معزز قارئین!۔ حضرت علی مرتضیٰ کا قول ہے کہ ’’ جو شخص کسی دوسرے شخص کو کوئی ایک لفظ یا کام کی بات سکھاتا ہے تو، سکھانے والا ۔ سیکھنے والے کا اُستاد (مُعلّم، آزمودہ کار کامل فن ) بن جاتا ہے ‘‘۔باب ؔاُلعلم کے اِس قول کے مطابق بچپن سے لڑکپن اور پھر جوانی سے بڑھاپے (آج تک ) میرے بے شمار اُستاد ؔہیں جنہیں مَیں اکثر یاد کرتا ہُوں ۔ سیکھنے والے کو شاگرد ، مُرید ، پیرو ، چیلا بھی کہتے ہیں ۔ ایک فارسی ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’ شاگرد ، رفتہ رفتہ باُستاذ ، می رسد‘‘(یعنی۔ شاگرد آہستہ آہستہ اُستاد کے برابر ہو جاتا ہے )۔ جناب مجید نظامی کی یادگار انگریزی روزنامہ "The Nation" کا ایڈیٹر سیّد سلیم بخاری میرا باقاعدہ شاگرد ہے ۔ مَیں نے 11 جولائی 1973ء کو لاہور سے اپنا روزنامہ ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا تو، وہ اُس کا بانی رُکن تھا۔ کئی سال تک وہ میرے ساتھ رہا اور پھر کئی انگریزی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی اپنا اور میرا نام روشن کرتا رہا۔ اِس لحاظ سے وہ اب بھی میرے ساتھ ہے ۔ مَیں نے اپنے کالم میں کئی بار لکھا کہ ’’ سلیم بخاری میرے سارے بھائیوں سے اچھا بھائی اور میرے سارے بیٹوں سے اچھا بیٹا ہے ‘‘ ۔ مَیں نے اپنے ایک کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ ’’ ہندوستان پر قابض انگریزی حکومت نے علاّمہ اقبالؒ کو ۔’’SIR‘‘ کا خطاب دینا چاہا تو علاّمہ صاحب ؒ نے لِکھا کہ ۔ ’’ مَیں یہ خطاب قبول کرلوں گا لیکن ، اُس سے پہلے حکومت کو میرے ۔’’پرائمری کے اُستاد ‘‘ ۔ مِیر حسن کو۔ ’’ شمس اُلعماء ‘‘ ۔کا خطاب دینا ہوگا‘‘۔ انگریز حکومت نے ایسا ہی کِیا‘‘۔ مَیںنے لِکھا کہ ۔’’میرے شاگرد سیّد سلیم بخاری نے مجھے کئی بار ۔ ’’ شمس اُلعماء ‘‘ ۔ کا خطاب دِلوایا ہے‘‘۔ معزز قارئین!۔ 20 اکتوبر 2017ء کو لاہور میں میرے ’’ ڈیرے ‘‘ پر پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل سیّد اعجاز حسین کی ریٹائرمنٹ کے بعد میری طرف سے کئی دوستوں کو مدّعو کِیا گیا تھااور اُسی دِن ’’ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ ( P.E.M.R.A) کے چیئرمین مرزا سلیم بیگ کے والد ِ محترم (میرے دوست ) تحریک پاکستان کے کارکن مرزا شجاع اُلدّین بیگ کی 83 ویں سالگرہ تھی ۔ دونوں سلیمؔ ۔ سیّد سلیم بخاری اور مرزا سلیم بیگ کے علاوہ میرے سینئر ، ہم عصر اور جونیئر صحافیوں میں برادرِ محترم روزنامہ ’’جُرأت ‘‘ کے چیف ایڈیٹر ، جمیل اظہر قاضی اور برادرانِ عزیز روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے گروپ ایڈیٹر، سیّد ارشاد احمد عارف ، روزنامہ ’’ نوائے وقت‘‘ کے سینئر ادارتی کارکن سعید آسیؔ ، نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید ، پنجابی روزنامہ ’’ بھلیکھا‘‘ کے چیف ایڈیٹر برادرم مدثر اقبال بٹ اور معاون ایڈیٹر قمر اعوان شریک ِ محفل تھے ۔ جب مَیں نے اپنا یہی مکالمہ دہرایا کہ ’’ سیّد سلیم بخاری نے مجھے کئی بار ’’ شمس اُلعلمائ‘‘ کا خطاب دِلوایا ہے ‘‘ تو، برادرم مدثر اقبال بٹ نے مجھ سے پوچھا کہ ’’ کیا سلیم بخاری صاحب کو بھی "Sir" کا خطاب ملا ؟ ‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ پاکستان کے بہت سے نامور صحافی سلیم بخاری کو "Sir" کہتے ہیں ، کیا یہ کافی نہیں ؟‘‘۔ اِس پر اہلِ محفل سیّد سلیم بخاری کو مبارک باد دینے لگے ۔ اب رہا انفارمیشن گروپ کے بہت ہی ’’پڑھاکو ‘‘ سینئر آفیسر مرزا سلیم بیگ کا معاملہ ۔ میرا اُس سے 1992ء سے تعلق ہے۔ وہ میرا باقاعدہ شاگرد تو نہیں ہے لیکن، کسی نہ کسی نشست میں مجھے مخاطب ہو کر یہ مکالمہ ضرور بولتا ہے کہ ’’سر! ۔ مَیں نے آپ سے بہت کچھ سیکھا ہے ‘‘۔ چنانچہ مَیں نے سوچھا کہ ’’ کیوں نہ مَیں مرزا سلیم بیگ کو بھی اپنا شاگرد تسلیم کرلوں؟۔ معزز قارئین ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ ’’ پہلے میری سیّد سلیم بخاری کے والد صاحب (میری طرح مشرقی پنجاب کے مہاجر) تحریکِ پاکستان ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن سیّد مختار حسین شاہ صاحب بخاری سے دوستی ہُوئی جو، ہمارے خاندان کی طرح ہجرت کے بعد ، پاک پنجاب کے شہر سرگودھا میں آباد ہُوئے ۔ پھر سیّد سلیم بخاری کے ساتھ ۔ اِسی طرح ،2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب سے پہلے لاہور میں جب میری اور میرے ایک سرگودھوی صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقت ؔ امرتسری نے کونسل مسلم لیگ کے ایک لیڈر میاں بشیر منظر کے گھر، مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ سے ملاقات کی تو، اُسی وقت تحریکِ پاکستان کے دو کارکنان پاکپتن شریف کے میاں محمد اکرم ( برادرِ سعید آسی ؔ کے والد ) اور لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری ( مرزا سلیم بیگ کے والد ) کی بھی مادرِ ملت سے ملاقات ہُوئی تھی۔ مرزا شجاع اُلدّین بیگ کا آدھے سے زیادہ خاندان امرتسر میں سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا ۔ پھر مرزا شجاع اُلدّین بیگ سے باقاعدہ دوستی کا دَور شروع ہوگیا ، جو اُن کی وفات ،6 مئی 2000ء تک قائم رہا۔ (اب بھی ہے) ۔ چند دِن پہلے مجھے پتہ چلا کہ ’’ سیّد سلیم بخاری لاہور کے بڑے ہسپتال میں اپنے جسم کی "Overhauling" کے لئے داخل ہے ‘‘۔ اُسی روز مجھے خُود مرزا سلیم بیگ نے اسلام آباد سے بتایا کہ "Sir" میری دائیں آنکھ میں موتیا اُتر آیا تھا ، جس کا ،کامیاب آپریشن ہوگیا ہے ‘‘۔ سیّد سلیم بخاری کی اہلیہ ہُما بخاری اور مرزا سلیم بیگ کی اہلیہ طاہرہ سلیم بیگ میری بیٹیوں کی طرح ہیں ۔ میری اُن سے ٹیلی فون سے بات ہُوئی تو، پتہ چلا کہ ’’ سب اچھا ہے ‘‘۔ اِس لئے کہ ’’ فروری 2011ء میں میری بھی پہلے دائیں آنکھ میں موتیا اُتر آیا تھا تو، میرا آپریشن ہُوا اور جب، مارچ 2014ء میں بائیں آنکھ میں موتیا اُتر آیا تو مجھے یہ فائدہ ہُوا کہ ’’ میرے چہرے پر 1981ء سے جو ، دُو ربین ( دُور کی عینک ) سجی تھی وہ، اُتر گئی ‘‘۔ مجھے یقین ہے کہ مرزا سلیم بیگ بھی میری طرح عینک کے بغیر مجلسوں میں مسکراہٹوں کی پھلجھڑیاں بکھیرا کرے گا؟۔ معزز قارئین! لفظ ’’ سلیم‘‘ کے معنی ہیں (سلامت روی سے چلنے والا ، حلیم ، بُردبار، نرم دِل، دُور اندیش صراۃ ِ مستقیم پر ثابت قدم ، خُدا اور رسولؐ میں پا مردی دِکھانے والا ) ۔ متحدہ ہندوستان کی تاریخ میں چشتیہ سلسلے کے ولی حضرت سلیم چشتی ؒ ( 1478ئ۔ 1572ئ) کا تذکرہ ملتا ہے ۔ مُغل بادشاہ جلال اُلدّین اکبر ، مُغلیہ سلطنت کے وارث ، کی دُعا کے لئے حضرت سلیم چشتی ؒ سے دُعا کے لئے اُن کے گائوں سکری گیا تھا پھر حضرت سلیم چشتی ؒکی دُعا سے شہزادہ سلیم پیدا ہُوا جس ،نے جوان ہو کر دربارِ اکبری کی رقاصہ نادرہ المعروف انار ؔکلی سے محبت کی ، اکبر بادشاہ نے اپنی سلطنت کے وارث شہزادہ سلیم کو تو، کچھ نہیں کہا لیکن، انار کلی کو زندہ دیوار میں چنوا دِیا۔ انار کلی کا مزار پنجاب سیکرٹریٹ میں ہے لیکن، کسی دَور میں بھی انار کلی کو انصاف نہیں ملا؟۔ شہنشاہ جہانگیر اور اُس کی لاڈلی بیگم ملکہ نور جہاں کا مزار شاہدرہ لاہور میں ہے لیکن، اُن مزاروں پر کوئی بھی چراغ جلانے اور پھول چڑھانے جاتا ۔ ملکہ نور جہاں شاعرہ تھی ۔ اُس نے تو پہلے ہی یہ شعر کہہ دِیا تھا کہ … ’’بر مزارِ ما غریباں ، نَے چراغے نَے گُلے!‘‘ … O … یعنی۔ ’’ ہم غریبوں کے مزار پر کوئی بھی چراغ جلانے اور پھول چڑھانے نہیں آتا؟‘‘۔ سلطان سلیم اؔوّل ، سلطنت عثمانیہ کے پہلا پُر جلال بادشاہ (1512ء ) شام ، مصر ، حجاز ، دیار بکر ، آرمینیہ اور کُردستان کا بھی بادشاہ تھا ، جسے سب سے پہلے ’’ خادمِ حرمین شریفین ‘‘ کا خطاب دِیا گیا تھا ۔ حروفِ آؔخر کے طور پر مَیں آپ کی خدمت میں علاّمہ اقبالؒ کا یہ فارسی شعر پیش کر رہا ہُوں کہ … ہوشیار ! اے صاحب عقلِ سلیم ؔ! در کسینہامی نشنیدایں غنیم ! …O… معزز قارئین!۔ اِس شعر کا ترجمہ ۔ سیّد سلیم بخاری اور مرزا سلیم بیگ یا کسی اور سلیم ناؔمی شخص کے لئے نہیں ہے ، دراصل وزیراعظم عمران خان کے لئے ہے کہ ۔’’ اے عقلِ سلیم رؔکھنے والے شخص ! خبر دار رہ ! ۔ کہ دُشمن (بھارت) تیری گھات میں ہے‘‘ لیکن ، مَیں اپنے دونوں شاگردوں ۔ سیّد سلیم بخاری / مرزا سلیم بیگ کے لئے یہی دُعا کروں گا کہ ’’ جیوندے رَہوو!‘‘۔