نیویارک ( ندیم منظور سلہری؍ مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے امریکی تھنک ٹینک آن فارن ریلیشنز سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نائن الیون حملوں کے بعد پاکستان کا دوبارہ امریکی اتحاد کا حصہ بننا پاکستان کی سب سے بڑی غلطی تھی ،ان حملوں کی وجہ سے امریکہ کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت پڑی، ہمیں کہا گیا کہ آپ جہادیوں کے خلاف جنگ کریں، ہر کوئی جانتا ہے کہ جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس جنگ میں کس نے مجاہدین کو ہیرو بنایا ؟ امریکہ ہی تھا جو انکی مدد کرتا رہا، جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے بعد ان گروپوں کو پاکستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 200 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، امریکہ کو بھی اپنی پالیسیوں میں ٹھہرائو پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، امریکہ و دیگر طاقتوں کو سمجھنا چاہئے کہ افغان آپس میں لڑتے ضرور ہیں لیکن اگر انکے مشترکہ مفادات پر کوئی حملہ کر دے تو پھر وہ مل کر اسکے خلاف لڑتے ہیں ،وہ اپنے اوپر کسی کی جابرانہ پالیسی کو تسلیم نہیں کرتے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا افغان امن ڈیل پر دستخط ہونے والے تھے کہ صدر ٹرمپ نے مذاکرات کو معطل کرنے کا اعلان کر دیا،بات چیت ترک کرنے سے پہلے پاکستان سے مشورہ کرلیاجاتا۔اگر امریکہ نے افغانستان میں امن قائم کرنا ہے تو پھر اسکو وہاں سے اپنی فوجیں نکالنا ہونگی اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا ہونگے ، لڑنے سے مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھیں گے ۔ وزیراعظم نے کہا پاک فوج اور طالبان کے درمیان تعلقات رہے ہیں ،افغانستان میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لئے امریکہ کے کہنے پر ہماری فوج اور آئی ایس آئی نے القاعدہ اور طالبان کو ٹریننگ دی تھی، جب میں نے حکومت سنبھالی تو سب پر واضح کر دیا کہ دہشتگرد گروپوں کو ختم کرنا ہمارے منشور کا حصہ ہے ، جب پاکستان نے ان گروپوں کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کی تو بہت سارے ہمارے مخالف ہو گئے ، یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں طالبان کے کئی گروپ ملوث رہے ہیں،ہم اپنی سر زمین پر کسی دہشت گرد گروپ کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔اسامہ بن لادن کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا سابق صدر اوبامہ نے کہا تھا کہ ایبٹ آباد آپریشن سے پاکستان لا علم تھا۔ انہوں نے کہا جمہوری حکومتیں اخلاقیات کی بناء پر حکمرانی کرتی ہیں، جب ایسا نہ ہو تو پھر طاقت فوج کے پاس چلی جاتی ہے ، جب ہمیں حکومت ملی تو خزانہ خالی تھا، بدحال معیشت ورثے میں ملی، مجبوراً ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ،اگر مالی خسارہ حد سے تجاوز کر جائے تو اسکا اثر معیشت پر پڑتا ہے ، بدقسمتی سے ماضی کی حکومتوں نے اقتصادی معاملات کو بہتر طریقے سے نہیں چلایا، ہماری حکومت کو ایک نئے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا، پاکستان کی معیشت دیوالیہ ہونے والی تھی، چین نے ہماری بھرپور مدد کی۔انہوں نے کہا پاکستان خطے میں امن کا خواہشمند ہے ، پڑوسیوں کے ساتھ امن اور بہتر تعلقات کے لئے حکومت کی ہر کوشش کی فوج حمایت کر رہی ہے ، فوج نے سکیورٹی خدشات کے باوجود حکومت کے ہر اقدام کی حمایت کی ،پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل تخفظ حاصل ہے ، کرتار پور راہداری بھی کھول رہے ہیں، اگر فوج کی مرضی نہ ہوتی تو وہ ہمارے فیصلوں پر مزاحمت کرتی، افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ اگر میں دوبارہ مذاکرات کرتا ہوں تو فوج میرے فیصلوں کی حمایت کریگی، اسکو اعتراض نہیں ہو گا۔انہوں نے کہا جب میں وزیراعظم بنا تو میں نے مودی کو کہا کہ مجھ پر اعتماد رکھیں، فوج میرے ہر اقدام کی حمایت کریگی، پلوامہ حملہ میں ایک کشمیری نوجوان ملوث تھا، بھارت نے بغیر تحقیق کئے الزام پاکستان پر لگا دیا، ہم نے اسکے ثبوت مانگے تو بھارت نے ہم پر حملہ کر دیا، ہم نے جواب میں انکا ایک پائلٹ بھی پکڑ لیا، پائلٹ کو واپس کرنے کا مقصد کشیدگی کو ختم کرنا تھا لیکن انہوں نے اسکو ہماری کمزوری سمجھا، ہم نے مذاکرات کے لئے کہا لیکن وہ اس میں سنجیدہ نہیں تھے بلکہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ کرانے میں مصروف ہوگئے ۔نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم نے کہا جب ہم عالمی ثالثی کی بات کرتے ہیں توبھارت کہتاہے کشمیردوطرفہ مسئلہ ہے ،جب ہم دوطرفہ بات چیت چاہتے ہیں توبھارت مذاکرات سے انکارکردیتاہے ،بھارتی حکومت صرف آر ایس ایس کے ایجنڈے پر چل رہی ہے ۔انہوں نے کہا روس کے خلاف جہاداچھاتھا،امریکہ کے خلاف براہوگیا،پہلے غیرملکی تسلط کے خلاف لڑائی جہادتھی،اب دہشتگردی ہوگئی۔انہوں نے کہا موجودہ افغان طالبان 2001والے نہیں ،وہ بھی امن چاہتے ہیں،افغان طالبان کوبھی سمجھ آگئی ،وہ دنیاکوکنٹرول نہیں کرسکتے ،طالبان پورے افغانستان پرقبضہ نہیں کرسکتے ۔وزیراعظم نے کہا خواتین ،اقلیتوں کے تحفظ کے قوانین موجودہیں ،ان پرعملدرآمد کاعمل کمزورہے ،بدقسمتی سے ماضی میں ہمارے حکمرانوں نے خود کو قانون سے بالا تر رکھا،ماضی میں بڑے مجرموں کو سزا نہیں ہوتی تھی۔انہوں نے کہا جس طرح چین کرپشن سے نمٹاہے ،بدقسمتی سے میں نہیں نمٹ سکا۔وزیر اعظم نے موسمیاتی تبدیلی پر عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا پاکستان نے گزشتہ 5سال میں ڈیڑھ ارب درخت لگائے ،آئندہ 10 سالوں میں مزید 10ارب درخت لگانے کا منصوبہ ہے ،عالمی ماحولیاتی تبدیلی پر ساری دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا۔علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان سے ترک صدر رجب طیب اردوان نے ملاقات کی۔ وزیراعظم نے ترک صدر کو کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا۔وزیراعظم سے برطانوی ہم منصب بورس جانسن نے بھی ملاقات کی،جس میں دوطرفہ تعلقات اور کشمیر ایشو سرفہرست رہا۔عمران خان نے بورس جانسن کومقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت سے آگاہ کیا۔بورس جانسن نے کہا ہمیں کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سخت تشویش ہے ۔وزیراعظم سے چینی وزیر خارجہ بھی ملے ۔ ملاقات میں دو طرفہ امور کے علاوہ خطے کے بدلتے ہوئے حالات پر گفتگو ہوئی۔ چینی وزیر خارجہ نے کہا کشمیر ایشو پر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا جائیگا، بھارت کو بتا دیا تھا کہ کشمیریوں پر ظلم بند کیا جائے اور وہاں سے کرفیو ہٹایا جائے ۔وزیر اعظم سے سوئس کنفیڈریشن کے صدر نے بھی ملاقات کی۔