کو سب سے پہلے سندھی اخبارات پر نظر ڈالتے ہیں۔ وہ ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں سندھ کے عوام سے کوئی ہمدردی ہے۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ جان پائیںکہیں ان کے خلاف سازش تو نہیں ہو رہی۔ سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ بھی اپنے دن کی ابتدا ان اخبارات سے کرتے ہیں جن میں ہر روز یہ الفاظ شائع ہوتے ہیں کہ ’’جوہی کو پانی دو‘‘ مگر وہ ان الفاظ کو انصاف کے لیے عام لوگوں کی پکار سمجھنے کے بجائے اپنے خلاف سازش سمجھتے ہیں۔ ان کو بہت غصہ آتا ہے کہ ان کے حلقے کے لوگوں کو یہ ہمت کیسے ہوئی کہ وہ ان کے علاقے سے باہر نکل کر حق اور انصاف کے لیے نعرے لگائیں۔ اس وجہ سے مراد علی شاہ جوہی کے احتجاجی عوام سے ناراض ہیں۔ جوہی والوں کو بھی ان کے ناراض ہونے کی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ان کی زمینوں کو وہ پانی حاصل ہو جو ان کے حق ہے۔ مگر سندھ میں حق کی بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سندھ میں اگر حق کی بات سنی جاتی تو سندھ میں اتنی سیاسی اور معاشرتی مایوسی نہ ہوتی۔ سندھ بہت دکھی ہے۔ سندھ کے سینے میں بہت ساری شکایتیں ہیں۔ سندھ کے لوگ اپنے دکھ اور درد پوری دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ مگر سندھ کے لوگوں کی کوئی آواز نہیں سنتا۔ اس وقت جوہی سندھ کی زبان بنا ہوا ہے۔ اس وقت جوہی سندھ کا ترجمان بنا ہوا ہے۔ جوہی اپنا حق مانگ رہا ہے مگر وہ پورے سندھ کی نمائندگی کر رہا ہے۔ سندھ کے حکمرانوں کو یہ خوف بھی ہے کہ اگر انہوں نے جوہی کے عوام کا مطالبہ پورا کیا تو پورے سندھ میں حقوق کے لیے جدوجہد جاگ اٹھے گی ۔ اس لیے وہ جوہی کے احتجاجی آبادکاروں کی صدائیں نہیں سن رہے مگر جوہی کے احتجاجی آبادکاروں میں عجیب جنون ہے۔ وہ مایوس ہونے کے بجائے ہر دن اپنی جدوجہد سے نئی توانائی حاصل کرتے ہیں اور پوری شدت سے یہ نعرہ بلند کرتے ہیں’’جوہی کو پانی دو‘‘