یہ لوگ سمجھتے کیوں نہیں؟ مسئلہ اب عمران خاں نہیں۔عمران خاں کا ظہور تو محض ایک حادثہ تھا، جو اچانک رونما ہوا۔ حادثات مگر اچانک رونما نہیں ہوتے۔ عمران خاں تو میرے آپ کی طرح محض ایک عام انسان ہے۔خطا کا پتلا۔ بہتے جذبات کی رو میں جسے میں نے اور آپ نے اچانک اُچھالا اور اپنا رہبر ورہنماء بنا لیا۔ ساری امیدیں اُسی سے وابستہ کر لیں۔یہ حادثہ مگر راتوں رات رونما نہیں ہوا ۔ اس کے پیچھے پچھتر سال کارفرما ہیں۔اوپر تلے ناکام نسلیں ایندھن بنیں تو ہی حادثہ رونما ہوا ۔ ایک اور نسل راکھ ہونے کو تیار ہے۔ ہماری آپ کی نسل۔ ہم سے اگلی نسل نے مگر اپنا راستہ خود چن لیا ہے۔ صدیوں پر محیط قوموں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے ، صرف حیوان نہیں، انسان بھی ہمیشہ سر سبز چراگاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ اب اگر ہمارے نوجوانوں کی اکثریت اپنا وطن، اپنا گھر بار چھوڑ کر سات سمندر پار ہجرت کا خواب آنکھوں میںسجائے پھرتی ہے تو اس کو دوش دینا کیسا؟کچھ اور نہیں ، سب کچھ مٹا کر نئے سرے سے سب کچھ نیا لکھنے کی ضرورت ہے۔ زندگی میں از کارِ رفتہ سپاہی کم ہی کبھی اس قدر مایوس ہوا ہوگا۔ اس قدر مجبوری اور بے بسی کے احساسات نے شاید ہی کبھی یوں گھیرا ہو۔خوف ہے، جبر ہے جو فضاء میں تیر رہاہے۔ سانس لینا دوبھر ہے۔ابھی کچھ روز کی بات ہے۔ رات گئے سات سمندر پار سے ایک عزیز برخوردارنے چھوٹا سا برقی پیغام لکھ بھیجا،، ’انکل ، بی کیئر فل۔ دے آر ناٹ گڈ پیپل۔‘از کارِ رفتہ سپاہی اس سے بڑھ کر اب اورکیااحتیاط برتے۔ لکھنا چھوڑ دے؟ یہ دن ان کاموں کے واسطے اچھے نہیں۔دے آر ناٹ گڈ پیپل۔ ناچیز کہ پیشہ ور صحافی نہیں۔طبعاً کم آمیز اور آدم بیزار ہے ۔ باخبر تو ہر گز نہیں۔دو چار ہفتوں پہلے مگر کچھ اڑتی اڑتی بات کانوں میں پڑی۔ جزئیات کے باب میں ہونٹوں کو سیئے رکھا۔سامان ابھی بہت پڑا ہے۔بہت سوں کا پڑا ہے۔ کیا خدا سے ڈرتے نہیں؟کیا نہیںجانتے رات کے اندھیرے میں چھپے گناہوں کو بے نقاب کرنا جرم ہی نہیں ظلم بھی ہے۔ خود خدا چاہتا تو ہمارے اعمال کو ہماری پیشانیوں پر چپکا دیتا۔ یوں توبہت مشکل ہو جاتی۔ ایک فرد کو بے پردہ کرتے ہیں تو کیا نہیں جانتے کہ اس سے جڑے کتنے گھرانے برباد ہو تے ہیں؟کیاکوئی پوچھنے والا نہیں کہ کس قانون کے تحت شہریوں کی نگرانی کی جارہی ہے؟ پرائیویٹ گفت و شنید ریکارڈ کی جاتی ہیں ۔ فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ سرِ عام نشر کی جاتی ہیں۔ کھڑے کھڑے غیر قانونی مواد کی اصابت کے بارے میں فیصلے بھی صادرفرما دیئے جاتے ہیں۔کیا دنیا میں ریاستیں اپنے ہی شہریوں سے یوں بھی برتتی ہے؟ کیا نہیں جانتے کہ نفرت کی جڑیں زمین میں گہری ہوتی چلی جا رہی ہیں۔خلیج بڑھ رہی ہے۔اِدھر تماشا ہوتا ہے ، اُدھرسرے شام وکیلوںکا جانا پہچانا گروہ استعفے کا مطالبہ داغ دیتا ہے۔چندمیڈیا ہائوسز کے کارندے اودھم مچا دیتے ہیں۔کیا اب یہ عدلیہ کو دبائو میں لانے کا حربہ نہیںہے؟اب ہونا ہو، دو برس پہلے تو تھا۔دو برس پہلے جب کسی کے سات سمندر پار پڑے اثاثوں کی بات چلی تھی۔بات تومگر آگے چلی ہی نہیں تھی۔ بھائیوں نے کہا کہ ہمارے ایک بھائی پر نہیں خود ہم سب کی آزادی پر حملہ ہے۔سب چھوڑ کر محض اصرار ہوا کہ یہ بتایا جائے وہ کون ہے کہ جس نے ہمارے بھائی کی خفیہ نگرانی کی؟دو برس گزر گئے، تحریری فیصلہ کسی اور نے دیکھا ہو تو دیکھاہو،اس ناچیز کی آنکھوں کے سامنے سے تو نہیں گزرا۔ عدالت کے سامنے سوال جائیدادکے بٹوارے کا نہیں۔طرفین میں سے کسی مجرم کونہیں پکڑنا۔سزا نہیں سنانی۔ یہاں معاملہ Adversial نہیں ہے۔ایک الجھن کا حل ڈھونڈنا ہے۔الجھن کا حل ڈھونڈنے سے گھبرا کیوںرہے ہیں؟جاننا تو محض یہ ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینے کی ذمہ داری کس کی ہے؟اگرچہ اس سوال کا جواب آئین میں بہت صراحت کے ساتھ درج ہے،درجنوں فریق ہیں مگر جو پیر کو علی الصبح دلائل کے انبار لگانے کو تیار بیٹھے ہیں۔ ہر معاملے پر دلائل کے انبار لگانے کو تیاربیٹھے ہیں۔صرف ایک معاملے پر بات کرنے کو مگر تیار نہیں۔ انتخابات پر بات کرنے کو تیار نہیں ۔ جمہوریت مانگتے ہیں، مگر ایسی جمہوریت کہ جس میں انتخابات نہ ہوں۔ پارلیمانی جمہوریت مانگتے ہیں،مگر پارلیمان ایسی کہ جس میں اپوزیشن نہ ہو۔ عدلیہ ہو کہ جس میں نا مطلوب جج نہ ہوں۔ الیکشن کمیشن ہومگر دَم نہ ہو۔نگران حکومت ہو، جو غیر جانبدار نہ ہو۔ نیب ہو جو صرف مخالفین کو پکڑے۔معاشی بحرانوں میںگھری قومیں اپنے پائوں پر دوبارہ کھڑی ہو جاتی ہیں۔ ادارے جہاں منتشر ہو جائیں،تباہی وہاںمقدر ٹھہرتی ہے۔گورنر وں نے ہاتھ اٹھا لیا۔ ایک نے کہا میں نے تو اسمبلی توڑی ہی نہیں، تاریخ کیوں دوں؟ دوسرے بولے، حالات سازگار نہیں۔عدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا، بولے ہمارا تو یہ کام ہی نہیں۔صدر نے تاریخ دی تو سب چیخ اٹھے کہ آئین شکنی ہو گئی۔ نوے دن میں انتخابات کی کڑی شرط سے کسی کو انکار نہیں۔بس انتخابات قبول نہیں۔انتخابات ہوں گے،ضرور ہوں گے مگر اسی وقت ہوں گے جب جد امجد جنرل ضیاء الحق کے کلیئے کے مطابق نتائج’ مثبت‘ آنے کا یقین ہو گا۔ بوجھ اب عدلیہ پر ہے۔ عدلیہ کے پانچ ججوں کے خلاف مہم ایک عرصے سے جاری ہے۔چند روز قبل سوشل میڈیا پر نا مطلوب ججوںکی تصاویر کے ساتھ تضحیک آمیز ٹرینڈ سرِ عام شروع کیا گیا۔ ججوں سے منسوب ’جرائم‘ کی فرداََ فرداََ فہرست ایک خاتون سے وابستگی دکھانے والے جانے پہچانے اکائونٹس سے جاری کی گئی۔کیا ایک بارپھر تقسیم مقصود ہے؟کیا پھرکسی ’ہمنوا‘کی تلاش ہے؟ کیوں نہ فل کورٹ بنا دیا جائے؟ کیوں نہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ سو موٹو لینا درست ہے بھی یا کہ نہیں؟ کیوں نا آڈیو پر بات کر لی جائے؟ کیوں نہ اس سوال کا جائزہ لے لیا جائے کہ کیا کوئی قائدِ ایوان پانچ برسوں کے لئے منتخب کردہ اسمبلی توڑ بھی سکتا ہے یا نہیں؟ ڈاکٹر حسن عسکری نے کیا خوب جملہ کہا،’دعویٰ پارلیمانی جمہوریت کاہے، سوچتے آمریت میں ہیں۔‘ خاتون تو محض ایک کھلونا ہے۔ چابی بھرو تو جو آگ اگلتا ہے۔ جو کچھ سرگودھا میں کہا گیا، اگر عمران نے کہا ہوتا؟ نام نہاد مغرب زدہ جمہوریت بازوں کو مگر خاتون کی شعلہ نوائی پر کوئی اعتراض نہیں۔ اردو اور انگریزی کے بڑے بڑے میڈیا ہائوسز کو بھی کوئی اعتراض نہیں۔ ایک مخصوص گروہ کے زیرِ اثروکلاء تنظیموں کو بھی کوئی اعتراض نہیں۔ کچھ اور بھی ہیں جنہیں کوئی اعتراض نہیں۔بنچ کی ساخت پر مگر یہ سب معترض ہیں۔ سو موٹو پر انہیں اعتراض ہے۔ نوے دن کے اندر عوام کو حق رائے دہی لوٹائے جانے پر انہیں اعتراض ہے۔چیف جسٹس کے اختیارات پر انہیں اعتراض ہے۔ خدا چیف جسٹس کی حفاظت فرمائے۔کیا یہ نہیں جانتے کہ مسئلہ اب عمران خاں نہیں۔عمران خاں تو محض ایک حادثہ ہے ۔ کوئی بھی حادثہ راتوں رات رونما نہیں ہوتا۔