جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے 27اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف مارچ اور ڈی چوک میں دھرنے کا اعلان کر دیا۔ ان کا دعویٰ ہے وہ اس دھرنے سے حکومت کو چلتا کرینگے۔ اگرچہ جمہوری معاشروں میں اختلاف رائے پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی لیکن بعض اوقات ملک کی سلامتی، بقا اور تحفظ کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اپنے اختلافات کو کسی اور مناسب وقت کے لئے اٹھا رکھا جائے۔ اس وقت کشمیر کے حوالے سے ملک کو جس کشیدہ صورتحال کا سامنا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ملک کے تمام طبقات اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور سیاسی رہنماو زعما اس سلسلہ میں بھر پور کردار ادا کریں۔ مولانا کے دھرنے اور مارچ کو ملک کی موجودہ اندرونی و بیرونی صورتحال کے تناظر میں کسی طور بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگرچہ حزب اختلاف کی دو بڑی سیاسی جماعتیں بظاہر جے یو آئی کی دھرنے میں رفیق بننے پر آمادہ نظر نہیں آتیں لیکن مولانا کے اعلان سے مترشیح ہوتا ہے کہ وہ دورون پردہ مولانا کے حمایتی ہیں پھر بھی ملکی سلامتی کے حوالے سے حزب اختلاف کی سیاسی قیادت کے اس تعاون کو سراہا نہیں جا سکتا۔ملک کو درپیش موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ مارچ اور دھرنے کی بے وقتی کی راگنی کو ملتوی کر کے سیاسی قیادت عسکری قیادت کی طرح ہوش و خرد سے کام لے اور خالصتاً کشمیر کے حوالے سے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔ اس مقصدکے لئے مارچ بھی روا ہے اوردھرنا بھی جائز ہو گا۔