اس کا چہرا جو نظر آتا ہے چاند آنکھوں میں اتر آتا ہے ایسے آتا ہے خیالوں میں جیسے رستے میں شجر آتا ہے باہر بھادوں کی بارش کے تو اندر کا موسم بھی خوشگوار ہو گیاہے تو ایسے میں یادیں تو اترتی ہیں اور یہ یادیں اگر پھیل جائیں تو ہبوط آدم تک جاتی ہیں۔ یہ آدم کا ذکر بھی ایسے ہی نہیں آ گیا کہ اس کا تعلق مائی حوا سے بنتا ہے اور ان دنوں کا تذکرہ گندم سے علاقہ رکھتا ہے کہ جس کے کھانے کے پاداش میں انہیں جنت سے نکالا گیا۔ اس کا خیال مجھے ایسے ہی نہیں آ گیا ہمیں بھی اللہ نے زرعی ملک بنایا ہے مگر ہم اپنی گندم کو باہر نکال دیتے ہیں اور بلیک زرمبادلہ کماتے ہیں۔ اس کے بعد کم درجے کی گندم درآمد کرتے ہیں اور پھر حکومت سے کچھ رعائتیں حاصل کرتے ہیں۔ اس تمہید کا باعث وہ خبر ہے جو میرے سامنے پڑی ہے ساٹھ ہزار ٹن مزید گندم درآمد۔ آٹا پانچ روپے کلو سستا۔ یعنی وہ جو تیس روپے مہنگا ہوا اب 25روپے مہنگا رہ گیا ہے۔ ویسے بھی خوش گمانی ہے تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔ چھوڑیے اس بات کو ابر گھر کو آیا ہے: ابر اترا ہے چار سو دیکھو اب وہ نکرے گا خوبرو دیکھو مزید خبریں ہے کہ درآمدی گندم کا ایک اور جہاز کراچی پہنچا چاہتا ہے۔یہ برآمد درآمد سے مجھے ادبی دنیا کا نہایت دلچسپ واقعہ یاد آ گیا جو یہاں بے محل نہ ہو گا کہ شعر و شاعری میں بھی یہ عمل کارفرما ہے۔امریکہ میں ہماری ایک شاعرہ مقیم ہیں وہ اپنی شاعری پاکستان سے درآمد کرتی ہیں اس کا مطلب کوئی شاعر یہاں سے اس کے لئے شاعری برآمد کرتا ہے مطلب یہ کہ بھیجتا ہے اور وہ ستم ظریف آگے پانچ چھ شعرا سے رابطے میں ہے۔ زیادہ تر یہ لوگ دشمنوں کی اچھی غزلیں چربہ اتار کر برآمد کرتے ہیں۔ امریکہ میں مقیم اس شاعرہ نے ایک مرتبہ اپنے دوست افتخار افتی سے فون پر پوچھا کہ اس نے شاعرہ کی نئی کتاب پڑھی ہے؟ افتخار افتی نے پلٹ کر یہی سوال شاعرہ سے کر دیا کہ کیا اپنی کتاب اس نے خود پڑھی ہے؟تو دوستوں اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ سوچ رہے ہونگے کہ یہ میں کس طرح کا کالم لکھ رہا ہوں ظاہر ہے ایسا کالم ہی لکھ رہاہوں جیسا آپ پڑھ رہے ہیں۔ کیا کریں: اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ سچی بات تو یہ ہے کہ سنجیدہ بات کرنے کو اب دل ہی نہیں چاہتا کہ ہر طرح سے دیکھ لیا موجودہ طرز سیاست ہماری سمجھ میں ہی نہیں آئی۔ دوست پوچھتے ہیں کہ آخر بتائیں تو سہی کہ پی ٹی آئی کو کیا بنا۔ اتنی بے بسی بے چارگی اور بے سمتی کیوں۔ اب یہ بات سمجھانے کے لئے پھر مجھے کوئی انداز ہی اپنانا پڑے گا۔ کوئی مثال ہی دینا پڑے گی کہ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ اصل میں پی ٹی آئی کی ہوا شروع سے اکھڑ گئی تھی۔ ہوا کو جمانے کے لئے کسی کو مدد کے لئے آنا پڑا۔ عدیم یاد آئے: اس نے کہا عدیم مرا ہاتھ تھامنا چاروں طرف سے ہاتھ نمودار ہو گئے آپ نے دیکھا ہو گا کہ گرمیوں میں جب ہوا ہلکی ہو کر اوپر اٹھتی ہے تو وہاں ایک خلا پیدا ہو جاتا ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لئے ادھر ادھر سے ہوائیں خالی جگہ کی طرف رش کرتی ہیں۔ اکثر اس عمل میں ایک بگولہ پیدا ہو جاتا ہے۔ ویسے منجھدار گرداب اور سونامی بھی شاید اسی طرح کسی گڑ بڑ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ آپ سمجھ گئے ہونگے۔ جب پی ٹی آئی میں ہلکا پن پیدا ہوا تو ایک خلا نے جنم لیا تو پھر کچھ نہ پوچھیے کہ کدھر کدھر سے لوگ اس خلا کو پر کرنے کے لئے آئے اور ابھی تک ایک سیاسی بگولہ رقص میں ہے اور بگولا رقص میں رہتا ہے صحرا میں نہیں رہتا۔ بگولا تو بگولہ ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کے اپنے اختیار میں کچھ نہیں۔ شہباز شریف نے پھرتی دکھائی کہ وہ کراچی پہنچ گئے۔ زرداری سے ان کی ملاقات ہو گئی اور دونوں کی آمنے سامنے والی تصویر خوب وائرل ہوئی اور لوگوں نے خوب خوب اس پر کمنٹس کسے ہیں۔ لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیںکہاںسے۔یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے۔ دونوں رہنمائوں نے ماسک پہن رکھے تھے۔ ویسے تو شہباز شریف کو کالی عینک لگانی چاہیے تھی کہ پتہ نہیں انہوں نے زرداری کو کس طرح فیس کیا کہ ان کو کھمبے سے لٹکا کوئی شخص یا سڑکوں پر گھسیٹتا کوئی آدمی یاد تو آیا ہو گا۔ بہرحال اس وقت تو وہ کراچی والوں کی دل جوئی کے لئے گئے۔ ویسے تو وہ جگہ پر کرنے کے لئے ہی گئے جو پی ٹی آئی نے خالی چھوڑی تھی۔ لیکن آرمی چیف کی تاجروں سے ملاقات زیادہ بامعنی ہے اور ثمرور تھی۔کہ لوگ اب سیاستدانوں پر ہرگز یقین نہیں کرتے۔ کراچی والوں نے خاں صاحب کی تقریر بھی چلائی جس میں کافی اچھے وعدے کیے گئے تھے۔آرمی چیف نے ایک بات اچھی کی کہ کراچی کا سسٹم بحال کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس میں تین سال لگیں گے۔ مجھے اچانک خیال آیا کہ خان صاحب کے پانچ سال تب پورے ہو چکے ہونگے۔ بلاول کو مگر بہت جلدی ہے۔کمال کی بات تو یہ ہے کہ عمران خاں کو ملکی مفاد کی بہت فکر ہے اور اس کی سلامتی کے حوالے سے بات کر رہے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اپوزیشن اور بھارت ایک پیج پر ہیں۔ مگر گھبرانے کی کیا بات ہے فوج تو خان صاحب کے پیج پر ہے۔ انہیں ایف اے ٹی ایف بل کے حوالے سے ذرا بھی فکر مند نہیں ہونا چاہیے کہ اسے تو منظو ہونا ہی ہے۔ہائے ہائے غالب نے کیسا پیارا شعر کہا تھا: پوچھا جو مجھ سے یار نے اڑتے ہیں ہوش کس طرح دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں چلیے ہم اسی زمین پر خان صاحب کے لئے ایک اور شعر لکھ دیتے ہیں: میں نے کہا کہ کس طرح جیتے ہیں لوگ عشق میں اس نے چراغ تھام کے لو کو بڑھا دیا کہ یوں جو بھی ہے‘ لگتا ہے کہ اب حالات کچھ بہتری کی طرف جائیں گے اور خان صاحب کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ ایک بات مجھے پریشان کرتی ہے کہ سکولوں اور کالجوں کو مزید بند نہ رکھا جائے اور اس حوالہ سے بھی آرمی چیف کو آگے آنا پڑے گا۔ اگر یہاں بہانہ سازی کر کے مزید بندش رکھی گئی تو تعلیم ہی برباد نہیں ہو گی اس سے وابستہ کئی گھر متاثر ہوں گے۔ اساتذہ کو بھی اس حوالے سے سوچنا ہو گا کہ وہ بھی اپنی ورتھ ثابت کریں۔ یہ نہ ہو کہ وہ فارغ رہ کر تنخواہ لیتے لیتے بالکل فارغ نہ کر دیے جائیں۔حکومت سوچے ہے کہ تعلیم کے بغیر کئی ماہ گزار لئے کوئی بولا تک نہیں۔ آخر میں سعدیہ صفدر سعدی کا شعر: سکوت شام کا منظر ہے اور بجھی آنکھیں اداسی حد سے بڑھی جب تو کتنی اچھی لگی