یہ لکمبا ہے۔ سڈنی کے اندر ایک ڈھاکہ‘ ایک قاہرہ‘ ایک لاہور۔ سامنے میز پر نہاری ہے‘ پائے ہیں! اچار والے چنے ہیں۔ پوریاں اور پراٹھے ہیں۔ تانبے کے گلاس میں میٹھی لسّی ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لئے سڈنی کو اور سڈنی کے لکمبا کو بہت پاپڑ بیلنے پڑے۔ بڑے مراحل سے گزرنا پڑا۔ یہ سفر دو سو تیس سال پہلے شروع ہوا۔ انگریز‘ امریکہ کھو بیٹھے تھے۔ اب نئی کالونیوں کی تلاش تھی قیدیوں کے لئے ایک نئے ’’کالا پانی‘‘ کی ضرورت تھی۔ ایک منجھے ہوئے جہاز ران آرتھر فلپ کو گیارہ بحری جہازوں کا بیڑہ دیا گیا۔ اس میں سات سو بہتر سزا یافتہ قیدی تھے۔ کچھ ملاح اور چند سپاہی اور افسر! یہ برطانیہ سے روانہ ہوا۔ 1788ء کی جنوری کا چھبیسواں دن تھا۔ جب یہ جہاز اس کھاڑی میں لنگرانداز ہوئے جسے آج دنیا سڈنی ہاربر کہتی ہے۔ لارڈ سڈنی اس وقت برطانیہ کا وزیر داخلہ تھا۔ نئی کالونی کا نام اسی کے نام پر رکھا گیا۔ چالیس قیدی راستے میں مر گئے اور سمندر کی نذر کر دیے گئے ۔کھانا اور پانی جو جہازوں میں ساتھ لایا گیا تھا‘ محدود مقدار میں تھا۔ کبھی جہاز کو پینے کے پانی کے لئے بمبئی بھیجنا پڑتا ‘کبھی خوراک کے لئے چین کی کسی بندرگاہ پر۔ زراعت زیادہ کامیاب نہیں ہو رہی تھی۔ زمین زرخیز نہیں تھی۔ قیدیوں کو زمینیں الاٹ کی گئیںاور مقامی خوراک کا تھوڑا بہت انتظام ہوا۔ پھر بھی خوراک راشن کے حساب سے دی جاتی۔ مقامی قبائلی باشندے الگ مصیبت تھے۔ تیروں اور بھالوں سے حملہ آور ہوئے ۔فلپ آرتھر کی یہ لوگ عزت بھی کرتے اس لئے کہ اس کا سامنے کا ایک دانت نہیں تھا اور یہ قبائلیوں کی نظر میں خوش بختی کی علامت تھی۔ گوشت کنگرئوں کو ذبح کر کے حاصل کیا جاتا ۔ مچھلیاں پکڑی جاتیں۔ قلت زیادہ ہوتی تو آرتھر فلپ اپنا ذاتی حصہ بھی جو اسے بطور گورنر ملتا‘ ملازموں کو دے دیتا۔ اس سے ملازم وفادار رہتے اور بغاوت کی صورت میں مددگار! پھر قحط پڑ گیا۔ گوبھی کا ایک ایک پھول اور پالک کی ایک ایک گٹھی خزانہ لگنے لگی۔ عشرے لگ گئے زراعت اور باغبانی کو کسی اطمینان بخش مقام تک لے جانے میں! بحری جہازوں کے ذریعے آنے والی خوراک سے جان چھڑانے میں مدتیں لگ گئیں۔1850ء تک آٹھ سو سے زیادہ بحری جہاز سڈنی لنگر انداز ہو چکے تھے اور ایک لاکھ باسٹھ ہزار قیدی لائے جا چکے تھے۔ اب کچھ رضا کار بھی آ گئے تھے جو زمینیں آباد کر کے نئے ملک میں قسمت آزمائی کرنا چاہتے تھے۔ پھر مصائب کا دور ختم ہوا۔ آسودگی نے ڈیرے ڈالے آج سڈنی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں سب سے بڑا اور دنیا کا چودھواں بڑا شہر ہے۔ واپس لکمبا آتے ہیں۔ تین دن پہلے ہم چند دوست لکمبا کے مشہور ریستوران ’’علی ڈائن ان‘‘ میں وہ نعمتیں سامنے رکھے بیٹھے تھے جن کا آرتھر فلپ نے خواب میں بھی نہ سوچا ہو گا۔ روایتی دیسی کھانے لاہور ‘کراچی اور دہلی میں اپنی مثال آپ یقینا ہوں گے مگر ان شہروں سے ہزاروں میل دور‘ سفید فاموں کے اس نگر میں‘ بحرالکاہل کے کنارے‘ ان پکوانوں کی اپنی شان تھی اور معجزاتی شان تھی۔ خوراک کے معجزے کہاں کہاں برپا نہیں ہوئے۔ ذکریا علیہ السلام جب بھی کمرے میں آتے تو دیکھتے کہ حضرت مریم ؑکے پاس کھانے پینے کی اشیا پڑی ہیں۔ پوچھتے کہاں سے آئی ہیں۔ جواب دیتیں اللہ کی طرف سے ؎ مقید ہوں میں کالی کوٹھری میں مہیا کر ثمر اے غَیب کے ہاتھ کبھی اُس دعا پر غور کیا ہے؟ جو کسی نے تپتے سلگتے صحرا میں کھڑے ہو کر مانگی تھی کہ میں نے اپنی اولاد میں سے کچھ کو ایسے دشت میں آ بسایا ہے جہاںکھیتی ہے نہ باغ۔ بارش ہے نہ روئیدگی! انہیں پھلوں کی روزی عنایت کرنا۔ حیرت ہوتی ہے کہ مکہ کے بازاروں میں روئے زمین پر پیدا ہونے والا ہر پھل موجود ہے ہر موسم میں موجود ہے! حج کبھی گرمیوں میں پڑتا ہے۔ کبھی جاڑوں میں‘ کبھی بہار میں۔ کبھی معتدل موسم میں! عمرہ کے زائر بھی سارا سال آتے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی پھل کی خواہش کی جائے اور مکہ میں دستیاب نہ ہو! کیا فراوانی ہے رزق کی کہ ایک فرد کا کھانا ہمیشہ دو کے لئے وافر ہوتا ہے! لاکھوں زائر اور ہزاروں کبوتر حرم کے اردگرد اپنی اپنی خوراک پاتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ یہ کبوتر بھی زائر ہیں! روایت ہے کہ یہ اُن کبوتروں کی نسل ہے جو عہدِ رسالتؐ میں یہاں موجود ہونے کا شرف رکھتے تھے۔ اس میں اشکال بھی کیا ہو سکتا ہے! نسل در نسل یہ کبوتر یہاں موجود ہیں اور اس وقت سے موجود ہیں! یہ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کے درمیان سفر بھی کرتے ہیں۔ علماء متفق ہیں کہ انہیں قتل کرنے پر فدیہ یا دم واجب آتا ہے۔ نہ جانے آغاز کیسے ہوا بہرحال لکمبا سب سے پہلے لبنانی عربوں کا مستقر بنا۔1990ء تک یہ عربستان کا درجہ حاصل کر چکا تھا۔ آج کل بنگلہ دیشی اس کثرت سے آباد ہیں کہ ڈھاکہ کا منظر یاد آتا ہے۔2016ء کے سروے کی رُو سے بنگلہ دیشی تیرہ فیصد ہیں۔ لبنانی آٹھ فیصد! بھارتی مسلم سات فیصد اور پاکستانی چھ فیصد! عربی بنگالی اردو اور روہنگیا زبانیں انگریزی کے ساتھ ساتھ کثرت سے بولی جاتی ہیں۔ یہاں شاید ہی کوئی سفید فام نظر آئے۔ جوگورے چٹے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ لبنانی ہیں اور کوئی کوئی ترک ! انگریزی کے علاوہ دکانوں کے سائن بورڈ عربی میں ہیں یا بنگالی میں! خواتین برقع پوش ہیں۔ جو برقع پوش نہیں وہ حجاب اوڑھے ہوئے ہیں۔ تقریباً سارے کے سارے ریستوران حلال کھانا فراہم کرتے ہیںکوئی مرد لنگی(دھوتی) باندھے ہے کوئی شلوار قمیص میں ملبوس ہے ‘کوئی عرب چغہ پہنے ہے! دکانوں پر کبابی بیٹھے ہیں نان بائیوں نے جگہ جگہ تنور کھول رکھے ہیں سب کچھ اپنا اپنا لگتا ہے! مسجدوں کی کمی نہیں! مگر افسوس! مور کے پائوں بدصورت ہیں۔ لکمبا مسلمانوں کا گڑھ ہے اور سڈنی کے ان علاقوں کا صفائی میں مقابلہ کرنے کاسوچ بھی نہیں سکتا جہاں سفید فام آباد ہیں۔ صفائی کا معیار وہی ہے جو ڈھاکہ میں ہے یا لاہور میں یا قاہرہ کے بازاروں میں! ہم جس جگہ گاڑی پارک کر کے اترے وہاں ہر طرف مالٹوں کے چھلکے بکھرے پڑے تھے۔ فٹ پاتھ پر دو نوجوان بیٹھے سگریٹ پھونک رہے تھے اور ان کے اردگرد صرف راکھ نہیں‘ سگریٹوں کے ٹکڑے بھی دکھائی دے رہے تھے‘ تھوکنے کا رواج عام ہے۔ سڑک غلط جگہ سے عبور کی جاتی ہے۔ ٹریفک کی خلاف ورزی کا کوئی کال نہیں! بغیر کام کے مٹر گشت اسی طرح ہے جیسے ’’اصل‘‘ ملکوں میں کی جاتی ہے!کیفے ہیں یا قصاب کی دکانیں‘ بیکری ہے یا سپر مارکیٹ‘ بک شاپ ہے یا ریستوران۔ حجام کی دکان ہے یا میوہ فروش‘ لکمبا سڈنی کا حصہ نہیں لگتا۔ اس لئے نہیں کہ یہاں مسلمان بستے ہیں۔ اس لئے کہ صفائی عنقا ہے! لوگ بلند آواز سے ایک دوسرے کو بلاتے ہیں۔ سفید فام دکاندار سے پوچھیں گے کہ فلاں شے کہاں ہے تو وہ آپ کے ساتھ جا کر مطلوبہ شے دکھائے گا مگر لکمبا میں یہ رواج نہیں۔ دکاندار وہیں بیٹھا رہے گا۔ ہاتھ کے اشارے سے آپ کی ’’رہنمائی‘‘ کرے گا خواہ گاہک کو مطلوبہ شے ملے یا نہ ملے۔ مکانوں کی قیمتیں دوسرے علاقوں کی نسبت کم ہیں۔ سفید فام باشندے یہ علاقے چھوڑ کر جاتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف بزنس یہاں خوب چمکتا ہے۔ رمضان میں شام کے مناظروہی ہوتے ہیں جو مسلمان ملکوں میں نظر آتے ہیں۔ افطاری خریدنے والوں کے ہجوم‘ اشیائے خورو نوش کی کثرت! ریستورانوں میں کھانوں کے شائقین کی قطاریں! رات بھر بازاروں چوکوں اور گلی کوچوں میں رونق رہتی ہے! تاہم صرف مسلمان آبادیوں سے شکوہ ناروا ہو گا۔ ویت نامی ‘ بھارتی اور بعض مقامات پر چینی اکثریت کے محلے بھی صفائی اور آداب کے حوالے سے اسی زمرے میں آتے ہیں۔ پان کی پیک تھوکنے میں جنوبی ایشیا کے تمام تارکین وطن یکساں مطعون کئے جا سکتے ہیں۔ غنڈہ گردی میں جہاں لبنانی بدنام ہیں وہاں اطالوی اور یونانی زیر زمین مافیا بھی اتنی ہی بری شہرت کا حامل ہے۔ ساری باتیں درست مگر اپنی ثقافت جیسی بھی ہے اپنی ہی ہے۔ اذان سنائی دے تو مسجد تک رسائی ممکن ہو! بھوک لگے تو حلال کھانا میسر ہو‘ چٹورے پن پر دل چاہے تو مرچوں والے کباب ‘ حلیم اور تکّے کھائے جا سکیں‘ بات کرنے کا موڈ ہو تو کوئی ہم زبان ہو! لکمبا ایسی خوش بخت جگہ ہے جہاں یہ سب کچھ میسر ہے! اِ کالم نگار کواپنا جھونپڑا خرید کر یہاں مستقل رہنا ہو تو لکمبا ہی کا انتخاب کرے!!