صحافت میں آنے سے بہت پہلے شام صاحب سے میرا پہلا تعارف ان کی ایک دل پذیر نظم’’بیٹیاں پھول ہیں‘‘ کے ذریعے ہوا۔ میں اس وقت کالج کی طالبہ تھی اور یہ نظم میں غالباً ایک ڈائجسٹ میں پڑھی تھی جو مجھے بہت اچھی لگی تو اپنی ڈائری میں نوٹ کر لی۔ پھر چند برسوں کے بعد میں ان سے ایک پینل انٹرویو میں ملی۔ میرا نوکری کے لئے زندگی کا پہلا انٹرویو تھا(الحمد اللہ یہی انٹرویو آخری بھی ثابت ہوا کہ اس کے بعد انٹرویو دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑی) ایک بڑے اخبار کے ایڈیٹرز کا پینل تھااور محمود شام اس پینل کے سربراہ تھے۔ ہمیں اس روز معلوم ہوا کہ بیٹیاں پھول ہیں‘ نظم کے خالق محمود شام اس بڑے ادارے کے گروپ ایڈیٹر ہیں۔ پھر اگلے نو سال میں نے اس ادارے میں کام کیا۔ میری تعیناتی بطور سب ایڈیٹر میگزین ہوئی۔2007ء میں، میں نے وہیں سے کالم لکھنے کا آغاز کیا۔ اور یہ میری صحافتی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ جب کالم لکھنے کا سودا دل میں سمایا تو ایک روز گروپ ایڈیٹر کے نام ایک خط نما درخواست سی فیکس کر دی کہ میں کالم لکھنا چاہتی ہوں مجھے بھی موقع دیا جائے۔ اس کا شام صاحب نے مجھے حوصلہ افزا جواب دیا اور کہا کہ آپ ہمیں نمونے کے کالم لکھ کر بھیجیں۔ کراچی میں ادارتی بورڈ یہ فیصلہ کرے گا۔ خیر ہم نے بڑی محنت سے نمونے کے کچھ کالم وقفے وقفے سے فیکس کئے۔ پھر ایک لمبا پراسس ہے دفتر کی بیورو کریسی اور سرخ فیتے کے مراحل سے گزر کرجون 2007ء میں میرا پہلا کالم ممتاز صحافی ارشاد احمد حقانی کے کالم کے عین نیچے شائع ہوا۔ اس روز کی خوشی آج بھی میرے دل کو بھر دیتی ہے۔ یہ میری صحافتی زندگی میں ایک نئی شروعات اورایک نئے سفر کاآغاز تھا۔ ایک نو آموز سب ایڈیٹر کو جس کا کل اثاثہ پانچ چھ برس کا صحافتی تجربہ ہو۔ ادارتی صفحات کے عظیم افق پر لکھنے کا موقع دینے کا تمام ترکریڈٹ جناب محمود شام کو جاتا ہے۔ ان کا کردار ایک دور اندیش کسان جیسا تھا جو اس بات پر یقین رکھتا ہے جہاں تیار اور کھڑی فصل کوکاٹنا اورثمر سے لطف اندوز ہونا اہم ہے وہیں اگلے موسموں کی پنیری لگانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ نئے لوگوں کو راستہ دینے‘ ان پر یقین کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی اعلیٰ ظرفی بھی ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ شام صاحب کی یہ اعلیٰ ظرفی آج بھی بہت سے نوجوانوں کو مہمیز دے رہی ہے۔ راستہ دینے اور صلاحیتوں کو اجالنے کا یہ عمل اب وہ ’’اطراف‘‘ کے پلیٹ فارم سے سرانجام دے رہے ہیں۔ شام صاحب اطراف کو اپنی آخری عمر کے عشق سے تعبیر کرتے ہیں اخبار کی صحافت سے نکل کر ماہنامہ اطراف کا آغاز کیا۔ جولائی 2019ء کو اس ماہنامے کو پورے پانچ برس مکمل ہوئے۔ ایک طرف الیکٹرانک میڈیا کا ہنگام ہے تو دوسری طرف ڈیجیٹل کمیونی کیشن کا سونامی۔ اس فراغت اور فرصت کو اپنے ساتھ بہائے لے جا رہا ہے جو قاری کو اخبار اور میگزین کے مطالعے کے لئے دستیاب ہو اور پھر معروف خیال یہی ہے کہ آج کل کون رسالے پڑھتا ہے۔ ایسے دور میں شام صاحب نے اپنے ذاتی ذرائع وسائل سے ایک ماہنامے کا آغاز کیا اور وہ بھی ایسا میگزین جس میں نہ شوبز کی دنیا کی چکا چوند تصویریں ہیں کہ قارئین کا دل لبھائیں۔ نہ بھڑکتے ہوئے سیاسی سکینڈلز کی خبریں ہیں۔ نہ فیشن کے رنگین صفحات‘ نہ حالات کی سنسنی خیزی کو بیان کرتا ہوا منفی مواد یعنی کہ اطراف ان تمام بارہ مصالحوں سے پاک ہے جس کی بنیاد پر اس دور کا میڈیا اپنا وجود کھڑا کئے ہوئے ہیں۔ توپھر اطراف میں ہے کیا؟ کیا چھپتا ہے اس میں ہر مہینے۔!اس کا جواب اطراف کا مطالعہ کر کے ہی مل سکتا ہے۔ میں پانچ برس سے اطراف کی قاری ہوں پورے مہینے کے بعد جب اطراف آتا ہے یقین کریں اس میں مجھے آگے بڑھتے ہوئے پاکستان کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ سنجیدہ موضوعات پر مکالمے ہیں۔ پاکستان کی خدمت کرنے unsung herosکی کہانیاں ہیں تاریخ‘ نفسیات ‘ بین الاقوامی امور۔ انسانی رویوں سے متعلق فکر انگیز مواد پڑھنے کو ملتا ہے۔ چیختے چلاتے ہوئے میڈیا کے درمیان ایک مثبت انداز فکر اپنے قارئین تک پہنچاتا اطراف ایسے تمام موضوعات پر مواد چھاپتا ہے جو اس وقت ہمارا مین سٹریم میڈیا نظر انداز کر رہاہے۔ اطراف ایک تھنک ٹینک کا کردار بھی نبھا رہا ہے۔ سماجی سیاسی اور معاشی ایشوز‘ دانشوروں کے مکالمے اورتجاویزایسی ہوتی ہیں جی چاہتا ہے متعلقہ شعبوں کے اہل اختیار تک ضرور پہنچیں۔ خیبر سے کراچی اور بلوچستان سے پنجاب اور جنوبی پنجاب کے تمام طلبہ و طالبات کو اردو زبان‘ حرف و لفظ سے جڑنے کی ترغیب دینے کے لئے اطراف گاہے بگاہے انعامی مضامین کے سلسلے شروع کرتا ہے۔ بلاصلاحیت نوجوانوں کواپنے اظہار کا موقع دیتا ہے پھر جیتنے والوں کے اعزاز میں بڑی بڑی تقریبات کروانا ان کو نقد انعامات دلوانا قابل قدر اقدامات ہیں اور نوجوانوں کے لئے ایسی حوصلہ افزائی ان کی زندگی کے رخ کو بدل دیتی ہے۔ اطراف کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسے سیلیبرٹیز سے نہیں سجایا جاتا۔ بلکہ معاشرے کے ہر اس فرد کو جو اپنی جگہ مثبت کام کر رہاہے، سیلیبرٹی سمجھا جاتا ہے۔ وہ کسی ہسپتال کی نرس ہو یا کسی سرکاری سکول کی استانی۔ ریٹائرڈ اور بزرگ شہریوں پر خصوصی نمبر نکالنا بھی اطراف کا خاصا ہے جھنگ کی کھلی گلیوں اور اونگھتے گھروں کی یادوں کا اسیر شاعر جس کی یادوں کے جہان میں جھنگ کے ریگ زار ‘ سرکنڈے ‘ کیاریاں ‘ پگڈنڈیاں ‘ چناب کے پانیوں سے منہدم ہوتا ہوا آبائی گھر کا منظر‘ برقعوں اور چادروں میں لپٹی خوب صورتی کے دھندلے عکس آج بھی آباد ہیں۔ اس کا اظہار بھی ان کی شاعری میں دکھائی دیتا ہے لیکن بارسوخ صحافی کی حیثیت سے سیاست اور سماج کا مشاہدہ ان کے شعور اور لاشعور میں اتنا طاقتور ہے کہ اب ان کی شاعری میں اس حوالے سے بہت عمدہ اظہار ہوتا ہے جو عام شاعروں کے ہاں دکھائی نہیں دیتا۔ مثلاً ایک نظم ہے حکمرانو سنو! حکمرانو! کبھی تم نے کم بولتی اکثریت کی آنکھوں میں جھانکا وہاں کتنی بے چینیاں ہیں! کبھی تم نے اپنے لئے نعرہ زن نوجوانوں کی بنضیں ٹٹولیں وہاں کیا پریشانیاں ہیں! کبھی تم نے محروم ہونٹوں پہ سوچوں کو کچھ دیر روکا وہاں کس قدر تشنگی ہے! کبھی لاڈلی پیاری بہنوں کی ڈھلتی جوانی پہ اک بار کانپے وہاں کس قدر برہمی ہے کبھی بوڑھی مائوں کی مرجھائی ممتا پہ کچھ پل بھی روئے وہاں کتنی بے چارگی ہے اگر شاہی آنکھوں سے یہ ساری سچائیاں اب بھی اوجھل ہیں تو وقت للکارتا ہے تمہیں حکمرانی کا حق کس طرح ہے؟ صحافت کی ذمہ داریاں وقت کو کھا جانے والی ہوتی ہیں۔ ان پُر پیج راستوں پر اکثر صحافیوں سے ان کے ہمزاد شاعر بچھڑ جایا کرتے ہیں لیکن یہ بھی محمود شام صاحب کا ہی کمال ہے۔ صحافت کے کارزار میں بھی اپنے ہمزاد شاعر کو سنبھالا اور شاعری کے گیسو سنوارتے رہے۔ شاید اس لئے کہ وہ یہ یقین رکھتے ہیں ؎ میں نہ ہوں گا تو یہ کالم تجزیے ہوں گے کہاں پھر میرا واحد حوالہ شاعری رہ جائے گی