قدرت نے ہمارے وطن کو پانی کے وسائل سے مالا مال کیا ہوا ہے۔ دنیا میں کم ہی ملک ہونگے جہاں اتنا وافر میٹھا پانی دستیا ب ہو۔ ہمارے پاس دریا ‘ جھیلیں اورزیر زمین میٹھے پانی کے ذخائر ہیں۔لیکن ہم ان وسائل کا جس بے دردی سے غلط استعمال کررہے ہیں ‘ انہیں خراب بلکہ تباہ و برباد کررہے ہیں وہ ایک افسوس ناک‘ مجرمانہ عمل ہے۔ آئیے ایک نظر پنجاب کی جھیلوں پر ڈالتے ہیں جن کا ذکرہم شاذ ہی سنتے ہیں۔ بڑے شہروں میں رہنے والے بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوگاکہ پنجاب صوبہ کے چھ مختلف ضلعوں میںنو بڑی خوبصورت جھیلیں موجود ہیں۔کچھ قدرتی‘ کچھ مصنوعی۔یہ جھیلیں اس دھرتی کے قیمتی جواہرات ہیں‘ بیش بہا اثاثہ ہیں۔یہ نہ صرف ہماری حس جمالیات کو تسکین بخشتی ہیں بلکہ ماحولیاتی توازن بھی قائم رکھتی ہیں۔ شمالی پنجاب میںچکوال کے نزدیک کلر کہارکی قدرتی جھیل تو خاصا معروف مقام ہے‘ موٹروے بننے کے بعد اس تک رسائی اور بھی آسان ہوگئی۔ خوشاب میں تین اور قدرتی حسین و جمیل جھیلیں واقع ہیں ۔ یہ ہیںجھلر‘ اچھالی اور کھبیکی جھیلیں۔ میانوالی شہر سے بتیس کلومیٹر دُور نمل جھیل ہے جس کا نام اس لیے جانا پہچانا لگتا ہے کہ اس علاقہ میں وزیراعظم عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے ایک یونیورسٹی قائم کی تھی۔یہ جھیل 1913 میں نمل ڈیم بنائے جانے سے پیدا ہوئی ۔جھنگ میں تریموں ہیڈورکس کے پاس ملکانہ اورکوہر والا نامی دو جھیلیں ہیڈورکس بننے سے وجود میں آئیں۔یہاں لوگ عام طور سے شکار کھیلنے جاتے ہیں۔ جہلم دریا پرپن بجلی بنانے کے منصوبہ سے بننے والی منگلا جھیل اور راولپنڈی اور اسلام آباد کو پانی فراہم کرنے والی راول جھیل بھی وسیع و عریض مصنوعی جھیلیں ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ حکومت اور شہری مل کر ان بیش قیمت آبی ذخیروں کی حفاظت کریں ‘ انہیں ایسے حسین مقامات بنادیں جہاں لوگ سیاحت کیلئے جائیں ‘ ان انمول عطیات سے لطف اندوز ہوں لیکن ہم نے ان جھیلوں کو آلودگی کی نذر کردیا ہے۔ ان آبی ذخائر کے اُوپری علاقے جہاں سے بارش کا پانی بہہ کران میں جمع ہوتا ہے وہاں رہنے والے لوگوں کا استعمال شدہ گندہ‘ سیوج کاپانی ان جھیلوں میںجارہا ہے ۔ بات قدرے بوجھل ہوجائے گی لیکن بہتر تفہیم کی خاطر آلودگی کے مسئلہ کو سائنسی نقطہ نظر سے دیکھنا ضروری ہے۔ پانی کے صاف ہونے کا معیار جانچنے کے لیے اس میں مختلف کیمیائی مادوں کی موجودگی کی سطح دیکھی جاتی ہے۔ یعنی اس میں بایئوکیمیائی آکسیجن کی طلب‘ آکسیجن کی طلب‘مجموعی تحلیل شدہ ٹھوس مادے‘ مجموعی معلق ٹھوس مادے‘ کلورائیڈ‘ سلفیٹ اور سلفائیڈ کس کس مقدار میں موجود ہیں۔ ماہرین نے صاف پانی میں ان تمام مادوں کی ایک خاص مقدار کا معیار مقرر کیا ہوا ہے۔ اگر اس معیار سے کم یا زیادہ ہوں تو اس پانی کو آلودہ قرار دیاجاتا ہے۔ مثلاً پانی میں تحلیل شدہ آکسیجن کی مقدار سے پتہ چل جاتا ہے کہ آبی حیات اس میں زندہ رہ سکتی ہے یا نہیں۔ اگرپانی میں بائیو کیمیائی آکسیجن کی طلب زیادہ ہو تووہ آلودہ ہوتا ہے‘ کم ہو تو صاف ہوتا ہے۔ اگر پانی میں سلفائیڈ زیادہ ہو تو اس میں مچھلی بیمار ہوجاتی ہے یا مر جاتی ہے۔ یہی حال دوسری آبی حیات کا ہوتا ہے۔ اگر پانی میں ٹھوس مادے زیادہ ہوں تو اس کا ذائقہ اور رنگ خراب ہوجاتا ہے ۔ ایسا پانی انسانوں کے پینے کے قابل نہیں رہتا۔ نو برس پہلے پنجاب کے محکمہ ماحولیات نے صوبہ کی جھیلوں پر ایک سائنسی تحقیق کروائی تو پتہ چلا کہ نو میں سے آٹھ جھیلیں آلودگی اور گندگی کا شکار ہوچکیں۔ کلر کہار‘ اچھالی اور جھلر کی جھیلوں کا پانی سب سے زیادہ آلودہ پایا گیا۔ چکوال میں واقع پہاڑیوں کے دامن میں واقع ایک قدرتی چشمہ سے نکلنے ولا پانی کلر کہار جھیل کو بھرتا ہے اور پھر آگے شمال میں ندی بن کر چلا جاتا ہے۔ یہ جھیل زیادہ گہری نہیں ہے‘ اس کے ارد گرد خوب قدرتی سبزہ ہے۔یہ جھیل مختلف پرندوں کی افزائش کا گھر بھی ہے۔اس لیے پرندوں کو دیکھنے کے شوقین افراد کے لیے اس میں بڑی کشش ہے۔ جنگلی موربھی اس علاقہ میں پائے جاتے ہیں۔ سردی کے موسم میں برفانی علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے پرندے کلر کہار جھیل پر قیام کرتے ہیں۔ لیکن تحقیقی مطالعہ کے مطابق کلر کہار جھیل سب سے زیادہ گندی جھیل بن چکی ہے۔ آج سے نو برس پہلے اس کے پانی میں کیمیائی مادے دس گنا زیادہ ہوچکے تھے۔ آج تو اس کی گندگی میں اور بھی زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ یہی حال سکیسر پہاڑ کے بالکل نیچے واقع نمکین پانی کی اچھالی جھیل کا ہے جس میں کیمیائی مادوں کی مقدار معیار سے بیس سے پچیس گنا زیادہ ہوچکی ہے۔ سون وادی میں واقع بہت ہی خوبصورت جھلر جھیل کا حال بھی کچھ اچھا نہیں۔کوہ نمک کی سکیسر وادی میں واقع کھبیکی جھیل ایک کلومیٹر چوڑی اور دو کلومیٹر لمبی ہے۔ یہ پنجاب میں واحد مقام ہے جہاں فلے منگونامی پرندہ پایا جاتا ہے۔ اس جھیل میں سلفیٹ اور سلفائیڈ کی مقدار بہت زیادہ ہوچکی ہے۔جھیلوں کی آلودگی کے باعث آہستہ آہستہ ان میں آبی حیات بھی کم ہورہی ہے اور یہاں قیام کرنے والے پرندوں کی تعداد بھی۔ آلودگی سے نپٹنے کو محکمہ ماحولیات بنایا گیا لیکن اس کاعملی کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے کرتا دھرتاوں میںمعمول سے ہٹ کر کوئی کام کرنے کا نہ تو جذبہ ہے نہ صلاحیت۔ کبھی کوئی غیرملکی فنڈنگ مل جائے یا کوئی سر پھرا آدمی اہم سیٹ پر آجائے تو کوئی اچھا کام سرزرد ہوجاتا ہے۔جھیلوں کی آلودگی پر تحقیقاتی رپورٹ بنے نو سال ہوگئے لیکن حرام ہے جو اس کی روشنی میں انہیں آلودگی سے پاک کرنے کے لیے اقدامات کیے گئے ہوں۔ قدرت نے ہمیں ایک خوبصرت دھرتی عطا کی ہے۔ ان جھیلوں کو تباہ کرکے ہم اپنے مسکن کو بدنما بنا رہے ہیں۔ اگر حکومت جھیلوں کے نزدیک بستیوں کے گندے پانی کوصاف کرنے کے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگادے توانہیں مزید تباہی سے بچایا جاسکتا ہے۔ ابتدا کلر کہار جھیل سے کی جاسکتی ہے جہاں سب سے زیاد ہ سیّاح جاتے ہیں ‘ جو پنجاب میں مہاجر پرندوں کا سب سے بڑا ٹھکانہ ہے۔کیا ہی اچھا ہو جو شہری بھی ان جھیلوں کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔ پانی زندگی ہے۔ پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے میں ہماری بقاہے۔