دورِ جاہلیت کے لٹریچر میں سبعہ معلقات کے ساتھ ،اس عہد کے معروف خطباء جن کے عربی ادب میں خطبات معروف ہیں ، میں اہم ترین شخصیت قُس بن ساعدہ الایادی کی ہے ، جو عرب کا سب سے بڑا خطیب مانا جاتا ہے ،نبی اکرم ﷺ نے عکاظ کے میدان میں خاکستری رنگ کے اونٹ پر ، اس کو خطبہ دیتے دیکھا اور پھر اُس کا نقشہ اور الفاظ آپﷺ نے اپنے ذہن میں ہمیشہ محفوظ پائے ، جس میں بطور خاص "زندگی کی بے ثباتی اورموت کی المناکی"قابل ِ ذکر ہے ۔ قُس بن ساعدہ کے یہ خیالات جو بلوغ الارب میں مرقوم ہیں ،ملاحظہ ہوں: "گذشتہ صدیوں میں جو لوگ ہم سے پہلے چلے گئے ، ا ن کے حالات میں ہمارے لیے عبرتیں ہیں ، میں نے موت کے ورود کی جگہیں تو دیکھیں ہیں ،موت سے واپسی کے راستے مجھے نظر نہیں آئے ، میں نے اپنی قوم کو دیکھا ہے کہ ان کے بڑے اور چھوٹے سب اس کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں ،جو گذر گئے ہیں ،وہ واپس نہیں لوٹتے ،جو باقی رہ گئے ہیں وہ بھی ہمیشہ یہاں نہیں رہیں گے ،ان حالات کو دیکھ کر میں نے یقین کر لیا کہ جدھر میری قوم چلی گئی ہے مجھے بھی لا محالہ ادھر ہی جانا ہے ۔" مذکورہ الفاظ ، استاذ العلماء ،حضرت مولانا غلام محمد سیالویؒ کے سانحہ ارتحال پر، ذہن میں تازہ ہوئے ، ایوانِ اوقاف کے جس دفتر میں بیٹھ کر یہ الفاظ تحریر کررہا ہوں ،وہاں ، حضرت مولانا ؒ نے متعدد مرتبہ قدم رنجہ فرمایا ، ان کی معیت اور رفاقت میں ہم نے سرکاری ،نیم سرکاری اور غیر سرکاری ،کئی ذمہ داریوں کو مشترکہ طور پر نبھایا ،نگاہِ عمیق کے حامل تھے ، چیزوں کو سرسری اور سطحی انداز میں دیکھنا ،ان کا وطیرہ اور مزاج نہ تھا ، تعلقِ خاطر کے کئی اسباب تھے، ان میں ایک اہم حوالہ علماء اوقاف کا بھی تھا ،جن میںمولانا قاری محمد عارف سیالوی اورمفتی محمد رمضان سیالوی ---اہم ترین تھے ، کہ یہ سارے ایک ہی درگاہ یعنی سیال شریف کے فیض یافتہ اور ماننے والے تھے،اگرچہ ، سیال شریف چشتی نظامی سلسلے کی بہت بڑی خانقاہ ہے ،اور مولانا غلام محمد سیالوی ؒ ،حضرت شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی ؒ سے بیعت تھے ،تاہم ’’مسلک رضا‘‘ کی پاسبانی کا فریضہ، وہ پوری تندہی سے سرانجام دیتے رہے ۔خوش اعتقادی کی بجائے ’’راسخ العقیدگی‘‘ کا غلبہ رہا، الفاظ کو ’’عروض‘‘ کی کسوٹی پر پرکھتے اور ان کی ’’چھاننی ‘‘ سے اگر چیز ’’چھن‘‘ کر گزر جائے تو بڑی بات۔اداروں اور پھر دینی اداروں کو سنبھالنا ،نبھانا اور چلانا آسان کام نہ ہے ،اپنے دینی ادارے کی فکر مندی انہیں گذشتہ ہفتہ کراچی لے گئی ،کورونا کا شکار ہوئے، عارضہ قلب کو تووہ کبھی خاطر میں نہ لائے ،کہ دل کے تین سوراخ (volve) مستقل بند اور چوتھا بھی متاثر۔ لیکن یہ مرض جان لیوا ثابت ہوا ،اوراللہ کو پیارے ہو گئے ،کراچی میں نمازِ جنازہ کے بعد ، اسی ادارے میں تدفین کا اہتمام ہوا ۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ حضرت مفتی اعظم مفتی منیب الرحمن کے معتمدین میں سے تھے، انہی کی اقتدا میں نماز جنازہ کی ادائیگی ہوئی۔ گزشتہ برس، شاید انہی ایام میں، حضرت مولانا سیالویؒ تنظیم المدارس کے تنظیمی دورے سے لاہور واپسی پر، حادثے کا شکار ہوئے تو حضرت مفتی صاحب کی سرکردگی میں ، لاہور میں انکی رہائشگاہ واقع جوہر ٹائون، ان کی عیادت کیلئے گئے۔ بلا شبہ حضرت مولانا ابو الظفر غلام محمد سیالوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا شمار ،وطنِ عزیز کے ان اکابر علماء میں ہوتا ہے ،جنہوں نے ساری زندگی دینِ متین کی خدمت میں صَرف کی ، بالخصوص مختلف حکومتی فورمز پر ،دینی طبقات کی بھر پور نمائندگی کا انہوں نے اعزاز پایا اور بالخصوص زندگی کی آخری سانس تک ،چیئرمین پنجاب قرآن بورڈ ،کے طور پر،از مورخہ 22نومبر2011، مسلسل نو سال تک خدمات کی انجام دہی کا ریکارڈ قائم کیا ، آپ سے آخری ملاقات ،گورنر ہائوس ،لاہو رمیں جناب گورنر پنجاب کی سرکردگی میں مورخہ 18اپریل 2020ء کو علماء کے اس تاریخ ساز اجلاس میں ہوئی ،جس کی صدارت صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ،ایوانِ صدر میں فرما رہے تھے ،اور پنجاب سمیت پاکستان کے سارے گوشوں سے علماء ، مذہبی شخصیات اور دینی طبقات ،رمضان المبارک کے سلسلے میں متفقہ لائحہ عمل کے سلسلے میں سرجوڑ کے بیٹھے تھے ۔ پنجاب ،لاہور سے ویڈیو لنک کے ذریعے اظہار خیال کے لیے نمائندگی پانے میں آپ بھی شامل تھے ، دھیمے لہجے میں سخت ترین مؤقف پیش کرنے کا، آپ کو ملکہ تھا ،گفتگو طویل ہوئی ، تو مجھے ان کی نشست تک جا کر ،اختصار کی درخواست کرنا پڑی ،زیرِ لب ،ان کی مسکراہٹ ---ان کی شخصیت کا خاصہ تھی ، واقعتا آزاد مرد تھے ،اور ساری زندگی آزادروی میں بسر کی۔ اپنی وابستگی اور"کمٹمنٹ"کو نبھانے والے آدمی تھے ، آپ 2فروری1947میں واں بھچراں ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے ،مقامی مدرسہ میں حفظ کے ساتھ واں بھچراں سکول سے میٹرک کیا ، وہی پر ابتدائی تعلیم مولانا محمدابراہیم سے حاصل کی ۔ میانوالی سے مولانا غلام محمد سے زانوئے تلمذ کے بعد، وادی سون کی معروف درسگاہ بندیال شریف میں سلطان المناطقین علامہ عطا محمد بندیالوی سے اکتساب علم کیا۔ درسیات کی تکمیل کے بعد ، جامعہ رضویہ فیصل آباد میںشیخ الحدیث مولانا غلام رسول رضوی رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث شریف کا فیض پایا ۔ کچھ عرصہ اپنے علاقے میںخدمات سرانجام دینے کے بعد ، شمس العلوم ،جامعہ رضویہ ،نارتھ ناظم آباد ،کراچی میں مسندِ تدریس پر فائز ہوئے ،جہاں ازاں بعد ناظم اعلیٰ اور مہتمم کی ذمہ داریاں کم وبیش گذشتہ 40سا ل سے نبھاتے ہوئے جمعۃ المبارک کی صبح داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔ تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان کی ابتدائی ٹیم کا حصہ اور اکابر علماء کی محبتوں سے فیض یافتہ تھے ، تیس سال سے زائد تنظیم المدارس اہل سنت کے ناظمِ امتحانات ،اور اتنے ہی عرصے سے تنظیم المدارس کے امتحانی بورڈ کے چیئرمین کے طور پر خدمات کے حامل رہے ۔سیاسی طو رپر بھی پُر عزم اور باہمت شخصیت تھے ، جمعیت علماء پاکستان کی مرکزی لیڈر شپ میں شامل رہے ، نوے کی دہائی میں حضرت مولانا نیازی ؒسے اختلاف کے سبب حضرت صاحبزادہ فضل کریم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ملکر جے یو پی کا الگ دھڑا قائم کیا ، اگرچہ ازاں بعد ،ان کی صاحبزادہ صاحبؒ سے بھی راہیں جدا ہو گئیں اور پھر ان کی جدو جہد کا زیادہ تر دائرہ تنظیم المدارس اہل سنت اور مختلف سرکاری فورمز تک محدود رہا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر، وفاقی علماء ومشائخ کونسل کے ممبر کے ساتھ ،پنجاب میں اتحاد بین المسلمین کمیٹی کے بھی ممبر تھے ۔بھر پور زندگی کا دورانیہ اگرچہ کراچی میں گزارا ،تاہم 1997میں جب ان کو چیئرمین پاکستان بیت المال کی ذمہ داری تفویض ہوئی تو لاہور منتقل ہوئے اور پھربتدریج لاہور ہی کے ہوکے رہ گئے ، زندگی کے آخری سالوں میں ان پر انتظامی ذمی داریوں کا بوجھ زیادہ رہا، جس میں اہم ترین ، پنجاب قرآن بورڈ تھا ۔کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَان-----(الرحمن ) مہر علی شاہ اِیہ جھوک فنا دی دائم قائم ذات خدا دی