ہمارے ملک کے عوام کے پاس اب صرف ایک اختیار باقی رہ گیا ہے کہ وہ اپنی نفرت کا اظہار صرف اپنے ووٹ کی پرچی سے کر رہے ہیں۔ 26 فروری کو جام پور کی نشست این اے 193پر ضمنی الیکشن ہوئے جس میں تحریک انصاف کے محسن لغاری نے مسلم لیگ (ن) کے عمار خان لغاری کو 35000 ہزار کی لیڈ سے شکست دی۔ یہ شکست اصل میں عمران خان کی وجہ سے ہوئی پہلے اِس نشست پر عمران خان خود اُمیدوار تھے لیکن اُنہوں نے یہ نشست چھوڑ دی جس کے بعد محسن لغاری کو اُمیدوار بنایا گیا۔ محسن لغاری کا اُمیدوار بننے سے مسلم لیگ (ن) والوں نے اس نشست پر اپنی فتح یقینی سمجھ لی تھی لیکن یہ اُن کی خام خیالی ثابت ہوئی ۔ دراصل اِس نشست پر کافی طویل عرصہ سے مرحوم سردار جعفر لغاری کامیاب ہوتے رہے تھے اُن کی وفات کے بعد چیف لغاری سرداروں میں سردار اویس خان لغاری نے اپنا حق سمجھتے ہوئے اپنے بیٹے عمار خان لغاری کو اِ س پر کھڑا کر دیا جبکہ سردار جعفر لغاری کی اہلیہ مینا جعفر لغاری نے تحریک انصاف کے اُمیدوار محسن لغاری کو سردار جعفر خان لغاری کا سیاسی جانشین قرار دے کر اُن کو اپنا اور تحریک انصاف کا اُمیدوار بنوا دیا ۔اِدھر راجن پور سے لغاری سرداروں کے پرانے سیاسی حریف سردار نصر اللہ دریشک نے بھی مینا جعفر لغاری کا ساتھ دیا اور اُن کے دونوں صاحبزادوں حسنین خان دریشک اور علی رضا دریشک نے بھی دن رات تحریک انصاف کے اُمیدوار کا ساتھ دیا دوران انتخابی مہم نصر اللہ دریشک کے بیٹے حسنین دریشک نے اویس لغاری کے خلاف بڑی سخت اور نا گوار باتیں بھی کیں جو اُن کو ہرگز زیب نہیں دیتیں۔ افسوس کہ ہمارا اب یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ ہم اپنے سیاسی جلسوں میں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف الزام تراشیاں اور گالیاں دینا فرض سمجھتے ہیں اِسی طرح سیف الدین کھوسہ نے بھی اِس حلقہ میں آکر لغاری سرداروں کے خلاف بڑی سخت زبان استعمال کی ۔اِن سرداروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ آپ لوگ ہمیشہ پارٹیاں بد ل بدل کر اپنے ذاتی مفادات کی خاطر یہاں کے سادہ اور اَن پڑھ عوام کو پاگل بناتے ہو اور پھر اپنے اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف اسٹیج پر باتیں کر کے یہاں کے عوام کو مزید بے وقوف بناتے ہو ۔چونکہ عوام اِس وقت موجودہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی عوام کش پالیسوں کی وجہ سے نا لاں ہیں اس لیے وہ دوبارہ عمران خان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور عمران خان کو ہی اپنا مسیحا سمجھ رہے ہیں ۔ لیکن عمران خان بھی اگر دوبارہ ا قتدار میں آگئے تو اُنہوں نے بھی مہنگائی کو کم نہیں کرنا بلکہ عمران خان نے بھی مہنگائی کا سارا ملبہ موجودہ حکومت کے سر پر ڈالنا ہے جیسے اب یہ لوگ مہنگائی پیدا کرنے کا سارا ملبہ عمران خان پر ڈال رہے ہیں ۔لیکن اصل ناسور کرپشن ہے جس کو کوئی بھی ختم نہیں کر رہا عمران خان کے دور میں اُس کے وزیروں مشیروں نے جو کرپشن کا بازار گرم کئے رکھا کیا عمران خان اُن کہانیوں سے بے خبر تھے اگر یقین نہیں آتا تو ڈیرہ غازی خان سے ہی اپنی سابق وزیر کے ایک فرنٹ مین سے ہی اس کی تحقیقات کرا کے دیکھ لیں کہ دوسروں کو کرپٹ کہنے والوں کے فرنٹ مین جن کے پاس موٹر سائیکل نہیں ہوا کرتی تھی آج وہ کروڑوں کا مالک بن چکے ہیں جس نے اُسی سابق وفاقی وزیر کے نام کو خوب استعمال کر کے کرپشن کی یہاں تک کہ جب وفاقی ’’وزیر‘‘اسلام آباد اجلاسوں میں شرکت کے لیے جاتے تو اُن کی گاڑی کا تیل بھی کسی محکمے کا ایکسئین مہیا کیا کرتا تھا یہ تو صرف ایک وزیر کی داستان ہے نہ جانے کن کن وزیروں نے کتنی کرپشن کی ہو گی ہمارے ملک کی اصل معاشی تباہی صرف اور صرف اِسی کرپشن کی وجہ سے ہو رہی ہے اور اِس کرپشن میں ہمارے تمام بڑے ادارے ملوث ہیں آج ہمارے ملک میں عوام روز بروز ذلیل ہو رہے ہیں اور اگر موجود حکومت آتے ہی کرپشن کو ختم کرنے کے اقدامات کرتی تو مہنگائی اتنی زیادہ نہ ہوتی آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی شکست کو کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ اُن کے غلط اقدامات اور عوام کش فیصلوں نے اُن کو سیاسی طورپر اب بہت کمزور کر دیا ہے اس لیے تو اب مسلم لیگ (ن) کے ا تحادی بھی آنے والے جنرل الیکشن سے قبل اِن سے الگ ہو رہے ہیں جیسے جمعیت اہل حدیث نے اب صرف اپنے ہی سیاسی پلٹ فارم سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر بھی پنجاب میں جو بھی الیکشن لڑے گا شکست کھا جائے گا اور رہ سہی کسر مخدوم احمد محمود کے اِس بیان سے پوری ہو گئی ہے کہ حکومت نے اگر ملک کو بچانا ہے تو 300 سو سے زائد بجلی کے یونٹ استعمال کرنے والوں کے لیے ایک سو روپے فی یونٹ کر دیا جائے اسی طرح سے گیس اور تیل کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ کیا جائے یہ باتیں مخدوم صاحب کو اس لیے زیب دیتی ہیں کہ اُن کے آباو اجداد اُن کے لیے اربوں روپے کی جائیدادیں چھوڑ کر گئے ہیں اُن کو کیا پرواہ لیکن ملک میں اکثریت غریبوں کی ہے اس لیے مخدوم صاحب ہم غریبوں کا مذاق یوں نہ اُڑائیں کیونکہ اِنہی غریبوں کے ووٹوں نے تمہیں یہ مقام دیا ہے باقی آپ بہت بڑے لوگ ہیں آپ بجلی نہ جانے کیسے استعمال کرتے ہیں آپ کے فارم ہاؤسز پر کون چیک کرنے آتا ہے کیونکہ اِس ملک میں قانون صرف غریبوں کے لیے ہے ۔