ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال حافظ آبادکے نرسری وارڈ میں 4بچے اور سندھ کے قصبہ ٹھل کے نجی ہسپتال میں آکسیجن نہ ملنے پر 4 نومولود بچے تڑپ تڑپ کر جاں بحق ہو گئے۔ بظاہر دونوں واقعات میں آٹھوں بچے ڈاکٹروں اور ہسپتال کے عملہ کی غفلت کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ اگرچہ حافظ آباد ڈسٹرکٹ ہسپتال میں ہونے والی بچوں کی ہلاکتوں پر وزیر صحت پنجاب نے ابتدائی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنا دی ہے تاہم اس سے کسی طرح بھی بچوں کے والدین کے غم کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ نہ صرف بچوں کے والدین کی تالیف قلب کے لئے ان سے حکام اظہار تعزیت کریں بلکہ ان کی مالی امداد بھی کی جائے۔ اس طرح ٹھل میں بچوں کی تشویشناک صورتحال کے باوجود ہسپتال کے عملہ نے انہیں رات کو اکیلا چھوڑ دیا اور بچے آکسیجن بروقت نہ ملنے پر اللہ کو پیارے ہو گئے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں ضروری ادویات اور آلات موجود نہیں ہوتے جن کے بارے میں عموماً فنڈز کی کمی کا بہانہ کیا جاتا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس کا ذمہ دار صرف ہسپتال ہی نہیں محکمہ صحت بھی ہے۔ اسی طرح نجی ہسپتال بھی لوگوں سے بھاری رقوم تو لیتے ہیں لیکن ان کے پاس اکثر آکسیجن اور زندگی بچانے والی ادویات اور ضروری طبی آلات ناپید ہوتے ہیں اور جب مریض ہاتھوں پہ آ جاتاہے تو لواحقین کو کسی اور ہسپتالسے رجوع کرنے کا کہا جاتا ہے اور اس قسم کی تاخیر اکثر اوقات مریض کی موت پر منتج ہوتی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام صوبوں کے محکمہ ہائے صحت نجی ہسپتالوں کا سروے کریں اور جو ہسپتال طبی سہولتوں کے حوالے سے معیار پر پورا نہیں اترتے انہیں بند کیا جائے۔