پاکستان میں آزادی جمہور اور آزادی صحافت کی تحریکیں ہمار ے جمہوری اور غیر جمہوری یا آمریت کے ادوار میں جس طاقت اور جذبے سے چلائی گئیںاس کی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں شاید ہی مل سکے، ایک زمانے میں آغا شورش کاشمیری جیسے جید دانشوروں نے تن تنہا بھی قلم کی حرمت کیلئے جیلوں اور دوسرے عقوبت خانوں میں اذیتیں برداشت کیں اور سر خرو ہوئے، ایوب خان کے دور اقتدار میں بہت سارے قلم کاروں کو زندان خانوں میں پابند سلاسل ہونا پڑا، حبیب جالب اور فیض احمد فیض نے بھی جیلیں کاٹیں اور قلعہ بند رہے، پھر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے پلیٹ فارم پر ملک گیر احتجاجی تحاریک چلتی رہیں، سینکڑوں قلم مزدور سزائیں پا کر جیلوں میں مشقتیں کاٹتے رہے، کبھی کسی بڑے سے بڑے سیاسی قیدی کو بھی وی آئی پی پروٹوکول لیتے ہوئے نہیں دیکھا گیا، بحالی جمہوریت کی تحریکوں میں خواتین کے کردار کو بھی تاریخ کبھی نظر انداز نہیں کر سکے گی۔ضیاء الحق کے دور میں ساٹھ ہزار سیاسی کارکنوں کو کوڑے مارے گئے، سوال یہ ہے کہ ان سرفروشوں نے کیا کبھی اپنی قربانیوں کا صلہ مانگا؟ نہیں کبھی نہیں۔۔۔ توپھر انہوں نے یہ قربانیاں کیوں دیں؟ جواب بہت آسان سا ہے۔ وہ سب سرفروش پاکستان اور پاکستان کے عوام کو حقیقی طور پر کامیاب اور کامران دیکھنا چاہتے تھے، وہ پاکستان میں عوام کی خوشحالی کا سورج طلوع ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے، وہ سب جاں نثار کبھی اقتدار کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے، ان سب کی تمنا یہی تھی کہ پاکستان کو وڈیرہ شاہی کی قید سے رہا کرایا جائے۔یہ تو کبھی کسی نے سوچا تک نہ تھا کہ پاکستان کو لوٹنے والے سیاست اور ریاست کے ہیرو بن جائیں گے اور غریب عوام کے دشمن غریب عوام کے نعرے بلند کریں گے، میں نے خود ایک طویل عرصہ اپنے ہی ملک کی سات جیلوں میں گزارا، ہم جیسے لوگوں کا عزم تھا کہ آزادی جمہور میں ہی سب کچھ ہے، محکوم لوگ اپنے وطن کے حکمران خود بنیں، افسوس کہ یہ خواب اب تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا، آج جو لوگ اپنے کرتوتوں کی سزائیں پاکر جیلوں میں بیٹھ کر بھی حاکم بنے ہوئے ہیں ان کے تو باپ دادا کو بھی علم نہ ہوگا کہ عام لوگوں کیلئے جیلیں کیسی ہوتی ہیں؟ ان کے ساتھ جیلوں میں کیا سلوک ہوتا ہے؟ انہیں وہاں کیا کیا مشقتیں کرنا پڑتی ہیں، ان کی خودی اور انا کو لمحہ لمحہ زخمی کیسے کیا جاتا ہے۔ میں آج کے اس کالم میں جیل کا چھوٹا سا واقعہ لکھ رہا ہوں، مجھے آج جیلوں میں بیٹھے ہوئے حکمران سیاسی ٹھیکیداروں سے جواب چاہئیے کہ جو ہم پر گزرتی رہی کیا ان کے ساتھ بھی وہی ہو رہا ہے،؟ ہم جیسے تو سیاسی قیدی ہوتے ہوئے بھی سارے عذاب جھیلتے تھے کیا ان کے ساتھ بھی قیدیوں والا سلوک روا رکھا جاتا ہے؟، وہ جو فوجداری مقدمات میں جیلوں میں پہنچ کر ایئر کنڈیشن بھی لگوا لیتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق جیل میں اپنے محلات والی عیش و عشرت سے فیض یاب ہو رہے ہیں انہیں کیا پتہ کہ جیل ہوتی کیا ہے اور جیل کاٹی کیسے جاتی ہے جتنی آسان اور گھریلو جیل ہمارے سابق حکمران کاٹ رہے ہیں اتنی تو مغلیہ دور میں کسی بادشاہ، شہزادے یا شہزادی کو بھی نصیب نہ ہوئی تھی۔ ٭٭٭٭٭ اب آپ ملاحظہ فرمائیں، میری ایک جیل کہانی۔ ملاحظہ ، یہ ہوتا کیا ہے؟جاننے کے لئے جانا پڑتا ہے جیل میں۔۔جیل کے اپنے قانون قاعدے، اپنی اصطلاحات، اپنی زبان اور اپنے ضابطے اور روایات ہوتی ہیں، جیسے رات کو بھیڑ بکریوں کی طرح گنتی کرکے کوٹھریوں میں بند کرنے سے پہلے قیدیوں کی ، چڑیا، لگنا،سزا یافتہ قاتل، باغی ،وی وی آئی پی یا خطرناک قیدی توعموماً تنہائی میں رکھے جاتے ہیں، لیکن بے ضرر قیدیوں کی چڑیا لگتی ہے۔ پانچ چھ فٹ کی کوٹھڑی میں دو دو نہیں ، تین یا پانچ قیدی بند کئے جاتے ہیں، اور جو تین قیدی ایک رات اکٹھے ہوتے ہیں اگلی رات ان کے ساتھی تبدیل کر دیے جاتے ہیں ، جیل مینوئل کہتاہے کہ دو قیدی سازش یا جنسی عمل کر سکتے ہیں۔آپ ملزم ہیں یا مجرم ، جیل کی مضبوط دیواروں کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی، آپ کس رتبے کے ہیں یا سماج میں کتنے معزز و محترم، جیل کو اس سے کوئی غرض نہیں ، پاکستان میں جیلوں میں تمام رسمیں وہی ہیں جو گورے اپنی محکوم رعیت کیلئے رائج کر گئے، گورا چلا گیا ، نشان باقی چھوڑ گیا، اور ان نشانات پر کالی افسر شاہی عمومی طور پر آج بھی چل رہی ہے۔ باادب، با ملاحظہ، ہوشیار۔یہ مکالمہ آپ نے تاریخی فلموں ، کتابوں اور ڈراموں میں کئی بار سنا اور پڑھا ہوگا، بادشاہ جب خلوت گاہ سے نکلتا ہے تو ہرکارے یہ ڈائیلاگ بولتے ہیں ، جس کا مطلب ہے ،، سب اپنی اپنی گردنیں جھکا لیں اور آنکھیں زمین میں گاڑھ دیں ، آپ جیل میں ہوتے ہیں تو مغل اعظم اور کمپنی بہادر کی حکومت کے دور کا یہ مکالمہ آپ کو نہ صرف سننے کو ملتا ہے بلکہ آپ پر لاگو بھی ہوتا ہے، جیل میں سب سے پہلے قیدی کی عزت نفس پر حملہ کیا جاتا ہے اور اس کی انا مجروح کی جاتی ہے۔ ملاحظہ، تو میرا سندھ اور پنجاب کی جیلوں میں بار بار ہوا، لیکن ذکر کروں گا، سنٹرل جیل کراچی میں ہونے والے ملاحظوں کا، جہاں میرے ساتھ کئی بزرگ، سینئر صحافی ، شاعر اور دانشور قید تھے، سب کا جرم ایک ہی تھا، آزادی صحافت ، آزادی جمہور اور تحفظ روزگار کے لئے جنرل ضیاء الحق کو چیلنج ، صدائے احتجاج، قائد اعظم کے مزار پر کھڑے ہوکر قائد اعظم سے سوال کرنا، ان سے پوچھنا ،بابا یہ کس کا پاکستان ہے؟ 14 اگست 1978ء یوم آزادی پر قائد اعظم کے مزار پر موجود ہزاروں محکوم لوگوں کی موجودگی میں قائد اعظم سے ایسے ہی سوالات کرنے کی پاداش میں ان کے مزار سے گرفتار کرکے مجھے کراچی سنٹرل جیل پہنچایا گیا ، وہاں ملتان کے سینئر صحافی ولی محمد واجد، امروز کے سلیم شاہد، لاہور کے ریاض ملک، الطاف ملک ’’الفتح ‘‘کے وہاب صدیقی ، ارشاد راؤ، محمود شام اور کراچی کے انتہائی قابل احترام بزرگ صحافی احمد علی علوی جن کی عمر یقینا 65 برس سے زیادہ تھی اور تعلق غالباً ڈان گروپ سے تھا، وہاں پہلے سے موجود تھے، علوی صاحب بزرگ ہی نہیں نحیف اور بیمار بھی تھے، میں نے انہیں جیل کا ساتھی بنانے کا فیصلہ کر لیا، کراچی سنٹرل جیل میں پہلی رات گزری تو صبح جیل کے ناشتے کے بعد جیل وارڈن نے حکم سنایا کہ سب قیدی تیاری کر لیں ،، دس منٹ بعد ملاحظے کے لئے جیل کی گراؤنڈ میں جمع ہونا ہے، ہم سب کے پاس جیل کا ایک ایک گلاس اور ایک ایک پلیٹ تھی، لباس کا ایک ایک جوڑا جسے ہم جیل کالباس پہننے کے بعد تکیے کے طور پر استعمال کرتے تھے، یہ تمام اثاثہ ساتھ لے کر ہم داروغہ کے پیچھے چلتے ہوئے جیل کے میدان میں پہنچے، جیل کے تمام قیدی یہاں جمع ہو رہے تھے، جب گنتی پوری ہو گئی اور تمام قیدی شدید گرم زمین پر بیٹھ گئے تو حکم دیا گیا کہ اپنا اپنا سامان سامنے رکھ کر سب قیدی آنکھیں نیچی کر لیں ،صاحب یعنی سپرنٹنڈنٹ جیل کا ملاحظہ ختم ہونے تک کوئی قیدی سر اٹھائے گا نہ آنکھیں، حکم کی تعمیل ہوئی ، سب کی گردنیں اور آنکھیں دس منٹ تک جھکی رہیں، پھر داروغہ کی آواز سنائی دی، اب سب قیدی اپنی آہنی بیرکوں میں واپس چلے جائیں، ہماری آنکھیں اور گردنیں واپسی پر بھی جھکی ہوئی تھیں، میں اور بزرگ احمد علی علوی اگلے ملاحظے تک آپس میں آنکھیں نہ ملا سکے۔ ٭٭٭٭٭ یہ تو تھا جیل کے ایک دن کا ایک واقعہ، دو صوبوں کی سات جیلوں کی یاترا کے ساتھ ساتھ شاہی قلعہ اور لال قلعہ کا مہمان بھی رہ چکا ہوں اور لا تعداد جیل کہانیاں ہیں میرے پاس، یہ سب کہانیاں قارئین کی امانت ہیں، آج جیل کاٹنے والوں کی جیل ختم ہوجائے گی مگر ظلم و استبداد کی یہ کہانیاں ختم نہ ہونگی۔