’’سندھ کی سیاست میں آج کل کیا ہو رہا ہے‘‘ جب اسلام آباد کے ایک بیوروکریٹ نے مجھ سے پوچھا تب میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی جواب نہیں تھا کہ ’’جناب! آج کل سندھ کی سیاست میں اہم جماعتیں جے آئی ٹی۔۔۔۔جے آئی ٹی کھیل رہی ہیں‘‘ عدالت کے حکم پر سندھ حکومت نے تین جے آئی ٹیز کو اپنی ویب سائٹ پر کیا پیش کیا؛ سندھ کی سیاست میں ایک طرح ہنگامہ برپا ہوگیا۔ حالانکہ حکومت سندھ کی طرف سے مذکورہ جے آئی ٹی رپورٹس کو سرکاری طور پر منظرعام پر لانے سے مذکورہ جے آئی ٹیز کی رپورٹس پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ہاتھوں میں پہنچ چکی تھیں۔ کوئی کہہ رہا کہ فلاں رپورٹ درست نہیں ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ فلاں رپورٹ پر دستخط نہیں ہیں۔ کسی رپورٹ پر تین دستخط بتائے جا رہے تھے؛ کسی پر چار ؛ کسی پر ادھورے اور کسی پر پورے مگر جب حکومت سندھ کی طرف سے تین جے آئی ٹیز کی رپورٹس کو اپلوڈ کیا کیا گیا تب پورے سیاسی اور صحافتی حلقوں کی دوڑ اس طرف ہوگئی اور اس طرح حکومت سندھ کی ویب سائٹ بیٹھ سی گئی۔ اس کے بعد یہ اعتراضات اٹھنے لگے کہ سندھ حکومت نے کراچی کے مشہور علاقے لیاری کے مشہور کردار عزیر بلوچ کی جے آئی ٹی رپورٹ میں وہ باتیں کاٹ لی ہیں؛ جن میں اس نے مبینہ طور پر آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے سلسلے میں انکشافات کیے ہیں۔ حکومت سندھ اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کا یہ موقف رہا کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو کوئی آدھی رات کو بغیر دستخط والی رپورٹس دے جاتا ہے۔ اس وقت میڈیا اور سوشل میڈیا میں اس پر پہلے والی شدت تو نہیں ہے مگر اب جے آئی ٹی کے حوالے سے الزامات کی جنگ جاری ہے۔ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ عزیر بلوچ کو طاقتور بنانے اور اہلیان لیاری کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑنے والے ہاتھ پیپلز پارٹی کے تھے۔تحریک انصاف کے حامی حلقے عزیر بلوچ کی وہ تصاویر میڈیا کی زینت بنا رہے تھے جس میں عزیر بلوچ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سے ملتے نظر آ رہا ہے یا وہ ان کے ساتھ بیٹھا دکھائی دے رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا موقف تھا کہ وہ عزیر بلوچ کو جانتے تک نہیں۔ اب تو عزیر بلوچ نے عدالت سامنے ان اعترافات سے انکار کیا ہے جو انہوں نے جے آئی ٹی کے سامنے کیے تھے۔ جس میں اس نے تسلیم کیا تھا کہ اس نے دو سو کے قریب لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ اس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ ایران کے لیے جاسوسی کرتا رہا ہے۔ اس نے قبضوں اور بھتوں کے بارے میں بھی کھل کر بتایا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ یہ کام پولیس کے ساتھ مل کر کرتا رہا ہے۔منشیات کے زہر سے لیکر بارود زخائر تک اس نے جو کچھ جی آئے ٹی کے سامنے کہا تھا کہ سب کچھ بہت ہولناک تھا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کوئی سیاستدان اس کے ساتھ اپنے ماضی کے تعلقات کے بارے میں کچھ بھی کہنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے عزیر بلوچ نے جو کچھ بھی کیا وہ اکیلے کیا۔ حالانکہ اس شہر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ رحمان ڈکیت پر ہاتھ رکھنے والے کون تھے اور عزیر بلوچ کو پیپلز امن کمیٹی کا سربراہ بنانے والے کون تھے اور وہ کون تھے جنہیں عزیر بلوچ کروڑوں روپیوں سے بھرے بیگس دیا کرتا تھا۔ ہم اس سوال پر کیا سوچیں کہ عزیر بلوچ کے بارے میں تاریخ پورا سچ کب بیان کرے گی؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ جی آئے ٹیز کے منظرعام پر آنے کے موسم میں ایک رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔ حکومت سندھ نے بھی تین رپورٹس کو اپنی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا تھا۔ ان میں ایک رپورٹ فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے سابق سربراہ نثار مورائی کی اور دوسری رپورٹ بلدیہ فیکٹری کے حوالے سے تھی۔ نثار مورائی کی جے آئی ٹی رپورٹ تو زیادہ تر کرپشن کے حوالے سے تھی۔ اس نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سامنے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ عہدے پر رہتے ہوئے اس نے کروڑوں روپے کی کرپشن کی اور وہ سرمایہ اس نے پیپلز پارٹی کے ان رہنماؤں میں بانٹا تھا جنہوں نے اسے اس سیٹ پربٹھایا تھا۔ اس طرح وہ نثار مورائی جس کے بارے میں سندھ کے مشہور شہر مورو کے سارے لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ اس کے پاس کچھ نہیں تھا اور وہ کس طرح ارب پتی بن گیا؟ اس نثار مورائی کے بارے میں خاموشی رہی۔ حالانکہ وہ کرپشن کا مجرم تھا اور ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کرپشن کا پیسہ کرائم میں استعمال ہوتا ہے۔ کرپشن اور جرم کو الگ الگ کرنا ممکن ہے۔ مگر چوں کہ نثار مورائی کی جے آئی ٹی رپورٹ میں آگ اور خون کی کہانیاں نہیں تھیں اس لیے اس کو کم اہمیت دی گئی۔ جب کہ لیاری کے عزیر بلوچ کے بارے میں ایک شور برپا رہا۔ اس طرح میڈیا اور ہمارے سیاستدانوں نے اس سانحہ بلدیہ فیکٹری کے بارے میں کچھ نہیں کہا جس میں تین سو کے قریب مزدور جل کر کوئلہ ہوگئے تھے۔ میڈیا کے ایک حصے نے جب سانحہ بلدیہ کے بارے میں کچھ کہا تو اس کو خاص جواب نہیں ملا۔ حالانکہ سب سے بڑا سانحہ تو بلدیہ فیکٹری کا تھا۔ بلدیہ فیکٹری کے سانحے میں کون ملوث ہے؟ اس بارے میں سب جانتے ہیں مگر کوئی کیا کہے؟ جے آئی ٹیز پر پیدا ہونے والا تکرار ایک بلیم گیم کے مانند تھا۔ ایک پارٹی کہہ رہی تھی کہ لیاری میں فلاں ملوث ہے اور دوسری پارٹی کے رہنما ماضی کے واقعات دہرا رہے تھے۔ ہر کوئی اپنی اپنی بولی بول رہا تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا عزیر بلوچ نے فلاں رہنما کے کہنے پر قتل کیے اور کوئی دعوی کر رہا تھا کہ فلاں رہنما نے سے فلاں جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ یہ سب کچھ چلتا رہا مگر اس سلسلے میں سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ تھی کہ میڈیا اور ہمارے معتبر سیاسی رہنماؤں نے عزیر بلوچ کے بارے میں تو بات کی اور کسی حد تک ہی سہی مگر انہوں نے سانحہ بلدیہ فیکٹری میںملوث افراد کے بارے میں بھی ہونٹ ہلائے مگر میڈیا اور ہمارے سیاستدان ان انسانوں کے بارے میں خاموش رہے جن کا لہو لیاری کی گلیوں میں بہایا گیا تھا۔ جن کو بلدیہ فیکٹری میں جلا کر بھسم کردیا گیا تھا۔ ان کے بارے کسی نے کچھ نہ پوچھا۔ کیوں؟ کیوں کہ وہ غریب اور فرش نشین تھے؟ کیوں کہ ان کے بارے میں احتجاج نہیں ہوئے؟ کیوں کہ ان ورثاء نے انصاف کے لیے عدلیہ کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا؟ کیوں کہ ان کے بارے میں صوبائی اور قومی اسمبلی یا سینیٹ میں کوئی واک آؤٹ نہیں ہوا۔ یہ بات بھی بھی ہم ہے کہ لیاری سے لیکر بلدیہ فیکٹری تک جو سینکڑوں لوگ جو مجرم سیاست کا نشانہ بنے اور اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے مگر ان کے خاندان تو اب بھی ہیں؟ وہ جو اپنے خاندانوں کے کفیل تھے؛ ان کے بعد اب ان کے خاندانوں کا کیا حال ہے؟ کیا ان کے بچے تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکول جاتے ہیں؟ یا انہوں نے والد کے مرجانے یا جل جانے کے بعد پڑھنا چھوڑ دیا اور وہ چائلڈ لیبر میں شامل ہوگئے یا وہ راستوں پر بھیک مانگنے کے لیے مجبور ہیں؟ ان کے بارے میں مکمل معلومات نہ سہی مگر پھر بھی ایک کٹی پٹی ادھوری کہانی ہی سہی مگر کون بتائے؟ کسی میڈیا گروپ نے اور کسی سیاسی جماعت نے ان انسانوں کے بارے میں کچھ نہیں کیا اور کچھ نہیں کہا۔ان کا خون دھرتی پر گرا اور جذب ہوگیا۔ وہ جلائے گئے اور ان کی راکھ اڑ گئی۔ اس لگنے والی آگ اور بہنے والے لہو کے بارے میں کسی نے کچھ نہیں کہا۔ حالانکہ ہونے کو بہت کچھ ہوسکتا تھا اور ’’تھا‘‘ کیوں؟ اس وقت بھی یہ کام ہوسکتا ہے کہ ہم مقتولوں کے مظلوم خاندانوں کے پاس جائیں اور ان سے معلوم کریں کہ ان کے پیارے کس طرح موت کی وادی میں اتارے گئے اور ان کے جانے کے بعد ان کے خاندان دنیا کی خوشیوں سے کتنے دور ہیں؟