چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے رشتے کے تنازع پر 2 افراد کے قتل کے ملزمان کی بریت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ جھوٹی گواہی پر مقدمات خارج کرنے کا وقت جلد آنے والا ہے۔ پاکستان میں قانونی پیچیدگیوں کے باعث ملکی عدالتوں میں کم و بیش 19 لاکھ مقدمات زیرالتوا ہیں۔ ماہرین قانون جھوٹی گواہیوں اور عدالتی طریقہ کار میں موجود کمزوریوں کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں مقدمات میں قریبی رشتہ داروں کو گواہ نامزد کرکے خلاف حقیقت شہادتیں دلوانا معمول ہے۔ جھوٹی گواہی دینے پر کسی قسم کی سزا کا قانون نہ ہونے کے باعث لوگ دیدہ دلیری سے جھوٹی گواہیوں کے ذریعے عدالت کو گمراہ کرتے ہیں۔ قانون کے ساتھ اس سے بڑھ کر مذاق بھلا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ملک میں نچلی عدالتوں کے باہر پیشہ ور ضمانت دینے والے مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور معمول رقم لے کر مجرموں کے جعلی کاغذات پر ضمانت دے دیتے ہیں۔ بسااوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عدالت کو بھی علم ہوتا ہے کہ گواہ غلط بیانی سے کام لے رہا ہے مگر جج صاحبان قانون کے تقاضوں کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ بہتر ہوگاحکومت جعلی مقدمات درج کروانے اور جھوٹی گواہی دینے والوں کے لیے سخت سزا کاقانون متعارف کراوئے تاکہ کسی کو جھوٹی گواہی کے ذریعے بے گناہوں کو سزا دلوانے کی جرأت نہ ہو اور عدالتوں پر جھوٹے مقدمات کا بوجھ بھی کم کیا جا سکے۔