رزق کا تعلق تعلیم اور ذہانت سے ہوتا تو ارب پتی طارق چوہدری ہوتے، حاجی اسلم نہیں۔ بلّے بلّے حاجی صاحب۔ ہر آدمی مختلف ہے، ہر آدمی منفرد ہے لیکن حاجی اسلم کے کیا کہنے۔ کیا کہنے حاجی اسلم کے۔ ایسا آدمی دیکھا نہ سنا۔ سوشل میڈیا کے ناظرین حاجی صاحب سے خوب واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ حاجی صاحب ایک روزنامے کے مالک و مدیر ہیں۔مگر یہ نہیں جانتے کہ حاجی اسلم دو ٹیکسٹائل ملوں کے مالک ہیں۔سوشل میڈیا کے ناظرین ہر پندرہ بیس دن کے بعد کسی بزرگ میّت کے ساتھ ان کی تصویر ملاحظہ کرتے ہیں۔ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ بیس پچیس روز پہلے ہی اس آدمی کا انٹرویو ان کے اخبار ’’ڈیلی یارن‘‘ میں چھپا ہوتاہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وقفہ بڑھتا جا رہا ہے۔صرف اس لیے نہیں کہ 1947ء کے ہنگام لدھیانہ میں جیتیبزرگوں کی تعداد کم ہو گئی بلکہ اس لیے کہ بوڑھے جاٹوں کی اکثریت اب انٹرویو پہ آمادہ نہیں ہوتی۔ ایک دو بار تو ایسا بھی ہوا کہ کیمرے لے کر کسی گھر میں داخل ہوئے تو بوڑھا آدمی بھاگ گیا۔ حاجی صاحب اس پر پریشان نہیں ہوتے، ہنستے ہیں۔ پریشان ہونا اور لڑنا جھگڑنا ان کا شیوہ نہیں۔ اس طرح کے معاملات میں الجھاؤ کا شکار ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ برا بھلا بھی کوئی کہے تو وہ مسکرایا کرتے ہیں۔ صاف دل، صاف نگاہ، حاجی صاحب ایک مسلمان آدمی ہیں لیکن ایک عجیب وغریب مسلمان۔ حاجی اسلم کی داستانِ حیات ایسی ہے کہ ایک مکمل کتاب اس پر لکھی جا سکتی ہے۔ پیدا وہ افریقہ میں ہوئے بسر برطانیہ اور پاکستان میں کی۔ یہ وہ نسل تھی، 1930ء کے عشرے میں، جس نے روزگار کے لیے ہجرت کی تھی۔ افریقہ میں حالات بگڑے تو ان لوگوں نے انگلستان کا رخ کیا۔ لٹ لٹا کر نہ سہی مگر کچھ زیادہ اچھے حال میں ان کا خاندان برطانیہ وارد نہ ہوا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے اثرات باقی تھے۔ خودانگلستان کے اپنے شہریوں کا حال اچھا نہ تھا۔ حاجی صاحب کے خاندان نے ایک کمرے کا مکان کرایے پر لیا۔ ایسا مکان، جسے گرم رکھنے کا سرے سے کوئی انتظام نہ تھا۔ چودہ سالہ محمد اسلم نے ایک دن والدِ گرامی سے سوال کیا: آپ کا ہدف کیا ہے؟۔ کتنا پیسہ جمع ہو جائے تو آپ پاکستان کا رخ کریں گے؟۔ باپ نے بیٹے کو ڈانٹ دیا۔ ہدف سے کیا مطلب؟ پیسے کا کیا سوال؟ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اب ہمیں یہیں رہنا ہے۔ جواں سال محمد اسلم خاموش رہا۔ ادب مانع تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ چھوٹی موٹی نوکریاں کرتا رہا۔ کبھی بس کا کنڈکٹر ہوا، کبھی کارخانے میں مزدوری کی۔ پچیس ہزار روپے جمع ہو چکے تو فیصل آباد پہنچا۔ افراطِ زر کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ آج کے کم از کم پچاس لاکھ روپے کے برابر تھے۔ شہر کے وسط میں حاجی صاحب نے ایک بہترین دکان کرایے پر لے لی۔ کرایہ؟ پوچھا نہیں‘ پانچ سو روپے ماہوار سے زیادہ کیا ہوگا۔ یہاں وہ سلے سلائے ملبوسات بیچنے لگے۔ زیادہ تر بچوں کے ملبوسات۔ ریاکاری سے پاک، خوش اخلاق آدمی۔ انسان دوستی محمد اسلم کی رگ رگ میں تھی۔ گاہکوں کے ساتھ کشادہ دلی سے پیش آتا۔ چائے پلا دیتا‘شربت پلا دیتا۔ اکنّی کی ایک پیالی ہوا کرتی تھی۔ رفتہ رفتہ کاروبار چمک اٹھا اور ایسا چمکا کہ ہن برسنے لگا۔ اسی روپے سے حاجی صاحب نے ایک چھوٹی سی ٹیکسٹائل فیکٹری قائم کی۔ یورپ کی ایجاد کردہ،نئی طرز کی پارچہ بافی۔ اسے نیٹ وئیر کہا جاتاہے۔ یعنی تانے بانے کی بجائے دائرے میں گھومتا ہوا دھاگہ۔ قمیض شلوار کی طرح آرام دہ۔ برطانیہ سمیت وسطی یورپ تصنع اور تکلّف سے نجات پا رہا تھا۔ خاندان کے باقی افراد لندن اور سکاٹ لینڈ میں مقیم رہے۔ ان کے بڑے بھائی گلاسگو میں ہوتے ہیں۔ کاروبار چمکا تو حاجی صاحب نے برآمد کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ دوسروں سے بات کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ خاندان کے اپنے لوگ جو برطانیہ میں موجود تھے۔ نہ صرف وہ ان کے گاہک بنے بلکہ سرمایہ کاری بھی کی۔ روپیہ ڈوبنے کا سوال ہی نہ تھا۔کار وبار میں اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے۔ کوئی دن گزرے تھے کہ محمد اسلم نے، جو اب حاجی اسلم ہو چکے تھے، ایک اور فیکٹری خرید لی۔ پھر ایک اور۔ ایک اساطیری ٹرانسپورٹر اور لیڈر چودھری نذیر سے۔ پارچہ بافی کی صنعت کو بحران نے آلیا۔ دوسرے لوگ روتے رہے۔ خوش تو حاجی صاحب بھی نہیں تھے مگر روئے نہیں۔ چڑچڑے پن کا شکار کبھی نہ ہوئے۔ عشروں کی آمدن سے جو خریدا تھا‘ ایک ایک کر کے بیچنے لگے۔باقی ماندہ ملازمین کیلئے لنگر باقی رہا۔ تین برس ہوتے ہیں، ان سے ملنے گیا تو اسی لنگر کا کھانا کھلایا۔ خود بھی وہی کھایا کرتے ۔اچھا خاصا تھا۔ ازراہِ مزاح میں نے کہا: حاجی صاحب! مہمانوں کیلئے لنگر کا کھانا؟ حاجی صاحب ہنسے اور کہا: آپ نے فرمائش کی ہوتی تو کچھ بھی حاضر کیاجا سکتا ۔ یہ ایک خوشگوار سہ پہر تھی۔ اس کے بعد ٹیکسٹائل انڈسٹری کے بارے میں جب بھی کچھ لکھنے کی ضرورت پڑی، حاجی صاحب سے رابطہ کیا۔ ہمیشہ خوش دلی سے بات کی۔ خوش دلی کے ساتھ انڈسٹری کی اہم شخصیات کے ٹیلی فون نمبر بتائے۔حالاں کہ شعار اس دیار میں یہ نہیںہوتا۔ایک پرندے کی طرح آزاد آدمی۔ تھوڑا سا خبطی، ذرا سا جنونی لیکن ایسا خوش باش کہ باید و شاید۔ محنتی بہت، بلکہ ریاضت کیش ۔ ایسا ریاضت کیش کہ سبحان اللہ۔ خصوصیت یہ ہے کہ مصروف نظر نہیں آتے۔ ہیجان طاری ہونے نہیں دیتے۔ انٹرویو نگاری شروع کی۔ ڈھنگ کی نثر لکھتے ہیں۔ درد کی دولت بھی اللہ نے عطا کی ہے؛چنانچہ کہیں کوئی جملہ جگمگا بھی اٹھتا ہے۔ 1947ء کے لدھیانہ کی جو تصویر اپنے قلم سے انہوں نے بنائی ہے‘ یادگار رہے گی۔ حاجی صاحب کی آنے والی نسلیں اس پہ فخر کر سکیں گی۔ ایک نیم تعلیم یافتہ آدمی نے بڑے بڑوں کو رشک میںمبتلا کر دیا۔ افتخار عارف نے کہا تھا ایک چھوٹی موٹی لہر ہی تھی میرے اندر اس لہر سے کیا طوفان اٹھا سکتا تھا میں حاجی صاحب نے ایک بہت چھوٹی سی لہر سے طوفان اٹھائے رکھا۔برکت ریاضت میں ہوتی ہے‘ذکاوت میں نہیں۔ کب اور کیسے شہرت کا چسکہ پڑا‘معلوم نہیں۔سابق سینیٹر طارق چوہدری کے ساتھ غلام اسحٰق خان سے ملنے پشاور گئے۔ وہ کچھ زیادہ وقت نہ دے سکے۔ تصویر کی فرمائش کی اور بولے ’’بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی‘‘خاں صاحب نے حیرت سے انہیں دیکھا۔ انگریزی ‘فارسی‘ اردو اور پشتو کے اس عالم کو ایسی فصاحت سے کب واسطہ پڑا ہوگا۔ تصاویر ہی تصاویر۔ درجنوں اور سینکڑوں نہیں، شاید ہزاروں سے بڑھ کر۔ جو مشہور آدمی مرتا ہے، اس کے ساتھ کھنچی اپنی تصویر حاجی صاحب اگلے ہی دن چھاپ دیتے ہیں۔ اپنے اخبار میں، اپنے سوشل میڈیا کے کھاتے میں۔ پرانے لاہور کا محاورہ مستعار لیا جائے تو آئے دن حاجی صاحب کی بلّے بلّے ہوتی رہتی ہے۔ بلّے بلّے حاجی صاحب، بلّے بلّے۔ یہی تو وہ چاہتے ہیں۔ ایک آیت پہ کبھی غور کرتا ہوں۔ ’’اس رزق میں سے، جو ہم نے انہیں دیا ہے (دوسروں پر)وہ خرچ کرتے ہیں۔‘‘ واضح ہواکہ آدمی کماتا نہیں، اسے عطا کیا جاتاہے۔ رزق کا تعلق تعلیم اورذہانت سے ہوتا تو ارب پتی طارق چوہدری ہوتے، حاجی اسلم نہیں۔ بلّے بلّے حاجی صاحب۔