تبدیلی اور بہتری جو دور افق پر ایک جھمکتی روشنی کی صورت میں ہے۔اس روشنی کی طرف ہاتھ بڑھائے میں بھی چل رہا ہوں ،آپ بھی اور اس کی طرف عمران خان کے ہاتھ سب سے زیادہ بلند ہیں۔ شاعرہ نے کہا تھا ملنا دوبارہ ملنے کا وعدہ جدائیاں اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ گئے اچانک تو خیر نہیں لیکن بہرحال حکومت سازی کے اتنے بہت سے کام بھی بتدریج نمٹ گئے۔قومی اسمبلی کی سپیکر کی کرسی پر اسد قیصر بیٹھے نظر آنے لگے۔ مزاری صاحب ڈپٹی سپیکر بھی منتخب ہوگئے۔چاروں اسمبلیوں نے بھی اپنے اپنے سپیکر چن لیے اورسوائے پنجاب کے وزرائے اعلٰی منتخب ہوگئے۔ پنجاب کے وزیر اعلٰی کا نام پردۂ غیب میں تھا سو وہ بھی ظاہر ہوچکا۔عمران خان بائیسویں وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھا چکے۔اور ریاست کی گاڑی کو اپنی مرضی کے رخ پر چلانے کے لیے اپنے وزراء کی ٹیم کا اعلان ہوا چاہتا ہے ۔متحدہ اپوزیشن ابھی بنی بھی نہیں تھی کہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی گویا بننے سے پیشتر ہی منظر بگڑ رہے ہیں عمران خان حسب توقع 176 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے۔یہ عدد وہی ہے جس کی پیش گوئی مبصرین کر رہے تھے۔وزیر اعظم کے انتخاب کے دن کی بات کریں تو دونوں جماعتوں کی ہنگامہ آرائی نے کوئی اچھا تاثر اور اچھا ذائقہ نہیں چھوڑا۔عمران خان اور شہباز شریف کی تقریریں بھی اسی ہنگامے کی نذر ہوگئیں۔اگر یہ وہی تقریریں تھیں جو یہ صاحبان طے کرکے آئے تھے تو ان میں کوئی جان نہیں تھی۔عمران خان کی تقریر ایک مدبر وزیر اعظم کی نہیں مخالفوں پہ برہم سیاسی رہنما کی تقریر تھی۔ویسے بھی اب انہیں ’ ’ میںـ ‘ ‘کے لفظ سے نکل کر ’ ’ ہم ‘ ‘ کی طرف آجانا چاہیے ۔ تحریک انصاف کو سمجھنا چاہیے کہ اب وہ حزب مخالف نہیں ،حزب اقتدار ہے۔میاں شہباز شریف کی تقریر کا بھی یہی حال تھا۔بلاول بھٹو نے اپنی پہلی ہی تقریر میں بہت اچھا تاثر قائم کیا.۔ان کو یہ فائدہ بھی حاصل تھا کہ ان کی تقریر کے دوران شور شرابا نہیں ہوا۔ بحیثیت مجموعی اس دن میں وزیر اعظم کے انتخاب کے علاوہ کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب عمران کے مداح انہیں کنٹینر اور سٹیج کے ایک پرجوش مقرر کی حیثیت میں نہیں ایک قائدانہ صلاحیتوں کے حامل پورے ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے اپنے مخالفوں کو زیر کرلیا ہے۔اب اگر وہ ان کے خلاف مزید باتیں کرکے اپنا اور لوگوں کا وقت ضائع کریں گے تو اپنا ہی تاثر خراب کریں گے۔باتوں کاـوقت گزر چکا‘اب عمل کا وقت ہے۔پچیس جولائی کے بعد عمران خان نے میڈیا اور سکرین سے فاصلہ بڑھا کر اپنا تاثر بہتر کیا۔ان کے بارے میں کہا گیا کہ وہ میچ جیت کر ایک بدلے ہوئے سیاست دان کا رخ اختیار کرچکے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کہ یہ رخ کتنی دیر تک چلتا ہے۔میرے خیال میں قوم سے عمران کے پہلے خطاب کا انتظار کرنا چاہیے کہ یہی ان کی اصل تقریر اور یہی ان کے تدبر کا اصل امتحان ہوگا۔ پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ سردار عثمان بزدار کو منتخب کرنا ایک حیران کن فیصلہ ہے۔اس کے دو طرفہ بلکہ دو دھاری اثرات ہوسکتے ہیں۔لیکن اس پر بات کرنے سے پہلے اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ اس طرح کا فیصلہ سیاست دانوں میں صرف عمران خان ہی کرسکتے ہیں۔اگر یہ فیصلہ درست ہوا تو کوئی شک نہیں کہ یہ نہایت جرات مندانہ قدم ہے۔لیکن اگر اس کے مضمرات برے نکلے تو یہ کپتان کی سادہ لوحی، مردم ناشناسی اور جذباتی فیصلوں میں ایک اور بڑا اضافہ شمار ہوگا۔عمران خان نے ویڈیو پیغام میں اس فیصلے کی بنیادی وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ غریب ترین اور پس ماندہ ترین علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔اور انہیں پتہ ہے کہ غریب آدمی کیسے رہتے ہیں۔اس علاقے کی پس ماندگی کا اندازہ اس سے کریں کہ خود سردار عثمان کے گھر بجلی نہیں ہے۔ لیکن میرے خیال میں اس فیصلے کے درست یا غلط ہونے سے قطع نظر سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلٰی کے انتخاب کی یہ تنہا بنیاد کوئی قابل ستائش نہیں ہے۔یہ عوام کی نظروں میں سیاسی مقبولیت کی بنیاد تو ہوسکتی ہے لیکن انتظامی لحاظ سے یہ کوئی جواز نہیں‘اگر ان سب خصوصیات کے ساتھ سردار عثمان کی تعلیمی ،انتظامی قابلیت بھی بنیاد ہوتی جس کا فی الحال کوئی ذکر نہیں کیا گیا تو نکتہ چینی کی گنجائش کم ہوتی۔ سردار عثمان بزدار نوجوان ہیں اور تحصیل ناظم کے علاوہ کسی انتظامی عہدے پر کبھی نہیں رہے۔ کبھی صوبائی وزیر بھی نہیں رہے۔بیورو کریسی سے کام لینے بلکہ نمٹنے کی کتنی صلاحیت ہے ،کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ایم اے پولیٹیکل سائنس ہونا بھی کوئی خاص تعلیمی قابلیت نہیں ہے۔شہباز شریک جیسے فعال، منتظم وزیر اعلٰی کے بعد ،جس کے کیے ہوئے کام ہر ایک کو نظر آتے ہیں،ایسے سابق وزیر اعلٰی سے میچ پڑجانا اس نوجوان کو کھا تو نہیں جائے گا۔ جو بنیاد اس نوجوان کے انتخاب کی بتائی گئی ہے اس پر یہ سوال بھی پیدا ہوتے ہیں کہ اگر ان کے والد تین بار ممبر اسمبلی رہے ،خود عثمان بزدار تحصیل ناظم رہے تو اب تک انہوں نے اس پسماندگی کو دور کرنے میں کیا کردار ادا کیا؟اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے کیا فلاحی اور انتظامی اقدامات کیے ۔؟کہیں ایسا تو نہیں کہ دیگر سرداروں کی طرح قبائلی ووٹ ان کی جیب میں رہا ہو اور یہی ان کے جیتنے کی بنیاد ہو۔ ابھی ان سوالات کے جواب آنے باقی ہیں۔ لیکن اگر یہ نوجوان کارکردگی دکھا گیا جس کی رہنمائی کے لیے چودھری سرور ،جہانگیر ترین اور کسی حد تک چودھری پرویز الٰہی موجود ہوں گے تو یہ عمران خان کا اسی طرح کا ایک فیصلہ ہوگا جیسا اس نے بہت سے نوجوان اور پرجوش باصلاحیت کھلاڑیوں مثلاً وسیم اکرم اور انضمام الحق کو براہ راست قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کرکے ہیرو بننے کا موقع فراہم کیا تھا اور انہوں نے اس مشکل فیصلے کو درست بھی ثابت کردیا تھا۔اگرچہ حکومت کرکٹ ٹیم نہیں اور انتظامی معاملات کو کھیل پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ،لیکن یہ بہرحال ہر شعبۂ زندگی میں طے ہے کہ نظرانداز شدہ باصلاحیت لوگوں کو آگے لانے ہی سے تبدیلی آیا کرتی ہے۔اور ملک کو میرٹ سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ۔ ایک گم نام نوجوان کو وزیر اعلٰی بنانے میں یہ مصلحت بھی ہوسکتی ہے کہ وہ مرکزی قیادت اور عمران خان کی طے شدہ حکمت عملی اور پالیسی سے زیادہ ادھر ادھر نہیں ہوگا ۔خود اس کی شخصیت مرکز توجہ نہیں ہوگی اور وہ ہر معاملے میں رہنمائی کا محتاج ہوگا۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ جہانگیر ترین یا کسی بڑے رہنما کے وزیر اعلٰی بننے سے پیشتر عارضی انتظام ہے ۔ عارضی ہو یا مستقل ، نظر یہی آتا ہے کہ عمران مرکزی اور صوبائی سطحوں پر ٹیم میں تبدیلیاں کرتے رہیں گے اور وہ شخص زیادہ دیر تک ٹک نہیں پائے گا جو کام کرکے نہ دکھا سکے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے مداح اور حامی پرجوش ہیں۔وہ بڑی تبدیلیوں کی خوش خبریاں سنا رہے ہیں۔عوام کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں۔ایک امید کی لہر سمندر میںدائیں سے بائیں اور اوپر سے نیچے تک چل رہی ہے۔یہ لہر کب تک قائم رہتی ہے ۔اس کا قد بلند ہوتا جاتا ہے یا یہ غلط فیصلوں کی نذر ہوکر عام موجوں میں گم ہوجاتی ہے۔وقت ہی فیصلہ کرے گا۔لیکن عمران کے فیصلے صحیح ہوں یا غلط۔یہ فیصلہ تو سب کے دل کا ہے کہ عمران اور اس کی جماعت تبدیلی اور بہتری کے شدید خواہش مند ہیں۔تبدیلی اور بہتری جو دور افق پر ایک جھمکتی روشنی کی صورت میں ہے۔اس روشنی کی طرف ہاتھ بڑھائے میں بھی چل رہا ہوں ،آپ بھی اور اس کی طرف عمران خان کے ہاتھ سب سے زیادہ بلند ہیں جھمک رہی ہے کسی قریہ جمال کی لو تھکن بہت ہے مگر ہمرہاں چلا جائے