توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے کون دیکھے گا تہہِ آب نظارے سارے تب کہیں جا کے حقیقت کی طرف آیا میں اس نے آنکھوں سے مری خواب گزارے سارے لیکن اس کے باوجود بھی اگر نفس حقیقت کو خواب ہی سمجھے کہ ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے۔ایک احساس ہے جو عمر کے ساتھ ساتھ پیدا ہو جانا چاہیے مگر وہ بھی توفیق ہی سے ہے۔ یہ بے برکتی ہے یا کوئی بددعا ہے کہ حالات بگڑتے ہی چلے جاتے ہیں اور پھر انہیں سلجھانے کی کوشش بھی نہیں کی جاتی ہے اک تماشہ لگا ہوا ہے تماشہ دیکھنے والے بھی تماشہ بنے ہوئے ہیں۔ امرتا پریتم نے تو کہا تھا اج آکھاں وارث شاہ نوں کدے قبراں وچوں بول۔یہاں تو سعدی شیرازی کو آواز دینا پڑے گی مگر اب کے اخلاقیات تو جیسے ڈائنامیٹ لگا کر اڑا دی گئی ہے۔بدتمیزی اور دریدہ دہنی کا ایسا مذاق پیدا ہو گیا کہ خدا کی پناہ سب کچھ حشر ساماں ہے صرف ادارے ہی اداروں سے نہیں ٹکراتے ہر ادارہ اپنے اندر ہی ٹو ٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اگر طنز کی زبان بولی جائے تو وہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے ساتھ خوب انصاف کر رہے ہیں۔اپنی اپنی سیاسی وابستگی کے پٹے گلے میں ڈالے ہوئے ہیں اور سیاستدانوں بلکہ سیاسی پارٹیوں کے اپنے اپنے جج ،ایک احساس زیاں ہوتا تھا اب اس کا گماں تک بھی نہیں۔ہائے ہائے: پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی جس کو دیکھو بڑے اعتماد سے کہہ رہا ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں ،گویا مخالف عوام کا دشمن یہی دعویٰ دوسرا فریق بھی رکھتا ہے کہ پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہے مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ یہ لوگ کس کے ساتھ ہیں حکومت ہے کہ کھنڈی چھری سے ہاتھ آئے بکرے کو قربانی سے پہلے ہی ذبح کر رہی ہے اور اس کے بعد الٹا ثواب کی توقع رکھتی ہے۔ دوسری طرف وہ ہیں جو ایک بے چینی اور ابتری پیدا کرتے ہوئے ایک بار پھر روڈ میپ دیتے ہوئے پچھلی بات کو وہ رات پہ چھوڑتے ہیں کہ رات گئی بات گئی۔آئین کی بات بھی سبھی کرتے ہیں مگر اسے لاگو اپنے مخالف پر کرنا چاہتے ہیں۔ آئین کبھی ردی کا ٹکڑا اور کبھی بچوں کا کھلونا۔خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ قوم سڑکوں پر نکلنے کے لئے تیار رہے آدھے تو پہلے ہی سڑکوں پر آٹے کے لئے دھکے کھا رہے ہیں باقی بھی مہنگائی سے لڑ رہے ہیں۔دوسری خبر بھی کم اہم نہیں کہ اتحادی پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور ایجنڈا بنیادی یہ کہ سب اتحادیوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔یہ اعتماد بھی جو خوب ہے اس سے پیشتر ایم کیو ایم کو اعتماد میں لیا جاتا تھا اور یہ کام ہر تین ماہ بعد ہونا تھا اب حصے دار زیادہ ہیں اصل میں سب کچھ مفادات کے گرد گھوم رہا ہے: پیار ‘ ایثار‘ وفا‘ دوستی‘ چاہت‘ الفت سب خزانے تھے جو نایاب لٹے جاتے ہیں ایک سراج الحق ہیں کہ جن کے سینے سے آہ نکلی ہے کہ باہم دست و گریباں لوگ ہوش کے ناخن لیں ان کے مفادات کی لڑائی ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے ایسا نہ ہو کہ لیبیا‘ شام اور عراق جیسا اپنا حال ہو۔یہ بات غلط اس لئے نہیں کہ کچھ لوگ باقاعدہ عالمی اداروں کو متوجہ اسی لئے کر رہے ہیں اور ایسے غدار پیدا بھی انہی طاقتوں نے کئے ہیں۔یہ کوئی نئی بات نہیں وہ پہلے ایسے لوگ پیدا کرتے ہیں پھر ان سے کام لیتے ہیں وہ جو تیسری طرف خاموشی ہے۔وہ بھی طوفان کا پیش خیمہ ہی سمجھیے۔جاگتے شیر سے زیادہ سویا ہوا شیر خطرناک ہوتا ہے بے شک آپ شیر نہ کہیں کچھ اور کہہ لیں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ موقر اداروں کا رعب اور خوف ختم ہو چکا کبھی لوگ توہین عدالت سے ڈرا کرتے تھے اب اس کا مزہ لیتے ہیں ویسے عتاب بھی آئے تو سب کے لئے نہیں چھوٹے موٹے تو روند دیے جاتے ہیں مگر نامور اور بلندی پر اڑنے لگتے ہیں اصل میں کلیدی جگہوں پر بیٹھے ہوئے طاقتور لوگ بہت کمزور ہو چکے ہیں اور یہ کمزور اصل میں کردار کی کمزوری ہے اس کے بعد کچھ نہیں بچتا۔ ہاں چیف جسٹس نے کہا ہے کہ سوموار کا سورج اچھی خبر لے کر آئے گا انہوں نے نوید کا لفظ استعمال کیا ایسے ہی نوید کے لفظ فیض صاحب یاد آ گئے۔ میرے چارہ گر کو نوید ہو ، صف دشمناں کو خبر کرو۔ دوسرا مصرع آپ کو آتا ہی ہو گا۔اس غزل میں ایک اور مصرع بھی کمال کا ہے، جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا۔اسی لئے میں ایک اور شعر اپنے بارے میںبھی یعنی عام آدمی کے بارے میں بھی یاد آ گیا: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشہ بنا دیا جناب غالب کا خوبصورت شعر ہے: دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں اچھا ہے اس طرح دل کا غبار بھی نکل جاتا ہے لیکن عدالت تو عدالت ہے وہی بات مانی جائے گی جو قانون اور آئین کے مطابق ہو گی۔انصاف بہر طور ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے بلکہ انصاف کو بھی سب کچھ نظر آنا چاہیے اس سے ہٹ کر مجھے خاص طور پر اس بات کا تذکرہ کرنا تھا کہ لڑائی جھگڑے اور بدکلامی کی موجودہ آلودگی میں مجھے سچ مچ بلاول بہت اچھے لگے وہ مجھے ان تمام سن رسیدہ سیاستدانوں سے بھلے معلوم ہوئے۔ ان کے اندر حس مزاح بھی ہے اور وہ شعور بھی ہاں معصومیت میں کوئی جملہ نشست و برخاست میں غلط ہو جائے تو ہو جائے مگر وہ بھی محاورہ بن جاتا ہے جیسے’’ کانپیں ٹانگتی ہیں‘‘ ایک ٹرینڈ ہی تو بن گیا شاید لغت میں بھی آ جائے ۔زبان و بیاں میں وہ مخالف کا لحاظ ضرور کرتے ہیں ان کی زبان سے نکلا ہوا انگریزی کا لفظ سلیکٹڈ اردو میں بھی مستعمل ہو گیا۔