نواز شریف کے حوالے سے 92نیوز نے سرخی جمائی کہ پرندہ پرواز کے لئے تیار تو مجھے معاً یعقوب پرواز کا شعر یاد آیا: پرندا آنکھ والا تھا یقینا شکاری ہاتھ ملتا جا رہا ہے ساتھ ہی مجھے مشرف کا زمانہ یاد آیا جب میں نے نواز شریف کے اڑان بھرنے پر ایک کالم لکھا تھا ’’نواز شریف‘‘ اربوں سے عربوں تک‘‘ اور غالب کے مصرع پر گرہ لگائی تھی: یک بیک قید سے یہ تیرا رہا ہو جانا باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے نواز شریف کی بگڑتی ہوئی صحت کا ملال نہیں۔ اللہ انہیں صحت کاملہ عطا کرے آمین یہ جو ان کی لندن روانگی پر کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے رکاوٹ نہ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ بیان برائے بیان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ روک سکو تو روک لو۔ تبدیلی آئی رہے۔ سب سے زیادہ دکھ تو شیخ رشید جیسے لوگوں پر ہوتا ہے کہ فرماتے ہیں کہ نہ تو نواز شریف کے کیس ختم ہوئے ہیں اور نہ ڈیل ہوئی ہے۔ بندہ پوچھے کہ آپ کس کی نمائندگی کرتے ہوئے وضاحتیں کر رہے ہو۔ اب تک اتنے بڑے سانحہ پر استعفیٰ نہیں دیا اور پھر سیاست میں درفنطنیاں چھوڑنے کے لئے آ گئے ہو۔ میں بھی کیا ہوں کہ فضول ہی لفظ ضائع کرنے لگا۔ مجھے تو اصل میں بات کرنا تھی اقبال کی کہ جسے باقاعد ایک سازش کے تحت منظر نامے سے محو کیا جا رہا ہے۔ 9نومبر کی چھٹی ختم کرنا کوئی عام سی بات نہیں۔ یہ یوم اقبال پر چھٹی ختم کرنے کا معاملہ نہیں یہ اقبال کو چھٹی کروانے کی گھنائونی سازش ہے۔ اقبال ایک فکر اور ایک نظریہ کا نام ہے میں تو یہ بھی لکھ چکا ہوں کہ قائد اعظم ان دین بیزار اور گمراہ لوگوں کی دست بردسے اس لئے بچ گئے کہ وہ 25دسمبر کو پیدا ہوئے یوں اب یہ مغرب کے غلام، 25دسمبر کی چھٹی کرنے سے تو رہے۔ یہ تو یکم مئی کی چھٹی بھی ختم نہیں کر سکے۔ قصور ہمارا بھی ہے کہ ہم اس جسارت کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم کر گئے۔ ویسے بھی اقبال ہماری حیثیت سے کچھ زیادہ ہیںوہ جسے دنیا بھر کے مفکر مانتے ہیں کہ جس کے پیغام نے ایران میں انقلاب برپا کر دیا، وہ ہمارے ہاں صرف قوالوں کے ہاتھ میںمشق ستم بنتے رہے۔ ہمارے پاس اقبال ہی تو دانش و حکمت کا استعارا ہیں۔ ہماری شناخت اور ہماری پہچان ۔ ہماری نظریاتی ریاست کا خواب دیکھنے والے اور پھر قائد اعظم اس خواب کو تعبیر دینے والے۔ ایک نے خاکہ بنایا تو دوسرے نے اس میں رنگ بھرے۔ یہ دونوں محسن مسلمانوں کے دل و دماغ کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ قائد کو پہچانا بھی تو اقبال نے تھا اور قائد کو تب اقبال حاصل ہوا۔ یہ بات نوجوانوں کو سمجھانے کی ہے اور دشمن کی کوشش کہ نئی نسل سے اقبال کو دور کر دیا جائے کیونکہ اقبال ہی انہیں جھنجھوڑتا ہے: کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تونے وہ کیا گر دوں تھا تو جس کا ہے ٹوٹا ہوا تارا اقبال کی تڑپ اور کیا تھی وہ ذہن رساجانتا تھا‘تڑپتا تھا جوانوں کو مری آہ سحر دے‘ مرا نور بصیرت عام کر دے محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند۔ ہم کدھر چل نکلے ہیں کہ مجھے ان جوانوں کو دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے کہ جتھوں کی صورت میں ویلیاں مارتے پھرتے ہیں‘پان سگریٹ کی دکانوں پرمنڈلی جماتے ہیں کانوں میں کوکے‘ کلائیوں میں کڑے اور بعضوں نے پونیاں کی ہوتی ہیں ایک ہاتھ میں موبائل اور دوسرے میں کولڈ ڈرنگ اور پھر سگریٹ کے کش‘ یہ سب کیا ہے کون ذمہ دار ہے، والدین ‘ اساتذہ یا حکومت۔ میرا خیال ہے سب نے مل کر نئی نسل کو برباد کر دیا۔ وہ اقبال کا شاہین کدھر گیا ؟ یہ سوال فرسودہ نہیں بلکہ نہایت حسب حال ہے ایسے میں یوم اقبال کی چھٹی ہو جائے یا آہستہ آہستہ اس عظیم شخص کا تذکرہ ہی بند ہو جائے تو یہ عین ہمارے رویوں کا ردعمل ہو گا۔ مولانا مودودی کے ایک فقرہ نے مجھے چونکایا کہ لکھتے ہیں کہ ہم مولوی اور مسٹر کی تفریق اور امتیاز کو ختم کرنا چاہتے ہیں ہم تو بالکل ہی انتہا پر نکل گئے کہ اپنے ہیرو ہی بدلنے لگے۔ کیا یہ بات حیران کن نہیں کہ ہم نے کرتار پور راہداری کے افتتاح کے لئے 9نومبر کی تاریخ رکھی اور ہمارے میڈیا نے بھی اس اقدام کو اتنا اجاگر کیا کہ اقبال کا تذکرہ دب کر رہ گیا میں یہ نہیں کہتا کہ یہ راہداری غلط ہے۔ مجھے بھی معلوم ہے کہ اس سے پاکستان کا امیج اچھا ہوا ہے اور سکھوں کے دل میں ہم نے گھر کر لیا ہے مگر یہ کسی اور دن بھی ہو سکتا تھا۔ اس کو بھی چھوڑیں کہ اتنی زیادہ عنایات پر محبان وطن کے تحفظات ہیں لیکن آپ باقی سب کچھ نظر انداز کیوں کر رہے ہیں۔ خود عمران خاں نے یوم اقبال کی چھٹی کے حوالے سے کیا کیا ٹویٹ کئے تھے۔اس کا بھر پور تذکرہ برادر آصف محمود نے اپنے کالم میں کیا ہے اور اب عمران اپنی حکومت میں کیا کر رہے ہیں۔ لگتا ہے ملے ہوئے ایجنڈا پر سب گامزن ہیں۔ بار بارختم نبوت کے قانون کو یونہی نہیں چھیڑا جاتا اقبال اس گٹھ جوڑ کی طرف پہلے ہی اشارہ کر چکے۔ سجاد میر نے بھی ہوشیار رہنے کا یونہی نہیں کہا صورت حال کو سب سمجھتے ہیں اور چال چلتے دیکھ رہے ہیں مگر اقتدار سب کو عزیز ہوتا ہے۔ کیا کریں حکومت کی مجبوریوں اور ہماری کمزوریوں نے ہمیں پابہ زنجیر کر رکھا ہے کیا لطف کی بات ہے کہ آئی ایم ایف خود ہی ہماری حالت زار پر تبصرہ فرماتا ہے کہ مہنگائی کم ہو جائے گی۔ معیشت بہتر ہونے جا رہی ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ لوگ عوام کو نچوڑ رہے ہیں اور امید فردا پر ہمیں ٹال رکھا ہے۔ کہتے ہیں حکومت نے سارے وعدے پورے کر دیے۔حالانکہ سب کچھ سپید و سیاہ ان کے ہاتھ میں ہے۔ حکومت تو کٹے ہوئے بازو پر بیٹھی ایک تماشائی ہے کچھ خیرات ان کی جھولی میں بھی ڈال دی جاتی ہے جن کا نظریہ ہی صرف اقتدار ہو، آپ ان سے کوئی بھی کام لے لیں۔ لگتا یہی ہے کہ حکمرانوں کے قدم زمین پر ٹک نہیں رہے۔ بس چلے جا رہے ہیں ۔خدا کے سہارے‘ خدا نہیں بلکہ ناخدا ۔انہیں بوکھلاہٹ میں کچھ نظر نہیں آرا۔ میں مولانا کے دھرنے کی بات تو گول کر رہا ہوں کہ فی الحال اس کو رہنے دیں کہ یہاں پہلوان وہی ہے جو دکھاتا کچھ اور ہے اور دائو لگاتا کوئی اور ہے۔ نورجہاں سے بھی پوچھا گیا تھا کہ کبوتر کیسے اڑا تو اس نے اپنا دوسرا ہاتھ بھی کھول دیا تھا اور یوں دوسرا کبوتر بھی اڑ گیا۔ نواز شریف کی رہائی اور اڑان نے دلچسپ صورت حال پیداکر دی ہے کہ خود پی ٹی آئی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان خود کہہ رہے کہ یہ ایک ڈیل ہوئی ہے جبکہ خان صاحب کا تکیہ کلام ہے کہ ڈیل نہیں کروں گا۔ اب کس کا یقین کیا جائے۔ ویسے ڈیل کا تو سوال پیدا نہیں ہوتا کہ یہ ریلیف صحت کی بنیادوں پر خود عدالت نے دیا ہے اور سب میڈیکل رپورٹیں سب کے سامنے ہیں اور ایک قیدی کی جان کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اصل میں حالات جس نہج پر چلے گئے ہیں وہ سب کے لئے تشویشناک ہیں۔ آپ فواد چودھری‘ فردوس عاشق اعوان اور ایسے ہی نابغہ ہائے روزگار کی بے تکی باتوں سے لوگوں کو کب تک بور کرتے رہیں گے۔ منصوبے ہی منصوبے اعلانات ہی اعلانات عملی طور پر کچھ بھی سامنے نہیں آیا۔ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے اکثر شرکا نے بھی مہنگائی کا رونا رویاآپ اپنا کچھ سوچیں کہ آپ گرداب میں آ گئے ہیں اور عوام تو پہلے ہی غوطے کھا رہے ہیں: پھر مرے ہاتھ پائوں چلنے لگے جب مرے ہاتھ سے کنارا گیا میرے بازو نہیں رہے میرے لو مرا آخری سہارا گیا