کتاب حق قرآن عظیم نے اقوام کی تباہی کے اسباب میں ایک نشانی اس کے اخلاق کی تباہی بتائی ہے ۔جب کوئی قوم اجتماعی طور پر بدعملی، بدخلقی اور بے راہ روی کا شکار ہو جاتی ہے تو تباہی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے ۔ معاشرے کے اخلاقی دیوالیہ پن کی وجوہات کو جاننا سماج کی نیت کو سمجھے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ معاشرہ افراد کا مجموعہ اور فرد کی تربیت خاندان،عصری حا لات و رجحانات اور مدارس کے تحت ہوتی ہے۔ جب اخلاقی جرم بندے اور اللہ کے دائرے سے نکل کر دوسرے فرد کی حدود میں داخل ہو تو گناہ رئاست کی نظر میں بھی ایک جرم بن جاتا ہے۔اس طرح گناہ اور جرم کے درمیان باریک لائن کی وجہ سے معاشرتی تربیت کا تیسرا ادارہ ریاست بھی شمار کیا جاتا ہے،یوں اخلاقی اقدار کے تعین اور پابندی کے تین ادارے خاندان مدارس اور ریاست ٹھہر تے ہیں۔ انقلاب فرانس کے بعد یورپ نے شخصی آزادی کے نام پرمذہب اور خاندان کو معاشرتی ذمہ داری پابندیوں سے آزاد کر دیا مگر باقی دنیا بشمول پاکستان میں آج بھی سماجی تربیت کی ذمہ داری یہی تین ادارے نبھا رہے ہیں۔ البتہ اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے آج دنیا لبرل اور قدامت پسند معاشروں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ پاکستان میں خاندان ،تعلیمی ادارے اور ریاست فرد کی تربیت کی ذمہ داری کس طرح نبھا رہے ہیں اس کا اندازہ آزادی کے دن مینار پاکستان کے سائے تلے رونما ہونے والے واقعہ سے ہو جاتا ہے۔گناہ اور جرم میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ فرد کو خدا کا خوف گناہ اور ریاست کے قانون کا ڈرجرم کے ارتکاب سے روکتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ غیر اخلاقی اور افسوسناک وا قعہ کے بعد سماج میں اصلاح کے احساس کی بجائے نام نہاد لبرل اور مذہبی حلقوںمیں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں شروع ہو جاتی ہیں اور پاکستانی معاشرہ بحیثیت مجموعی اپنی اپنی انا کا قیدی محسوس ہوتا ہے۔ ایک عورت کے ساتھ کھلے آسمان تلے 400افراد کی بدسلوکی کے بعد لبرل اور مذہبی طبقوں کی اصلاح کے بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں پر حمیدہ شاہین کا یہ شعر صادق آتا ہے: کون بدن سے آگے دیکھے عورت کو سب کی آنکھیں گروی ہیں اس نگری میں ٹک ٹاکر کے ساتھ بدسلوکی کے بعد پاکستانی سماج یہاں تک کہ دانشور طبقے میں بھی واضح تقسیم کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم اپنی آنکھیں اپنی اپنی انا کے پاس گروی رکھ دی ہیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو سماج جرم کی ذمہ داری اس بھونڈے اندازے میں ایک دوسرے پر نہ ڈالتا۔سچی بات ہے کہ پاکستانی سماج میں معاشرتی تربیت کے تینوں ادارے اپنی ذمہ داری نبھانے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔اس ناکامی میں مذہبی اور لبرل سوچ کے حامل دونوں طبقات ذمہ دار بھی ہیں، اگر لبرل سوچ رکھنے والوں نے اپنے حلقہ اثر میں اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہوتیں تو اسلام آباد میں نور مقدم سفاکانہ انداز میں قتل نہ ہوتی ،مذہبی حلقوں نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا ہوتا تو لاہور اور راولپنڈی کے واقعات پیش نہ آتے۔ خاندان اور تعلیمی ادارے اپنا کام کر رہے ہوتے تو پاکستانی معاشرہ تباہی کے اس دھانے پر نہ آن کھڑا ہوتا۔اگر ہم سماج کی اس حد تک اخلاقی گراوٹ کی وجوہات کا غیر متعصبانہ اور غیر جانبدارانہ تجزیہ کریں تو یہ سمجھنے میں زیادہ دقت نہ ہو گی کہ اخلاقی پستی کی وجہ ہمارے لبرل اور مذہبی طبقات کی دو رنگی ہے۔ پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم نہ تو مذہبی تصور کو پوری طرح قبول کر پا رہے ہیں نہ ہی ہم میں لبرل معاشرے کے فوائد اور نقصانات قبول کرنے کا حوصلہ ہے۔آدھے تیتر اور آدھے بٹیر والا معاملہ دونوں طرف ہے۔یہ سماج کا دوغلا پن ہی تھا جس نے ایک لبرل کو دوسری لبرل لڑکی کو قتل کرنے پر اکسایا۔ظاہر نے لبرل معاشرے کی آزادی اس حد تک قبول کر لی کہ سماجی اقدار کے خلاف آزادانہ تعلقات کو قبول کر لیا مگر یہی آزادی نور مقدم کو دینے کی باری آئی تو ظاہر کا قدامت پسند مشرقی مزاج جاگ اٹھا۔ اگر ظاہر نے لبرل معاشروں کی اقدار دل سے قبول کی ہوتیں تو وہ نور کی آزادی کے حق کو تسلیم کرتا اور نوبت بہیمانہ قتل تک نہ پہنچتی۔ہمارے لبرلز کی دو ررخی کی بہترین مثال رحمان مصور کا یہ شعر ہے: اسے ہم پر تو دیتے ہیں مگر اڑنے نہیں دیتے ہماری بیٹی بلبل ہے مگر پنجرے میں رہتی ہے اسی طرح ہم دینی اقدار کا پرچار تو کر تے ہیں مگر اس سوچ کو دل و دماغ سے پوری طرح قبول کرنے یا کم از کم اپنے ہم خیال لوگوں کو اس سوچ کو دل سے تسلیم کروانے میں بری طرح ناکام ہیں۔ ہمارے مذہبی حلقوں کی درست اور برحق سوچ کو اگر سماج قبول کرنے سے گریزاں ہے تو اس میں ابلا غی رکاٹوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے مدارس کو معلمین کے انتخاب کے لئے ڈگری کے ساتھ کردار کو بھی معیار بنانا چاہیے تھا ، کردار معیاری ہو توکردار سازی ترجیح بن جاتی ہے۔ ہمارا خاندان اپنی ذمہ داری کس حد تک نبھا رہا ہے اس کا اندازہ سماجی تنظیم ساحل کی اس رپورٹ سے ہو جاتا ہے کہ 2020ء میں بچوں سے جنسی زیادتی کے 1780واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں 109پیشہ ور افراد اور 91واقعات میں اپنے ہی خاندان کے لوگ ملوث نکلے، اگر خاندان ہی بچوں کی تربیت میں اپنا حصہ ڈال رہا ہوتا تو لاہور میں رکشہ ڈرائیو اور اس کا ساتھی ماں بیٹی کو زیادتی کا نشانہ نہ بناتے۔ یہ سچ سہی کہ اخلاقی تربیت میں ریاست کی اتنی ذمہ داری نہیں جتنی خاندان اور سکول کی ہے، مگر اخلاقی گراوٹ سے جرم کی ابتدا ہوتی ہے اس لئے ریاست کوبری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ریاست کی طاقت اس کا اختیار اور قانون کی طاقت ہوتی ہے ،سزا کا خوف ہی فردکو جرم سے باز رکھتا ہے۔ ریاست اپنی ذمہ داری کس حد تک نبھا رہی ہے اس کا انداز لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی اس رپورٹ سے لگایا جا سکتاہے جس کے مطابق پاکستان میں 2015ء کے بعد پر جنسی زیادتی کے 22 ہزار کیس رپورٹ ہوئے، مگر صرف 77مجرموں کو سزا ہو سکی ہے اور 18فیصد کیسز ہی پراسیکیوشن تک پہنچ سکے ہیں ۔ پاکستانی معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ خاندان، سماج اور ریاست اپنی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کر عورت کے حقوق کی دھائی دے رہے ہیں اور دعویٰ ہر کسی کا یہی ہے کہ وہ عورت کے حقوق کا علمبردار ہے۔ موجودہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ خواتین کو ان کے جائز دینی اورسماجی حقوق کا مکمل حق دار قرار دیا جائے۔ تبلیغ کے ساتھ تربیت کے ذمہ دار تینوں اداروں حصوصاً خاندانی نظام کو ماضی کی اقدار و روایات کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ کردارسازی کا تسلسل بحال ہو اور آنے والی نسلیں ایک باکردار معاشرے میں جنم لیں اس کے برعکس سوچ سے سماجی تبدیلی کی توقع عبث ہو گی تاکہ عورت خوش بخت ہو ۔ ورنہ سچ وہی رہے گا جو رضیہ فصیح احمد نے کہا: جس کو تم کہتے ہو خوش بخت، سدا ہے مظلوم جینا ہر دور میں عورت کا خطا ہے لوگو