میرے بعد جیالے بلاول، آصفہ اوربختاور کاخیال رکھیں۔۔۔ ایک سے دوسری بلکہ تیسری بار مردِحْر کی شہرت رکھنے والے، صدرِمملکت جیسی سب سے اونچی کْرسی پر بیٹھنے اور برسوں بڑی جرأت، بہادری سے تھانوں، کچہریوں کی مشقت جھیلنے والے پی پی کے چیئرمین محترم آصف علی زرداری جب اس بے بسی اور افسردگی سے جیالوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں۔ تو وہ اس یقین پر پہنچ گئے ہیں کہ اگلے ہفتے دو میں۔ طویل مدت کے لئے سزا وار ہونے جارہے ہیں۔ ہمارے محترم سابق صدر آصف علی زرداری نے اس سے پہلے بھی کئی بار طویل المیعاد جیل کاٹی ہے۔ حتیٰ کہ مرحوم جام صادق علی کے دور میں زبان تک کو کاٹنے کی کوشش کی گئی۔ اور پھر اپنی بیگم محترمہ بینظیربھٹو کی شہادت کے بعد سے تو انہیں خاندانی ذمہ داریوں سمیت سیاسی محاذ پر بھی کڑا وقت دیکھنا پڑا۔۔۔ مگر اپنی تین دہائی کے سرد و گرم میں پہلی بار وہ پارٹی "جیالوں" سے اپنے بچوں کا خیال رکھنے کی درخواست کررہے ہیں۔۔۔حالانکہ اس وقت ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری جلسوں، جلوسوں اور بیانوں میں گرج برس رہے ہیں۔۔۔۔ان کی بیٹیاں خاص طور پر آصفہ بھٹو سیاسی محاذ پر سرگرم عمل ہیں۔اس میں ماشاء اللہ بلوغیت، قابلیت اور جرأت میں بجا طور پریہ ثابت کرچکے ہیں کہ اْن میں اس بات کی اب پوری صلاحیت ہے کہ وہ "بھٹوز" کی پارٹی کی تیسری پیڑھی کے قائد کی حیثیت سے مستقبل میں اپنے نانا اور والدہ کی طرح پارٹی کو بھی زندہ رکھیں گے۔۔۔ اور ان کی سیاست کو مگر ایسا لگتا ہے کہ ہمارے محترم آصف علی زرداری شدید ذہنی دبائو اورایک حد تک علالت کے سبب وہ حوصلہ چھوڑتے جارہے ہیں جس کے سبب اْن کی شہرت دہائیوں سے "کھلاڑیوں کے کھلاڑی" کی رہی ہے۔ ابھی سال ڈیڑھ پہلے کی ہی تو بات ہے۔نومبر 2017ء میں لندن کے فلیٹ میں ہم کوئی چار صحافی ڈنر پر مدعو تھے۔ پرتکلف کھانے پر کوئی چار گھنٹے کہ طویل نشست رہی۔ میری ایک عرصے بعد ملاقات ہوئی تھی۔ توقع کے خلاف ایک خوش لباس، خوش مذاق اور پراعتماد سیاستدان کی حیثیت سے انہوں نے تمام سوالوں کے جواب دئیے۔ اور بڑے یقین سے کہا کہ وہ دو ماہ بعد وطن واپس آرہے ہیں۔ اور جولائی 18 کے الیکشن میں ڈٹ کر مخالفین کا مقابلہ کریں گے۔ یاد آرہا ہے کہ ان دنوں محترم زردری صاحب اپنے اْس بیان کے سبب کہ جس میں انہوں نے "اینٹ سے اینٹ "بجانے کی دھمکی دی تھی،سال بھر سے اوپر دوبئی،لندن میں وقت گذار رہے تھے۔ الیکشن سے پہلے ان کی بڑی دھوم دھام سے آمد ہوئی۔ زرداری صاحب نے خود نواب شاہ سے الیکشن بھی لڑا۔ کامیاب بھی ہوئے۔اور بڑے طمطراق سے قومی اسمبلی بھی آتے رہے۔اور پھر۔ شریف خاندان کا سینیٹ، قومی اسمبلی اور ہاں پنجاب میں بھی تختہ الٹنے کیلئے جو کردار ادا کیا، اْس سے صاف لگا کہ وہ"اسٹیبلشمنٹ" سے ایک خوشگوار سطح پر تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ مگر سال 2019ء کے آتے ہی بے نامی اکائونٹوں کا جو طوفان اٹھا اور اْن کے قریبی کاروباری دوستوں کی جس طرح گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔۔۔ آج مئی کے آتے آتے صاف لگ رہا ہے کہ وہ اپنے ذاتی اور کاروباری دوستوں کے سبب بری طرح کرپشن کے شکنجے میں جکڑے جاچکے ہیں۔ اور اس وقت جو شکنجہ گرتی ہوئی صحت کی صورت میں اْن پر کسا گیا ہے۔ وہ ماضی کے مقابلے میں ایسا ہے کہ اْن کی جاں بخشی مشکل ہی سے ہوسکے۔ اور پھر اسی سبب اْن کی زبان سے ایک سے زائد کئی بار یہ جملہ آیا کہ "بلاول کا خیال رکھنا"۔۔۔۔ محترم آصف علی زرداری سے بہت زیادہ نیاز مندی کا دعویٰ تو نہیں تاہم ان کی بیگم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو سے خاص تعلق رہا ہے۔ اْن کے بیٹے اور بیٹیاں ابھی جوان ِ رعنا ہی نہیں سیاسی طور پر نوخیزی کی عمر سے گذر رہے ہیں۔ ایسے میں پارٹی کی مرکزی قیادت اور پھر جیالوں پر بھی قلم "گھسیٹتے" ضرورت سے زیادہ محتاط ہوں۔ مگر آج پاکستان پیپلزپارٹی اور ان کے قائد آصف علی زرداری اور اْن کے جیالے جہاں آکر کھڑے ہیں۔ اس میں برس دو برس نہیں ،دہائیاں لگی ہیں۔1970ء کی مثال تو پرانی ہوئی۔دس سال تک تھانوں، کچہریوں ،کوڑوں حتیٰ کہ پھانسی کے پھندوں کوچومنے والی جماعت جب دسمبر1988ء میں واحد سیاسی جماعت کی حیثیت سے ابھری تو یہی وقت پارٹی قیادت بلکہ پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو اور محترم آصف علی زرداری کے امتحان کا تھا۔۔۔ جنرل ضیاء الحق نے جس طرح دس سال تک سویلین، فوجی اسٹیبلشمنٹ کو پالا پوسا تھا۔ اس وقت اصل میں اقتدار تو صدر غلام اسحاق خان اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے ہاتھوں میں ہی تھا۔ مگر دس سال تک مار کھانے والوں کا پریشر اور پھر ہمارے محترم آصف علی زرداری کا حلقہ یاراں اورایک حد تک کوئی دوسرا متبادل نہ دیکھتے ہوئے جو پیپلز پارٹی نے اقتدار قبول کیا۔اس نے راتوں رات اسے عوامی سیاسی میدان سے اْس پاورکاریڈور میں دھکیل دیا جہاں کی محلاتی سازشیں پاپولر لیڈرشپ کو وہاں دھکیل دیتی ہیں۔ جہاں سے وہ سیاسی زبان میں زندہ درگور ہی نہیں بلکہ بھٹو صاحب کی صورت میں تو پھانسی کے پھندے پر ہی جھولتے ہیں۔ بھٹو صاحب کو اْن کے آخری وقت میں جس طرح اصلی تہ وڈے جیالوں نے چھوڑا۔اْس پر لاکھوں صفحے سیاہ کئے جاچکے ہیں۔۔۔ 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے جو مشروط اقتدار لیا اور جس پر بعد میں انہوں نے ندامت کا اظہار کیاوہ اب تاریخ بن چکا ہے۔ 1996ء میں اپنے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے بہیمانہ قتل سے بھی جو پیغام پی پی قائد بے نظیر بھٹو اور پارٹی قیادت کو ملا وہ بھی ایک ایسا وقت تھا جب وہ "وزارت عظمیٰ" کو ٹھوکر مار کر اسٹیبلشمنٹ سے دو دو ہاتھ کرلیتیں۔ تیسری بار اقتدار میں آنے کے لئے 2007ء میں جنرل پرویز مشرف سے این آر او بھی ایک ضرورت بھی تھی اور مجبوری بھی۔جس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی جان لے کر ہی پیپلز پارٹی کو اقتدار کی مسند پر بٹھایا۔ یہاں تک بھی درست تھا۔ اور ایک موقع بھی ملا تھا کہ ہمارے محترم آصف علی زرداری"دوست نوازی" کے بجائے ’’بھٹوز" کے جیالوں میں نئی روح پھونکتے۔۔۔ کہ اْس وقت پی پی محض سندھ ہی نہیں۔۔۔ پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں بھی موثر عوامی طاقت رکھتی تھی۔ مگر 2008ء سے2013ء کے اقتدار نے جہاں 2014ء آتے صرف سندھ کی پارٹی بنادیا۔۔۔ وہیں ’’بھٹوز‘‘کے جیالے ’’باجو والی گلی‘‘سے نکل کر آسودہ حالی کی پناہ گاہوں میں براجمان ہوگئے۔ جولائی 2018 ء کے الیکشن تو ابھی کل کی بات ہے۔ کے پی کے، بلوچستان اور ہاں پنجاب بھی تقریباً صفر+5 صرف سندھ۔۔۔اور اس میں بھی مائنس کراچی۔۔۔ اس لئے محترم آصف علی زرداری صاحب آپ جن جیالوں کو بلاول کا خیال رکھنے کے لئے آواز لگا رہے ہیںوہ اب جیالے نہیں ، دودھ پینے والے مجنوں ہیں۔ ہاں،جاتے جاتے ایک ’’جملہ‘‘ ضرور لکھ دوں۔۔۔ہفتے بھر پہلے ’’ٹوئیٹ‘‘بھی کیاتھا۔ جس پر سوشل میڈیا کے کیڑے مکوڑے حملہ آور بھی ہوئے۔ مگر اسے پھر دہراؤں گاکہ’’بلاول میں اب جراَت بھی ہے اور اعتماد بھی۔اور سب سے بڑھ کر وہ مجبوبیت بھی جس کے لئے جیالے ترستے ہیں۔مگر ہاں اس کے لئے لازم ہے کہ اسے محض بلاول بھٹو رہنے دیا جائے۔اپنے نانا اور شہید والدہ کا وارث۔ کہ اب عشاق جیالوں کے قافلے نکلے بھی تو صرف اور صرف بلاول ہی کی قیادت میں۔