پندرہ بر س تو ہو چکے ہوں گے لیکن میں اس نوجوان کی آنکھوں میں چھپا خوف آج تک نہیں بھلا سکا ،وہ اکیس بائیس برس کا ایک میمن سیلزمین تھا ،کراچی میں رہنے والے جانتے ہیں کہ کراچی کے میمن کارو باری لوگ ہوتے ہیں یہ کسی پنگے میں نہیں پڑتے صبح سے شام تک کاروبار اور رات دیر تک کسی چائے خانے پر دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر دودھ پتی چائے کی چسکیاں اور گپیں ہانکنا انکا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے وہ بھی ایسا ہی ایک میمن نوجوان تھا پتلا دبلا اور درمیانے قدکا، وہ ایک سیٹھ کے پاس ملازم تھا، عید کے دن قریب تھے سیٹھ نے دیگر ملازموں کے ساتھ اسے بھی عیدی کی مد میں پانچ ہزار روپے دیئے جسے لے کر وہ موٹرسائیکل پر گھاس منڈی اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا کہ رنچھوڑ لین میں وہ کچھ ہوگیا جو اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا،اسے ایک جگہ پولیس کی موبائل کھڑی دکھائی دی پولیس والے ناکہ لگا کر شہریوں کے کاغذات چیک کررہے تھے ،کراچی میں لگے یا فیصل آباد کے گھنٹہ گھر پر اسکا ایک ہی مطلب ہوتا ہے ،وہ لڑکا بھی سمجھ گیا کہ رکنے کا مطلب پولیس والوں کو عیدی دینا ہے ،اس نے بریک لگائی اور موٹرسائیکل گھما کر موڑلی اسکی بریک لگانے اور یوں واپس مڑنے سے وہاں کھڑے پولیس اہلکار چوکنا ہوگئے ان میں سے دو نے اسے رکنے کے لئے آواز لگائی اور تیسرے نے کلاشن کوف کی لبلبی دبا دی ،کلاشن کوف کی نالی سے گولیاں نکلی اور میمن سیلز مین کے کمر میں پیوست ہوگئیں ،وہ چیختا کراہتاہوا سڑک پر گر گیا پولیس والے بھاگتے ہوئے اسکے پاس آئے دو نے کلاشن کوفیں تانیں اور تیسرے نے اسکی تلاشی لی پان کی پڑیا اور پانچ ہزار روپے کے سوا کیا نکلنا تھا لیکن معاملہ بڑھ چکا تھا پولیس والوں نے اسے ایک خطرناک دہشت گرد بنا ڈالا اس سے کلاشن کوف برآمد کروالی گئی اور اسے ایک سیاسی جماعت کے عسکری ونگ کا خطرناک دہشت گرد قرار دے دیا گیا، اس کی گرفتاری گولیوں کے تبادلے کے بعد بتائی گئی ایس ایس پی نے پولیس جوانوں کی خوب کمر ٹھونکی نقد انعام اور توصیفی اسناد بھی دیں ،ترقی کی سفارش بھی کی ،نیوز کانفرنس میں وہ کلاشن کوف بھی رکھی گئی تھی جو میمن سے برآمد کروا لی گئی تھی جس کی زنگ آلود نال دیکھ کر میرا ماتھا ٹھنکا، ایس ایس پی صاحب کا کہنا تھا پولیس مقابلہ ہوا ہے اور کلاشن کوف کی حالت بتا رہی تھی کہ وہ برسوں سے استعمال نہیں ہوئی میں اس کیس کے پیچھے لگ گیا، لڑکے کے گھر والوں سے رابطہ ہوا وہ بہت خوفزدہ تھے بات کرنے پر آمادہ ہی نہ تھے بڑی مشکلوں سے انہیں حوصلہ دلاسا دے کر ماجراپوچھا تو وہ پھٹ پڑے ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے دھمکی دی ہے کہ اگر زبان کھولی تو کاٹ دی جائے گی ،اس نوجوان کا سیٹھ بھلا آدمی تھا اسکے بھائی کی اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ کے برادر نسبتی سے اچھی سلام دعا تھی اس لئے معاملے کی انکوائری ہوئی اور وہ بے گناہ نکلا اسکے باوجود اسکا کیس ختم ہونے میں تین برس لگے، کیس ختم ہو گیا لیکن اسکا لنگ ختم نہ ہوا اسکی بغل میں ساری عمر کے لئے بیساکھی آگئی۔ میرے سامنے وفاقی دارالحکومت میں انسداد دہشت گردی فورس کے ہاتھوں مارے جانے والے نوجوان اسامہ ندیم ستی کی تصویر ہے اس تصویر میں اسامہ کی آنکھوں سے چھلکتے خواب دیکھے جاسکتے ہیں، اس عمر میں خواب ،امنگیں اور ارمان ہی تو ہوتے ہیں اسامہ کی آنکھوں میں بھی یہ سب کچھ تھا جو آن کی آن ختم ہو گیا،پولیس کا کہنا ہے کہ وائرلیس پر ڈکیتی کی اطلاع ملی تھی جس کے بعد کالے شیشوں والی مشکوک گاڑی روکنے کی کوشش کی گئی اور نہ رکنے پر ’’اے ٹی ایس ‘‘ اہلکاروں نے فائر کھول دیا ،پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق اسامہ کے جوان لاشے میں چھ گولیاں پیوست ہوئیں اور وہ زندگی کی بازی ہار گیا،ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد نے واقعے کی اطلاع ملنے پر ملوث اہلکاروں کو حراست میں لئے جانے کی اطلاع کے ساتھ ساتھ ٹوئٹ کیا کہ مشکوک کار کا تعاقب کیا گیا،اسلام آباد کے سیکٹر جی ٹین تک اس کارکا تعاقب کیا گیا جس کے بعد فائرنگ کی گئی ۔ سوال یہ ہے کہ مشکوک کار کو روکنے کے لئے کیا یہ ہی آخری حربہ رہ گیا تھا ؟اگر کسی کار کے کالے شیشوں کا ہونا ہی اسے مشکوک ٹھہراتا ہے تو اسلام آباد میں کالے شیشوںاور مشکوک نمبر پلیٹوں والی گاڑیاں تو عام پھرتی ہیں ،پولیس جانتی ہے کہ ان کالے شیشے والی لینڈ کروزروں اور ڈالوں پر ہاتھ نہیں ڈالنا لیکن یہاں یہ گاڑی 660سی سی کی تھی، قانون کو علم تھا کہ پارٹی ’’ہلکی اور عوامی ‘‘ ہے اس لئے اس کے لمبے ہاتھوں نے جا لیااور دائیں بائیںآگے پیچھے سے فائر کھول کر ایک نوجوان کی زندگی کی کتاب بند کردی ،سوال یہ ہے کہ ا س قتل کا محرک کیا تھا ؟ یہ غلطی سے ہوا ہے َ ایسا ہے تو کار کو گھیر کر فائر کیوں کیا گیا ؟ تعاقب کرتے ہوئے فائر کئے گئے تو گولیاں لگنے کے بعد مقتول کی گاڑی کسی سے ٹکرائی کیوں نہیں ؟ یا پھر نوجوان نے گولیاں کھا کر بریک لگالی تھی ۔۔۔یہ سوالات بہت اہم ہیں اب کہنے کو کہا جارہا ہے کہ اگر سانحہ ساہیوال کے ملزمان کو سزا دے دی جاتی تو یہ سانحہ نہ ہوتا اور جن کے حافظے میں نقیب اللہ کی زمین پر پڑی مڑی تڑی لاش ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر نقیب اللہ کے قاتلوں کو سزا دے دی جاتی تو سانحہ ساہیوال نہ ہوتا ۔۔۔ ہر سانحے کی دم کسی سانحے سے ملتی ہے ،بدقسمتی سے اس سے پہلے سانحہ ساہی وال میں حکومت انصاف کی فراہمی میں ناکام ثابت ہوئی تھی لیکن اب تو یہ واقعہ وفاقی دارالحکومت میں ہوا ہے۔ اسامہ کی تحریک انصاف کے پرچمی مفلر اورٹوپی میں تصاویر سوشل میڈیا پرپھیلی ہوئی ہیں اور کپتان کے ٹائیگرز میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے، وزیر اعظم نے اس واقعے پر نوٹس تو لیا ہے لیکن یہ بھی ہے کہ ایسے نوٹس تو لئے جاتے رہے ہیں ، وزیر اعظم کے پاس موقع ہے کہ وہ اس سلسلے کے سامنے فل اسٹاپ لگا دیں شائد ہم عام شہریوں کو جینے کا لائسنس مل جائے گا!!