چند ہفتے پہلے طالبان نے قندھار میں ایک شخص کو قتل کیا ۔ یہ آدمی کابل حکومت کا ملازم تھا جس نے کئی لوگوں کو بیدردی سے قتل کیا تھا۔ وہ کئی گھناؤنے جنسی جرائم میں ملوث تھا۔ اسکے بارے میں نام نہاد لبرل‘ سیکولر گروہ نے جھوٹی مہم شروع کی ہے کہ طالبان نے ایک کامیڈین کو قتل کردیا ہے۔ مقصد دنیا کو یہ باور کرانا تھا کہ طالبان فنون ِلطیفہ کے خلاف ہیں۔ حالانکہ وہ شخص کامیڈین نہیں تھا۔ اسی طرح گزشتہ جون میں بلوچستان میںجرائم پیشہ افراد نے عوامی نیشنل پارٹی کے ایک دولتمند رہنما‘ بڑے زمیندار عبیداللہ کاسی کو تاوان کیلیے اغوا کیا۔انہوں نے اغوا سے پہلے کروڑوں روپے مالیت کی زمین فروخت کی تھی۔ جب پولیس نے ایک شخص کو کاسی کی ریکی کرنے کے الزام گرفتار کیا تو اغوا کرنے والوں نے اُنہیں تشدد کرکے قتل کردیا۔ یہ قتل جرائم پیشہ افراد کی کارستانی ہے لیکن عوامی نیشنل پارٹی اِسے سیاسی رنگ دے رہی ہے ۔ پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے بیان دیا کہ اے این پی مظلوم قومیتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتی رہے گی ۔ گویا یہ قتل جرائم پیشہ افراد کی کاروائی نہیں بلکہ پختون قوم کے خلاف سیاسی بنیادوں پر کیا گیا ہے۔ یہی کام حال میں پختونخواہ ملّی عوامی پارٹی نے کیا تھا۔اسکے ایک رہنما عثمان کاکڑ غسل خانے میںگر کر سر پر چوٹ لگنے سے زخمی ہوئے اور وفات پاگئے۔ جب تک وہ ہسپتال میں زیر علاج تھے کہا جاتا رہا کہ انہیں گرنے سے چوٹ لگی تھی۔ لیکن بعد میں انکی موت کو پراسرار بنا کر پیش کیا گیا ۔جھوٹابیانیہ پھیلانا شروع کردیا کہ اُنہیں قتل کیا گیا ہے۔انڈیا اور کابل کی امداد سے نام نہاد پختون قوم پرست سیاستدان پاکستانی ریاست کے خلاف گھناؤنی پروپیگنڈہ مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ یہ اسکی چند مثالیں ہیں۔ایک اور مثال پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)ہے،جو کابل کے حکمرانوں نے پاکستان میں پختون عصبیت اُبھار کر یہاں عدم استحکام پھیلانے کیلیے بنائی ہے۔ کسی گروہ کا نسلی‘ لسانی تشخص ہونا دنیا میں معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے بڑی حقیقت ہے جس سے آنکھیں چرانا اِس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ یورپ اور امریکہ نے معاشی اور سماجی میدانوں میں بہت ترقی کرلی لیکن اب بھی وہاں نسلی عصبیت کارفرما رہتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ میں اپنے جداگانہ شناخت کی بنیاد پر برطانیہ سے علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔ عرب ممالک قبائلی بنیادوں پرایک درجن سے زیادہ الگ الگ ممالک میں تقسیم ہیں۔ عربوں اور ایرانیوں میں اِسی عصبیت کی بنیاد پر صدیوں سے مخاصمت چلی آرہی ہے۔ تاریخ میں بیشتر مواقع پر نسلی ‘ لسانی تشخص مذہبی یکجہتی سے زیادہ طاقتور ثابت ہوا ہے۔ خود ہمیں اس لسانی تعصب کا تلخ تجربہ ہے۔ مشرقی پاکستان میں لسانی بنیاد پر علیحدگی کی پُرتشدد تحریک چلی اور بنگلہ دیش بن گیا۔اکثر و بیشتر نسلی‘ لسانی بنیادوں پر سیاست کرنے والے مبالغہ آمیزی‘ جھوٹے بیانیہ اور بیرونی امداد کا سہارا لیتے ہیں۔ یہی طریقہ مشرقی پاکستان میں اختیار کیا گیا تھا ۔ یہی کام اب پاکستان میں کیا جارہا ہے۔ سیاستدانوں کے ایک طبقہ نے اپنے وقتی مفادات کیلیے نسلی‘ لسانی دراڑ کو وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ دشمن بیرونی طاقتوں نے ان سیاستدانوں کی مدد کی اور ہمارا ملک نت نئے مسائل سے دوچار ہوتا رہا۔ اس چیز کا بھرپور فائدہ ہمیشہ ہمارے ازلی‘ ابدی دشمن انڈیا نے اٹھایا ہے۔ اس نے پاکستا ن میں شناخت کے بحران کو مہمیز دینے کیلیے ہر قسم کی سازش کا سہارا لیا۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد سے ہی مشرقی پاکستان میں بھارتی ایجنٹ سرگرم ہوگئے تھے۔ انہوں نے بنگالی قوم پرستی کا پرچم بلند کردیا تھا۔ لبرل‘ سیکولر اورنام نہاد کمیونسٹ دانشور جو اسلامی تشخص سے نفرت کرتے ہیں اس کام میں پیش پیش تھے۔ وہ دلّی سرکار کے آلہ ٔکار بن گئے۔ انیس سو پچاس کی دہائی میں انہوں نے اردو کی مخالفت میں بنگالی زبان کو قومی‘سرکاری زبان بنوانے کیلیے بنگالی عوام کے جذبات بھڑکائے۔ اس کے ساتھ ساتھ’ دو معیشتوں ‘کے نام سے مہم چلانی شروع کردی۔ بنگالی اسکالر رونق جہاں نے اپنی مشہور کتاب’قومی یکجہتی کی ناکامی‘ میں اسکی تفصیل درج کی ہے کہ مشرقی پاکستان کے ماہرین معیشت کے ایک گروپ نے یہ مقالہ لکھا کہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کو دو الگ الگ معیشتوں کے طور پر چلایا جائے۔ یہی سوچ بیس سال بعد مجیب الرحمن کے چھے نکات کی بنیاد بنی۔ بھارت نے جو کام مسلم بنگال میں کیا وہی اس نے پہلے دن سے خیبر پختونخواہ میں شروع کردیا تھا۔ دلّی کے حکمرانوں نے کابل کی اشرافیہ کی مالی سرپرستی شروع کی اورپاکستان کے مخالف پختون سیاستدانوں بشمول باچا خان ‘ ولی خان‘ عبدالصمداچکزئی کے ساتھ ساتھ بلوچ علیحدگی پسندوں خصوصاًمری قبیلہ کو مالی امداد مہیا کرنا شروع کی۔ کابل کے حکمران انہیں افغانستان میں پناہ دیتے رہے اور پاکستان کے خلاف گوریلا جنگ لڑنے کے لیے وسائل اور تربیت مہیا کرتے رہے۔ اسکی تمام تفصیل مشہور پختون سیاستدان اجمل خٹک کے معاون رہنے والے جمعہ خان صوفی نے اپنی کتاب ’فریب ِناتمام‘ میں درج کی ہے۔یہ کتاب صوفی کی ڈائریوں پر مشتمل ہے جو وہ کابل میں قیام کے دوران میں لکھا کرتے تھے۔ اس کتاب میں کمیونسٹ دانشوروں جیسے نازش امام وغیرہ کی کابل میں سرگرمیوںکا احوال بھی موجود ہے۔ پختون رہنما افراسیاب خٹک کا چٹا کھٹا بھی اس میں شامل ہے۔ یہی افراسیاب خٹک ایک بار پھرآجکل افغانستان میں بیٹھ کراشرف غنی کی حکومت کے حق میں اور پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف پراپیگنڈہ مہم چلارہے ہیں۔ انکا کردار بدل نہیں سکا۔ وہ کل بھی پاکستان کے مخالف اور کابل کے وفادار تھے اور آج بھی اسی راہ پر گامزن ہیں۔ پاکستانی ریاست کے خلاف بھارت اور کابل کا پرانا گٹھ جوڑ ہے۔ یہ اپنے زَر خرید ایجنٹوں کی مدد سے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ اور سازشوں کا بازار گرم رکھتے ہیں۔ نسلی‘ لسانی تعصب اُبھار کر پاکستان کو کمزور کرنا‘ افراتفری برپا رکھنا اور معاشی ترقی کے ناموافق حالات بنائے رکھنا انکا اصل مقصد ہے۔ ریاست اور پاکستانی عوام کو چوکس رہنا او ر دانشمندی کے ساتھ اِس چیلنج سے نبرد آزما ہونا ہوگا۔