جرمنی کی میزبانی میں گروپ آف سیون کا تین روزہ سربراہی اِجلاس منگل28 جون کو ختم ہوا ہے۔ دنیا کے سات امیر ترین ممالک کے رہنماؤں پر مشتمل G7 کا اِس سال کا سربراہی اجلاس 26-28 جون کو جرمنی کے شہر باویرین الپس میں منعقد ہوا ۔ اِجلاس کے پروگرام کے ایجنڈے میں روس کا یوکرائن پر حملہ، ویکسین کی ایکویٹی، اور موسمیاتی ہنگامی صورتحال سے بڑھے ہوئے عالمی معاشی بحران ہیں۔اِجلاس میں رہنماؤں نے توانائی کی قیمتوں کو محدود کرنے کے بارے میں بات کرنے کے منصوبے کی حمایت کی ہے اور یوکرائن کی غیر معینہ مدت تک حمایت کرنے کا وعدہ کیا ہے۔G7صنعتی جمہوریتوں… امریکہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، اور برطانیہ…کا ایک غیر رسمی بلاک ہے جو عالمی اقتصادی گورننس، بین الاقوامی سلامتی اور توانائی کی پالیسی جیسے مسائل پر بات کرنے کے لیے ہر سال اِجلاس منعقد کرتا ہے۔ اَمریکہ، فرانس، اٹلی، جاپان، برطانیہ، اور سابقہ مغربی جرمنی نے 1975 میں تیل برآمد کرنے والے ممالک (OPEC) کی پابندی کے نتیجے میں غیر کمیونسٹ طاقتوں کو دباؤ ڈالنے والے معاشی خدشات، جس میں افراط زر اور پیٹرولیم کی تنظیم کے ذریعے پیدا ہونے والی کساد بازاری شامل تھی، کو دور کرنے کی غرض سے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لیے گروپ آف سِکس تشکیل دیا۔ اگلے سال کینیڈا نے شمولیت اختیار کی۔ یورپی یونین (EU) نے 1981 سے G7 میں ایک "غیر عددی" رکن کے طور پر مکمل شرکت کی ہے۔ تاہم سرد جنگ کی سیاست ہمیشہ گروپ کے ایجنڈے میں شامل رہی۔ اقوام متحدہ یا نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (NATO) کے برعکس، G7 کوئی باقاعدہ ادارہ نہیں ہے جس کا چارٹر اور سیکرٹریٹ ہو۔ صدارت، جو ہر سال رکن ممالک کے درمیان گھومتی ہے، ہر سال کے سربراہی اجلاس کا ایجنڈا ترتیب دینے اور منعقد کرنے کا انتظام کرنے کا ذمہ دار ہے۔ غیر رکن ممالک کو بعض اوقات G7 اجلاسوں میں شرکت کے لیے مدعو کیا جاتا ہے جیسا کہ حالیہ اِجلاس میں انڈونیشیا، اَرجنٹائن، بھارت، سینیگال اور جنوبی افریقہ کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ اَگرچہ روس 1998 میں اِس گروپ میں شامل ہوا اور نام بدل کر G8 کر دیا گیا — مگر کریمیا پر قبضہ کرنے کے بعد 2014 سے روس کو اِس گروپ سے خارج کر دیا گیا ہے۔تجدید تعاون کی علامت میں، G7 نے اپنے 2021 کے سربراہی اجلاس سے پہلے ایک تاریخی معاہدہ کیا ہے تاکہ کارپوریٹ ٹیکس کے عالمی قوانین پر نظر ثانی کی جا سکے۔ ابھی حال ہی میں، G7 نے یوکرائن جنگ کے جواب میں روس پر مربوط پابندیاں عائد کی ہیں۔ 12000 الفاظ پر مشتمل اعلامیہ کے علاوہ، G7 نے جمہوریت (مہمان ممالک کے ساتھ مل کر)، یوکرائن، عالمی غذائی تحفظ، اور ایک ماحولیاتی کلب کی تشکیل کے بارے میں چار دیگر بیانات بھی جاری کیے ہیں۔ G7 گروپ نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کا مقابلہ کرنے کے لیے "پارٹنرشپ فار گلوبل اِنفراسٹرکچر اینڈ اِنویسٹمنٹ" کے نام سے ایک بڑا عالمی انفراسٹرکچر پروگرام بھی شروع کیا ہے حالانکہ 2021 کے سربراہی اِجلاس کے موقع پر اَمریکہ کی طرف سے اِعلان شدہ "بلڈ بیک بیٹر ورلڈ (Build Back Better World) کے آئیڈیا نے کوئی قابلِ ذکر کام سرانجام نہیں دیا۔ موسمیاتی تبدیلی، مہنگائی اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، اور COVID-19 وبائی مرض کے ساتھ، ماسکو اور بیجنگ کی طرف سے مسابقت، 2022 کے سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں سرِفہرست رہے۔ 2022 کے سربراہی اجلاس میں، اہم ایجنڈا آئٹم یوکرائن میں جنگ تھی اور "ایک ایسے وقت میں ایک متحدہ مغربی بلاک کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی جب تھکاوٹ کا خطرہ بڑھ رہا ہے"۔ روس کی توانائی پر یورپ کے انحصار کو کم کرنے اور ماسکو کے لیے معاشی نقصن کو بڑھانے کے لیے دوسرے طریقے تلاش کرنے پر بات چیت کی گئی جبکہ روسی تیل پر قیمتوں کی حد لگانے پر غور کیا گیا ہے۔ مزید برآں، اِس بلاک کو جنگ سے عالمی خوراک کے بحران کا سامنا ہے، جس کے نتیجے میں گندم اور دیگر فصلوں کی قلت پیدا ہوئی ہے اور اَجناس کی قیمتوں میں غیر معمولی اِضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ موسمیاتی خدشات بھی سب سے پہلی ترجیح ہیں۔ درحقیقت، جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا ہے کہ وہ G7 کو ایک "ماحولیاتی کلب" میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ 2022 کے سربراہی اجلاس سے پہلے، G7 وزراء نے ماحولیاتی تحفظ اور توانائی کی حفاظت پر ایک نئے مشترکہ معاہدے کا عہد کیا۔ دیگر وعدوں کے علاوہ، انہوں نے جیواشم ایندھن کی سبسڈی کو ختم کرنے، 2035 تک اپنی بجلی کی سپلائی کو ڈی کاربنائز کرنے، اور 2050 تک خالص صفر اخراج کو حاصل کرنے کے مقصد کے ساتھ، نقل و حمل کے شعبے میں کاربن کے اخراج میں مزید کمی کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا۔ سربراہی اجلاس سے قبل G7 نے 2022 کے وسط تک دنیا کی 70 فیصد آبادی کو کورونا وائرس کے خلاف ویکسین دینے کے عالمی ادارہ صحت کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔G7 ممالک نے گزشتہ ماہ یوکرائن کو 19.8 بلین ڈالر کی اضافی اقتصادی امداد فراہم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ انہوں نے روس پر پابندیاں عائد کی ہیں، جو ملک کے کچھ بڑے بینکوں، بڑے روسی سرکاری اداروں اور اشرافیہ اور ان کے خاندان کے افراد کو نشانہ بناتی ہیں۔ G7 کے مستقبل کو روس اور چین کے ساتھ مسلسل کشیدگی کے ساتھ ساتھ تجارت اور موسمیاتی پالیسیوں پر اندرونی اختلافات کی وجہ سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ جس وقت اَمریکہ "چین اور روس کو اِیک ہی لاٹھی سے ہانکنے " کا رجحان رکھتا ہے، G7 کے دوسرے اَراکین بیجنگ کے ساتھ تصادم کو بھڑکانے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں لہٰذا G7 چین کو تنہا کرنے سے گریز کرسکتا ہے کیونکہ وہ روس کو مزید تنہا کرنے کی کوششوں کو زیادہ ترجیح دیتا ہے۔ اگرچہ 2022 کے سربراہی اجلاس میں، G7 نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چین کی سرزنش کی ہے لیکن ساتھ ہی چین پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرائن میں جنگ روکنے کے لیے روس پر اَپنا اَثر و رسوخ اِستعمال کرے۔