پاکستان مسلم لیگ (نواز) اس بات پر خوش ہے کہچیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی فل بینچ نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کے ہائیکورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھ کر نیب کی اپیل مسترد کر دی ہے۔ چیف جسٹس کا بجا طور پر کہنا تھا کہ نیب مطمئن کرے کیونکراسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے دی گئی ضمانت معطل کی جائے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ جواب پاکستان کے نئے چیف جسٹس ہونگے نے کہا کہ نیب کے وکلا عدالت کو مطمئن نہیں کرسکے لہٰذا کیسے ضمانت منسوخ کی جائے۔ وزیراطلاعات فواد چودھری نے بجا طور پر کہا ہے کہ اس فیصلے سے زمینی حقائق پر فرق نہیں پڑے گا۔ جیسا کہ محترمہ مریم نواز نے اپنی ٹویٹ میں بھی کہا ہے کہ جشن اس وقت منائیں گے جب ان کے والد صاحب جیل سے (ضمانت پر) رہا ہو جائیں گے۔ وزیر اطلاعات نے مسلم لیگ (ن)کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ نئی قیادت منتخب کر لیں حالانکہ یہ استحقاق حکمران جماعت کا نہیں ہے۔ ہر سیاسی جماعت کو مکمل اختیار ہے کہ وہ کسے اپنا قائد منتخب کرتی ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے بھی عندیہ دیا ہے کہ ہم عدالت عظمیٰ کا فیصلہ من و عن تسلیم کرتے ہیں، اس کے بغیر نیب کے پاس چارہ کار بھی کیا تھا؟۔ دلچسپ ریمارکس بینچ میں شامل جسٹس گلزار احمد نے دیئے کہ چین میں تو کرپٹ لوگوں کو مجرم قرار دے کر فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے، یقینا فاضل جج نے بڑی پتے بات کی ہے لیکن مقام شکر ہے کہ ابھی تک یہ نوبت نہیں آئی، پاکستان میں عدالتی نظام میں بہت خامیاں ہونگی لیکن پھر بھی برا بھلا نظام چل رہا ہے۔ ویسے نیب کابس چلے تو وہ کرپشن کے لیے پھانسی کی سزا ہی تجویز کر دے۔ نیب سے سب نالاں ہیں، خواہ وہ حکمران جماعت ہو یا اپوزیشن، لیکن وہ اپنا کام کیے جا رہا ہے، بالکل اسی طرح جیسے نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں ان کے ہی ساتھی سینیٹر سیف الرحمن احتساب بیورو چلا رہے تھے۔ احتساب بیورو کا مقصد ہی پیپلزپارٹی کے گرد گھیرا تنگ کرنا تھا، مزید برآں یہ احتساب بیورو کی ہی انکوائریاں اور کیسز تھے جو بعدازاں پیپلزپارٹی کو مطعون کرنے کے لیے نیب کے کام آئے۔ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد جب میاںنواز شریف نے سادگی اپنانے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے احکامات پر تعمیر کروائے وزیراعظم سیکرٹریٹ جو سیکرٹریٹ سے زیادہ مغلیہ دور کا محل لگتا ہے خالی کر دیا لیکن اس وسیع وعریض عمارت میں سیف الرحمن کا دفتر برقرار رہا۔ میری ان سے اچھی یاداللہ تھی اور کئی بار ان سے ملنے وہاں گیا۔ باقی دنیا سے کٹے ہوئے اپنی ہی دھن میں مست سیف الرحمن اپنے دفتر میںکئی ٹیلی فون رکھے بیٹھے ہوتے تھے، کئی بار میرے سامنے وہ مختلف اداروں کو فون پر احکامات دیتے کہ فلاں کا پاسپورٹ چھین لو، فلاں کو گرفتار کر لو، فلاں کے خلاف کارروائی تیز کرو۔ میں نے ان کے دفتر میں بڑے بڑے چغادریوں کو بھیگی بلی بنے دیکھا لیکن وہی سیف الرحمن جنرل پرویزمشرف کے ’کو‘ کے بعد کراچی کی لانڈھی جیل میں پابند سلاسل تھے وہاں زاروقطار روتے تھے۔ آصف زرداری بھی اسی جیل میں قید تھے۔ انھوں نے میاں نواز شریف کو تومعاف کردیا لیکن انھیں نہیں کیا، اب سیف الرحمن قطر میں بیٹھے کاروبار کر رہے ہیں۔ نواز شریف کے حالیہ دور حکومت میں بھی ان کا سلسلہ کا روبار جاری رہا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خود بھی بینک ڈیفالٹر تھے، ان کے ذمے ایک بینک کے سترکروڑ روپے واجب الادا تھے۔ جب اس بینک کے اعلیٰ عہدیدار نے رقم واپسی کا تقاضا کیا تو سیف الرحمن نے اسے بھی اٹھوا کر جیل میں ڈال دیا۔ ان کی جان میں نے شہبازشریف کے ذریعے چھڑوائی۔ سیف الرحمن کی اس کتھا کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج نیب جو کارروائیاں کر رہاہے، اس کے پشت پناہوں کا بھی ایک روز حساب ہو گا۔ نہ جانے ہمارا حکمران طبقہ احتساب کے نام پر ایسی کارروائیاں کیوں کرتا ہے جس سے انتقام کی بوآتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا کوئی منصفانہ اور شفاف طریقہ کار وضع کرنا ضروری ہے جو اب تک نہیں ہوسکا۔ حکمران جماعت تحریک انصاف کا تو نعرہ ہی یہ ہے کہ ہم کرپشن کا صفایا کرنے آئے ہیں لیکن اس کا کوئی ڈھب کا طریقہ کار بنانا ضروری ہے۔ ہم ان کالمز میں کئی بار لکھ چکے ہیں کہ نیب تو جنرل پرویزمشرف نے احتساب سے زیادہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے بنایا تھا۔ نیب قانون میں کچھ بنیادی سقم موجود ہیں جو نہ صرف پاکستان میں مروجہ عدالتی نظام سے لگا نہیں کھاتے بلکہ قانون کی عملداری اور شفافیت کے تقاضوں کے بھی منافی ہیں۔ مثال کے طور پر نیب کسی بھی شخص کو کرپشن کے الزام میں گرفتار کر کے نوے روز تک اس کا ریمانڈ لے سکتا ہے۔ اور اس با رے میں کوئی واضح پیمانہ موجود نہیں ہے، اسی بنا پر وہ بعض ملزموں کو سنگین الزامات ہونے کے باوجود گرفتار نہیں کرتا اور بعض جب نیب کی پیشی بھگتنے جائیں انھیں اچانک گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور جومنی لانڈرنگ کیس میں ملوث قرار دیئے گئے ہیں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے کیونکہ پاکستان میں رائج قانون کے مطابق ملزم جب تک مجرم ثابت نہ ہوجائے ملزم قرار پاتا ہے۔ لیکن نیب جس کے خلاف ریفرنس دائر کرتاہے وہ اس وقت تک مجرم رہتا ہے جب تک وہ ثابت نہ کردے کہ وہ ملزم تھا۔ اس طرح کرپشن کے نام پر کسی بھی شخص کو اٹھایا جا سکتا ہے۔ بعد از خرابی بسیار وہ بری بھی ہو جائے تو اس کی شہرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ ہو چکا ہوتا ہے۔ انصاف کے تقاضوں کے خلاف ایک اور روایت چل پڑی ہے، وہ ہے ہر معاملے میں جے آئی ٹی کا قیام۔ حالیہ برسوں میں سانحہ ماڈل ٹاؤن سے لے کر میاں نوازشریف کے خلاف ریفرنس اور آ صف زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں جے آئی ٹی بنائی گئی۔ دیکھا دیکھی اپوزیشن کی طرف سے بھی ہر معاملے میں جے آئی ٹی کے قیام کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ ملک میں گیس اور بجلی کی قلت کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی جائے۔ اسی طرح مریم اورنگزیب جو مسلم لیگ (ن) کی ترجمان ہیں، کہتی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ باجی کی بیرون ملک جائیدادوں کا کھرا تلاش کرنے کے لیے جے آئی ٹی بنائی جائے۔ جے آئی ٹی جس میں ایف آئی اے، آئی ایس آئی، ایم آئی اور دیگر سرکاری ادارے شامل ہو سکتے ہیں بھی انصاف کے بعض بنیادی تقاضوں کی نفی ہے۔ جے آئی ٹی نے ایک طرح سے خصوصی عدالتوں جیسا روپ دھار لیا ہے۔ جس انداز سے حال ہی میں آصف زرداری اور فریال تالپور کے خلاف تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی گئی اور اس کی رپورٹ قبل از وقت افشا کر دی گئی اس سے بھی تاثر ملا کہ جو رپورٹ میں کہا گیا ہے وہی سچ ہے، اس طرح نہ صرف انصاف کے تقاضوں کی نفی ہو رہی ہے بلکہ انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات کی علیحدگی کا نظام بھی گڈمڈ ہو کر رہ گیا ہے۔ اگرچہ بعض حساس معاملات میں جے آئی ٹی بننا ضروری ہوتا ہے لیکن اس کا عمومی قیام احسن اقدام نہیں۔ جہاں تک سپریم کورٹ کا تعلق ہے وہ ٹرائل کورٹ نہیں ہے بلکہ وہ خود ٹرائل کر نے کے بجائے جے آئی ٹی سے تحقیقات کرواتی ہے لیکن عمومی طور پر جے آئی ٹی کی روایت ہمارے عدالتی نظام پر عدم اعتماد کے مترادف ہے اور اس کے ذریعے وہ ادارے جن کا انصاف فراہم کرنے سے کوئی تعلق نہیں وہ جج اور پراسیکیوٹر دونوں بن جا تے ہیں۔